ووٹ ایوب خان کو دیا، دعا مائی فاطمہ کے لئے


شعر تو بلاشبہ دلاور فگار ہی کا ہے ، مگر یاد آ رہے ہیں پروفیسر زمرد ملک جو انگریزی زبان و ادب کے استاد تھے اور منفرد لہجہ کے پنجابی شاعر۔ چھیالیس سال کی عمر میں جب دنیا سے گئے تو ’دُور درشن‘ پر اُن کی یاد میں ہونے والے پروگرام کی میزبانی امرتا پریتم نے کی تھی۔

پھر بھی آج کے کالم کی ابتدا شاعری کی بجائے زمرد ملک کے ایک عجیب و غریب حکیمانہ قول سے ہو گی جو جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں ہماری بی اے کی کلاس میں لیکچر کے بعد انہوں نے کینٹین میں حسبِ معمول دو تین طلبہ کے ساتھ چائے پیتے ہوئے بیان کیا تھا۔ فرمانے لگے ’’یار کتنا بھی سیریس واقعہ ہو جائے ، ڈیڑھ دو مہینے گزر جانے پہ وہ لطیفہ ہی بن کے رہ جاتا ہے۔ اِس لئے آدمی کو چاہئیے کہ جب واقعہ رونما ہو رہا ہو تو اُسی وقت اُسے لطیفہ سمجھنا شروع کردے ‘‘۔ بہت کام کی بات ہے ، مگر ذرا متنازعہ نوعیت کی۔

کام کی بات اِس لئے کہ استاد کی نصیحت پلے باندھتے ہی محسوس ہوا کہ درد ناک واقعات کی اذیت کم کر لینے کا ایک موثر نسخہ ہاتھ آ گیا ہے۔ والدین سے ڈانٹ پڑ رہی ہے اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ نہیں پڑ رہی۔ آبائی شہر میں لہائی بازار سے میانہ پورہ جاتے ہوئے لُو کے تھپیڑے استقبال کر رہے ہیں مگر ہمارا خیال ہے کہ نہیں کر رہے۔ برسات میں امتحان کی تیاری کے دوران سیالکوٹی مچھروں نے جسم کے ناقابلِ ذکر حصوں میں گھسنے کی کوشش بھی کی لیکن اُن کی سفاکی سے نمٹنے کے لئے سوچ لیا کہ مذکورہ کارروائی اپنے وہم و گمان کے سوا کچھ بھی نہیں۔

پر ، جناب ، انسانی زندگی کے حقیقی مسائل اگر تصوراتی مفروضوں سے حل ہو سکتے تو یہی دنیا جنت کا نمونہ نہ بن جاتی۔ اسی سبب تو مَیں نے استاد محترم کے کار آمد مشورے کے متنازعہ پہلو کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو اُن واقعات کو مستثنیٰ قرار دینا پڑے گا جہاں شاعرِ فطرت ولیم ورڈز ورتھ کی بتائی ہوئی ’ڈبل ایکسپوژر‘ ٹیکنالوجی کام نہیں کرتی۔ ڈبل ایکسپوژر کا مطلب ہے تصویر کے اوپر ایک اور تصویر کھینچ لینا جس کی بدولت ورڈز ورتھ بستر پہ لیٹے لیٹے جھیل کنارے اٹھلاتے ہوئے سنہری پھولوں کی صحبت میں پہنچ جاتا تھا۔

مَیں بھی فیض احمد فیض کی طرح قطرے میں دجلہ دیکھنے کی کوشش کر تو سکتا ہوں ، لیکن اگر انہی کے الفاظ میں قطرہ ہو ہی گلی کی بدرو کا تو اِس زہراب کو دجلہ کے پانی میں کون تبدیل کرے گا۔ استاد نے مشورہ تو کالج کے فائنل ائیر میں جا کر دیا۔ تو مَیں اُن وارداتوں کا کیا کروں جو پرائمری اسکول میں داخلہ سے پہلے ہی دل و جاں پہ گزر گئیں ؟ تب یہ ہوش نہیں تھا کہ اگر مشاہدے میں احتیاط برت لی جائے تو بعد ازاں اِس کی اذیت کم کر لینے میں مدد ملے گی۔

