سچ+سچ=جھوٹ


یہ میںنے مسئلہ فیثا غورث کو الٹاکر بیان نہیں کیا آج کل کے مروج بیانیے کی ترسیل کرنا چاہتی ہوں۔میں عمر میں چوہدری شجاعت سے بڑی ہوں۔اس لئے اپنی یادداشت اور سنی سنائی باتوں کی تصدیق معزز چوہدری صاحب سے چاہتی ہوں۔آپ نے اپنے والد کا مختصر تذکرہ کیاہے۔میری ان سے کئی ملاقاتیں‘ کئی دفاتر میں ہوئیں کہ میں لوکل گورنمنٹ کے ادارے میں کام کررہی تھی۔سنا تھا کہ قبلہ چوہدری صاحب نے شاید پولیس میں سپاہی کی نوکری چھوڑ دی تھی یاکہ نکالے گئے تھے۔اگر نوکری چھوڑنے کے بعد‘کسی اور وسیلے اور طریقے سے وہ نیشنل بینک کے گورنر بورڈ میں بھی شامل تھے کہ جب میں ملی تو مجھ سے اس عہدے کا تذکرہ تجمل حسین انکم ٹیکس کمشنر مغربی پاکستان نے کیا تھا۔ان کے فلاحی کاموں کا استاد دامن اور حبیب جالب‘ دونوں سے تذکرہ بھی سناتھا۔مگر کچھ باتیں جو یقیناً بڑے چوہدری صاحب نے آپ نے سنی ہونگی‘ان کی کمی محسوس ہوتی ہے‘مثلاً ون یونٹ کس نے اور کس کے کہنے پر بنا۔چوہدری محمد علی کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان کیا بجٹ مسادی دیاجاتا رہا تھا۔

ایسی بہت سی باتیں آپ کی کتاب میں چاہتی تھی پڑھنا۔آگے بڑھیں تو یہ کوئی نہیں بتاتا کہ چلڈرن لائبریری پر لال مسجد والے کیسے قابض ہوئے جبکہ احمد فراز اور میں شور مچاتے رہے اس طرح جب کارگل کا واقعہ‘ کیا مکمل طورپر مشرف کا جذبہ خودی تھا۔ہمارے معصوم وزیراعظم بے خبر تھے‘ پھر بھاگے بھاگے امریکہ کیوں گئے تھے۔ویسے چوہدری صاحب کی پرویز الٰہی صاحب سے دلی محبت سے آدھی کتاب لبریز ہے۔میں جانتی ہوں کہ چوہدری صاحب بہت موضوعات چھیڑو تو کہہ دیاکرتے تھے مٹی پائو‘ ان میں سے ایک واقعہ بھی تحریر میں نہیں آیا۔اس طرح انکی میز سے کوئی دشمن بھی بنا لذت کام ودہن کے نہیں گیا۔یہاں مجھے کیوں کمینہ سا خیال آرہاہے کہ اتنے بڑے سیاست دان کا بظاہر کوئی بھی دشمن یا نظریاتی مخالف نہیں ہے۔اب نظریہ کی بات آگئی تو آج کل نواز شریف کے نظریے کی بات ہورہی ہے چوہدری صاحب نے اس پر تبصرہ نہیں کیاہے۔البتہ چند روزہ وزارت عظمیٰ کا اپنا اور جمالی صاحب کے دورکے بارے میں مختصر اشارے دئیے ہیں۔ہمیں تو جمالی صاحب کا ایک کارنامہ معلوم ہے کہ انہوں نے ایک سڑک کانام ’’بیگم سرفراز اقبال روڈ‘‘ رکھوادیا تھا۔کچھ ہولناک اور اندوہ ناک واقعات مثلاً بھٹو صاحب کی پھانسی اور بی بی بے نظیر کی شہادت کو لائق تحریر کیوں نہیں جانا کہ آپ ایک سیاسی رہنما ہیں اور سیاسی اثرات جو ملک بھر پرمرستم ہوئے‘ سب سے بڑھ کر سقوط مشرقی پاکستان‘ چھوڑیے میں سمجھ گئی آپ صلح جو سیاست دان ہیں۔ویسے زخموں کو کریدا نہیں کرتے۔تاریخ ہمیں یہی سبق سکھاتی ہے اور اس لیے ہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر مبارک علی کی کتابیں پڑھنے سے منع کرتے ہیں۔ویسے نصاب میں تاریخ پڑھائی ہی نہیں جاتی۔ تاریخ اور وہ بھی مغلیہ تاریخ‘ خاص کر اکبر کے دور حکومت میں مرزا صاحبان کی طرح قصہ تو انارکلی کا مرزا حامد بیگ نے چھیڑا ہے پہلے اس کا نسب دریافت کیا۔اسی دوران ناول تحقیق اور وہ بھی مغلیہ خاندان کی تحقیق‘ نورتن کے حوالے‘محمد حسین آزاد کے حوالے‘ پھر پلٹ کرکے آصف کے انارکلی فلم بنانے‘ مدھوبالا دلیپ کمار کے قصے آگے بڑھیں تو دربارشاہی میں چنے گئے خوان کاتذکرہ ہے۔ابھی میں یہ مزالے رہی تھی تو ابوالفضل کی تحریر کا حوالہ آگیا۔پھر دریائے راوی میں ایک کنارے پر جھروکا ہے جہاں مہابلی درشن دیاکرتے تھے۔میں پھرانارکلی کو ڈھونڈنے اگلے صفحات تک گئی پھر پلٹی‘ مری کوکوہ مری پڑھ کر مرزا صاحب کی معصومیت پر ہنسی آئی‘اب وہ ذکر کررہے ہیں کہ پنڈی سے مری الگ ٹانگے چلاکرتے تھے۔انگریز اپنی بگھی میں بیٹھ کر آتے تھے‘اصل مقصد یہ ہے کہ لکھنے بیٹھے تو ناول تھے مگر سچی بات ہے کہ مرزا صاحب پکے محقق ہیں۔انہوں نے انارکلی کا ازبک خاندان سے تعلق بھی نکالا اور ساتھ ساتھ انارکلی ڈرامہ لکھنے والے ایک قبیلے کے ساتھ سفر میں ہرکردار کو شناخت دی ہے۔بیچ میں ایک حوالے میں حمید المکی کاذکر بھی آگیا ہے۔بہرحال دوست کی محبت میں‘ میں نے یہ ناول پڑھ ڈالا۔

