فلسطین ایک پٹی ہوئی فلم ہے؟


ان پھسلواں ڈھلوانوں پر

گذرتے وقت کو دیکھتے دیکھتے

شکستہ سایوں کی پرچھائیں میں

ہم وہی کرتے ہیں جو ایک قیدی کرتا ہے

ہم امید بوتے رہتے ہیں ( محمود درویش )

پچھلے 70 برس میں جتنی نظمیں فلسطینیوں نے لکھیں یا فلسطینیوں پر لکھی گئیں اور کس نے کس پے لکھیں؟ اقوامِ متحدہ میں جتنی قرار دادیں فلسطین پر منظور ہوئیں اور کس معاملے پر منظور ہوئیں؟

کیا کسی اور قوم کی چوتھی نسل بھی کیمپوں میں پیدا ہو چکی ہے؟ کیا دنیا میں غزہ سے بڑی کوئی جیل ہے؟ ایسی جیل جس میں بیس لاکھ قیدی ہوں؟

پچھلے 70 برس میں جتنے دلاسے فلسطینیوں کی جھولی میں ڈالے گئے، جتنی بار ان کے سامنے ان کے نام نہاد دوستوں کی پلکیں جھکیں، جتنے مشورے انہیں ملے، جتنی بار تحمل کی نصیحت ہوئی، جتنے مرئی و غیر مرئی احسانات ان پر جتائے گئے، جتنی بار انہیں جبری سمجھوتوں کے تھپڑ رسید ہوئے، کیا کسی اور انسانی گروہ کے ساتھ بھی یہ مسلسل مذاق ہوا؟

ہم 70 برس سے فلسطینوں کے حقوق کے حق میں نعرے لگاتے لگاتے تھک چکے ہیں۔ آخر ایک ہی فلم کوئی بار بار کتنی بار دیکھ سکتا ہے۔ بھلے اس میں کتنا بھی ایکشن، تھرل، رومانس، ٹریجڈی اور مزاح بھرا ہوا ہو۔

مگر ہاتھ کا پتھر گواہ ہے کہ ہر ہوش سنبھالنے والے فلسطینی بچے کے لیے یہ فلم ابھی ابھی شروع ہوئی ہے۔

اگر اسرائیل ایک زمینی حقیقت ہے جو کوئی نہیں بدل سکتا تو پھر فلسطینی کیا ہیں؟ چلو کچھ اور زمینی حقائق مان لیتے ہیں تاکہ پاپ کٹے۔ غربت بھی زمینی حقیقت ہے، زیادہ غلہ کیوں اگائیں، نئی ملازمتیں کیوں پیدا کریں؟

بیماریاں بھی زمینی حقیقت ہیں، ان پے تحقیق اور ویکسین ایجاد کرنے پر اربوں ڈالر کھپانے کے بجائے انہیں خدا کا قہر کیوں نہ سمجھ لیں؟

دہشت گردی بھی زمینی حقیقت ہے اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لیے دنیا کو عراق، شام، یمن اور افغانستان کیوں بنائیں؟

کیا 14 مئی 1948 سے پہلے اسرائیل زمینی حقیقت تھا؟ کیا فلسطینی حقیقت کو زمین سے کھرچ کر ایک نئی زمینی حقیقت وجود میں نہیں لائی گئی؟ اسی کلئے کے تحت برباد فلسطینی اگر ایک زمینی حقیقت ہیں تو انہیں ایک آباد زمینی حقیقت میں بھی تو بدلا جا سکتا ہے۔

امریکہ کا اسرائیل کو زمینی حقیقت سمجھ کر ساتھ دینا تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ امریکہ خود ریڈ انڈیئنز کی زمینی حقیقت کو افسانہ بنا کے وجود میں آیا مگر باقی یورپی اور غیر یورپی ممالک اور ان کے اصل باشندے تو صدیوں سے اپنی ہی زمینی حقیقت میں جی رہے ہیں۔

کوئی تو بتائے کہ فلسطینی اس زمین پر مریخ سے آ کے آباد ہوئے، یا یہ امریکن انڈیئنز کا کوئی قبیلہ ہے جو 15ویں صدی میں امریکہ چھوڑ کر فلسطین میں پناہ گزین ہو گیا، یا یہ ان غلاموں کے مفرور بچے ہیں جنہیں پانچ سو برس پہلے پکڑ پکڑ کر مغربی افریقہ سےشمالی و جنوبی امریکہ بھیجا جا رہا تھا، یا یہ فلسطینی دراصل وہ ہسپانوی مسلمان ہیں جنہیں تشریف پے لات مار کر آٹھ سو برس پہلے نکال دیا گیا اور انہوں نے یروشلم کے اردگرد ٹھکانے بنا لیے۔

1948 سے پہلے ان فلسطینیوں کی بھی کوئی شہریت، ملکیت ہو گی یا نئے زمینی حقائق نے اسے بھی دفن کردیا ؟ ہاں دفن کر دیا؟

اگر دلائل سے مسئلہ حل ہو سکتا تو آج فلسطینی دنیا کا سب سے زیادہ پرمسرت گروہ ہوتا۔ اصل زمینی حقیقت شائد طاقت ہے۔ طاقت ہے تو رات بھی دن ہے، طاقت ہے تو ظالم بھی مظلوم کا کاسٹیوم پہن کر تماشائیوں کو سسپینڈڈ بلیف میں رکھ سکتا ہے، طاقت ہے تو غلامی بھی آزادی باور کروائی جا سکتی ہے۔

محاصرہ تب تک جاری رہے گا

جب تک ہم

مکمل آزادی کے ساتھ مکمل غلامی نہیں چن لیتے ( محمود درویش)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).