اولین مشاہدہ لاہور کے دہلی گیٹ اور مصری شاہ کے درمیانی علاقہ کا ہے ، جہاں امی کی عینک والی تائی کے ساتھ کشمیری بازار سے نانا کے گھر واپس جاتے ہوئے ہمارے ساتھ کوئی بڑا ہاتھ ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔ مجھے اتنا یاد ہے تائی نے یکدم گھبرائی ہوئی آواز میں کہا ’’ہائے ہائے ، کرفیو آرڈر لگ گیا ہے‘‘۔

مجھے اِس جملہ کے صحیح غلط کا پتا نہیں ، مگر انہوں نے یہی کہا اور مجھے گود میں لے کر ایک دکان کے تختہ کے نیچے گھس گئیں۔ نیچے گندہ نالہ تھا اور گھبرائی ہوئی تائی کے پاؤں اُس کے آرپار۔ جب ہم اِس حال میں تھوڑا تھوڑا فاصلہ طے کر رہے تھے تو مَیں نے ایک موریہ پُل کے اندر عزیز روڈ پہ عجیب آوازوں والی فوجی گاڑیاں تیزی سے گزرتی دیکھیں۔ یہ انٹی قادیانی تحریک کا ہنگامہ نہیں تھا جو میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہوگی۔ پر جو کچھ دیکھا اُس کی دہشت کا نقش مستقل ہو گیا۔

چند سال بعد جب جنرل ایوب خان کا انقلاب برپا ہوا تو اُس دن دادا مجھے اسکول سے لینے کے لئے آ ئے۔ کہنے لگے آج تمہاری پھوپھو عالم کی طرف چلنا ہے۔ مراد تھیں اُن کی بھانجی جو سیالکوٹ میں پورن بھگت سے موسوم رہائشی علاقے پورن نگر میں رہتی تھیں۔

راستے میں کچھ پھل بھی خریدے۔ ہم خوشی خوشی باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ ریلوے روڈ سے گزر کر بڑے ڈاک خانہ کے پاس کیا دیکھا کہ عمارت کے باہر فوجی جوان کھڑے ہیں۔ جنگی وردیوں میں ملبوس ، سروں پہ گھاس پھوس ، ہاتھوں میں بندوقیں جن پہ سنگینیں چڑھی ہوئیں۔

دل لرزنے لگا ، مگر مَیں منہ سے کچھ نہ بولا۔ بس لاہور والا منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اِس کے بعد طویل عرصہ تک جب کبھی کسی جیپ کو دیکھتا یا ہوائی جہاز کا شور سنائی دیتا تو یہی لگتا کہ یہ مجھ پر بم گرانے کے لئے آ رہے ہیں۔

تو کیا حافظہ کے البم کی ابتدائی تصویریں محض خوف کے رنگوں سے مزین ہیں؟ نہیں ، کہیں کہیں اِن میں امید اور خوشدلی کی جھلک بھی ہے۔ جیسے انیس سو ساٹھ کی دہائی کے شروع میں کشمیری محلہ سے گھر واپسی کے راستے میں ایک اونچی دیوار پر سفید پس منظر کے ساتھ جامنی رنگ کے الفاظ ’’لالچ ، رعب یا دباؤ ڈال کر کسی غریب کو تنگ کرنا کمزوری اور بزدلی کی علامت ہے۔

آپ کا اپنا نمائندہ چودھری قدرت اللہ ، نشان چھتری ‘‘۔ ساتھ ہی چھتری کی تصویر بنی ہوئی تھی تاکہ بنیادی جمہوریت یا بی ڈی ممبران کے اولین انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں کی رہنمائی ہو سکے۔ لڑکیوں کے میونسپل مڈل اسکول کے باہر ، جسے شہر کے لوگوں نے استانی شکر جان کا اسکول ہی کہا ، بل بورڈ ٹائپ کی یہ تحریر سالہا سال تک اُس وقت کے جمہوری عمل کی علامت بنی رہی۔ اب یہ مت پوچھئے کہ چودھری صاحب تھے کون۔