میرے ذہن میں آج سے کوئی چار سال پہلے کا الہ آباد آگیا۔شمس الرحمن فاروقی کے بھائی آثار قدیمہ کے ماہر ہیں۔انہوں نے انارکلی کے مقبرے کی جوکہ لاہور سیکرٹریٹ میں ہے‘ جہاں پرانے مسودات رکھے جاتے ہیں‘ جن پر اور انارکلی پر اپنے اندازسے ہمارے دوست انیس ناگی نے بھی ناول لکھاتھا مگر محقق فاروقی نے بتایا کہ وہ مقبرہ انارکلی کا نہیں ہے۔وہاں نام بھی لکھا ہے(مجھے یاد نہیں) البتہ امتیاز علی تاج کے گورنمنٹ کالج میں یہ ناول لکھا۔وہ نہ صرف گورنمنٹ کالج میں اسٹیج کیاگیا بلکہ آج تک بے شمار فلمیں انارکلی پربن چکی ہیں۔انور کمال پاشاجب انارکلی فلم بنارہے تھے۔احمد راہی نے پوچھا‘ آپ کی ہیروئن کون ہوگی‘ پاشا صاحب نے جواب دیا ’’نورجہاں‘‘ راہی صاحب بے ساختہ بولے اچھاتسی پرانی انارکلی بنارہے ہو‘‘۔

آئیے اب واپس مرزا صاحب کے ناول کی طرف چلیں کہ وہ انارکلی فلم یونٹ کے ساتھ آخری ابواب میں لاہور چلے آتے ہیں۔چین چوک یاد آتا ہے۔ٹی اسٹال اور سامنے اجڑے ہوئے فلم اسٹوڈیوز کو یاد کرتے ہوئے‘ان کو دوبارہ آباد کرنے کی نوید بھی سناتے ہیں۔ایک لڑکی شازی ہے‘جوسب سے مختلف ہے‘جوناول کے شروع سے وکھری ٹائپ ہے اور آخر میں اپنے اور انارکلی کے حقوق کے لیے احتجاج کررہی ہے۔سب باتیں میں یار‘ یہ ہیومن رائٹس والے‘ سب ڈھکوسلہ۔ابھی ناول کے اختتام کے قریب‘ناول کی میڈم ایک وکیل صاحبہ سے ملتی ہیں اوروہ اخبار والوں کو بلالیتی ہیں‘ آگے بس اختتام ہے کہ ہیرئن شازی میگافون تھامے کھڑی ہے۔اور کہہ رہی ہے میں کوئی اور نہیں ہوں۔نادرہ، شہنشاہ اکبر کی ایک لونڈی جو انارکلی کہلائی۔دیکھئے ایک کالم میں پاکستان کی اور مغلوں کی تاریخ آپ کو سنادی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).