وہ پہلا الیکشن جس میں ہائی اسکول کے طالب علم کو عوامی جوش و خروش کی لہر کا احساس ہوا جنرل ایوب اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان ہونے والا معرکہ ہے۔ فوجی شناخت رکھنے والے وجیہہ و شکیل ایوب خان کی انتخابی مہم کا بنیادی نکتہ قومی سلامتی اور ملکی استحکام کا نعرہ تھا۔ انتخابی ادارہ صرف بی ڈی ممبران پر مشتمل ہونے کے باوجود انہیں سول افسران ، ریٹائرڈ فوجیوں ، کاروباری حلقوں اور اُن لوگوں میں ایک حد تک پذیرائی بھی حاصل تھی جو انگریزی محاورے کے مطابق ، باڑ کے دائیں جانب رہنا پسند کرتے ہیں۔

اُن دنوں ہم لوگ واہ کینٹ میں مقیم تھے جہاں آبادی کی اکثریت محکمہ دفاع کے سویلین ملازموں پر مشتمل ہے۔ مقامی ووٹر کچھ ڈرے ڈرے سے تھے ، مگر تقسیم کے وقت ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے ہمارے پڑوسیوں کا ارفع تر شعور واضح طور پہ مادرِ ملت کے پلڑے میں تھا۔

میرے دوست سہیل بٹ کے والد اور اُن کے دوست چودھری ممتاز اُس امیدوار کی حمایت کرتے رہے جو کنٹونمنٹ بورڈ کا ٹھیکیدار ہونے کے ناتے جنرل ایوب کا حامی تھا۔ البتہ خلیل احمد شرر نے جو جماعت اسلامی کے قریب تھے اور اچھے شاعربھی ، محترمہ کی حمایت کے وعدے پر اپنے ڈھب کا امیدوار تلاش کر لیا۔ دباؤ سے بچنے کے لئے ابا کی اِس تجویز پہ عمل ہوا کہ وہ خود ، ساتھ والے اختر صاحب ، سامنے کے شمیم کاظم نقوی اور اُن کے بغلی کوارٹر میں رہائش پذیر خواجہ شاہد نصیر پولنگ اسٹیشن کے باہر ووٹ کی کچی پرچی ایوب خان کے حامی کیمپ سے بنوائیں ، مگر ووٹ دوسرے امیدوار کو دیں جس نے قائد اعظم کی بہن کا نام لیا اور کامیاب رہا۔

صدارتی الیکشن کتنا منصفانہ تھا ، یہ سوال آج بھی اُتنا ہی غور طلب ہے جتنا اولین براہ راست انتخابات کے بعد کا اتار چڑھاؤ جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوا۔

آنے والے انتخابات میں مشکل یہ ہے کہ ہم نے پولیٹکل سائنس کی کتابوں میں جو کچھ پڑھا تھا ، اُس کا اطلاق ہوتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ ساری پولیٹکل سائنس میں ایک بڑی آئینی ترمیم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اول نمبر پہ تو ہونا چاہئیے کسی جماعت کا انتخابی منشور، پھر یہ کہ اُس کا تنظیمی ڈھانچہ کتنا جمہوری ہے ، اور آخر میں مرکزی شخصیات۔ بطور ووٹر میرا اندراج راولپنڈی کے اُس حلقہ میں ہے جہاں بچے ہر انکل کے نام کے ساتھ اعزازی طور پہ کرنل کا رینک لگا دیتے ہیں۔

اب اگر پسندیدہ معیارات کے مطابق ووٹ ڈالا تو یہ لاہوری طعنہ سننا پڑے گا کہ ایسے امیدوار کی حمایت کیوں جس کی کامیابی کا امکان ہی نہیں۔ اس کے برعکس اگر مَیں پنڈی وال ہمسایوں کی کرنیلی کی رو میں بہہ گیا تو پھر وہی بی ڈی ممبروں والا دوغلا پن کہ ’’ووٹ تے ایوب خان آں دے چھوڑیا اے ، تے دعا مائی واسطے پہ کرنے آں‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).