میرے بھی ہیں کچھ خواب!


یہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو شہری حقوق کے کارکنوں سے سوال کرتے ہیں ”آخر تم چاہتے کیا ہو؟ تمہاری حتمی منزل کہاں ہے ؟، ،

 ہم اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کالا امریکی پولیس تشدد کے ناقابل بیان خوف و ہراس کا شکار رہے گا۔ ہمیں تب تک اطمینان نصیب نہیں ہو گا جب تک ہمارے تھکن سے چُور جسموں کو بھی قومی شاہراہوں پر موجود مسافرخانوں اور شہروں میں واقع ہوٹلوں میں آرام اور قیام کا یکساں حق نہیں مِل جاتا۔ جب تک سیاہ فام انسانوں کی بود و باش چھوٹی بڑی کچی بستیوں تک محدود رہتی ہے ہمارے لئے اطمینان کی کوئی صورت نہیں ۔ جب تک ” صرف سفید فام لوگوں کے لیے“ جیسے سائن بورڈوں کے ذریعے ہمارے بچوں کی انا مجروح کی جاتی رہے گی اوراُنہیں ا پنی عزتِ نفس سے محروم کیا جاتا رہے گا، ہم نچنت نہیں ہوں گے۔ ہم اُس وقت تک دم نہیں لیں گے جب تک مسس سپی میں بسنے والے سیاہ فام امریکی شہری کو ووٹ کا حق نہیں مل جاتا اور نیویارک کے ایک حبشی کو ووٹ کی طاقت اور معنویت پہ اعتماد حاصل نہیں ہوتا۔ نہیں ! نہیں ! ہم ہرگز مطمئن نہیں ہیں اور ہم تب تک مطمئن نہیں ہوں گے جب تک انصاف کی گنگناتی جھرنا کے دہانے پر دھرے امتیاز اور تفریق کے پتھر ہٹائے نہیں جاتے اور سچائی کی ندیامیں مچلتی لہروں کو روانی نصیب نہیں ہوتی۔

میں اِس بات سے ناآشنا نہیں ہوں کہ آپ میں سے بہت سے ساتھی ان گنت کلفتوں اور اذیتوں سے گزر کر یہاں پہنچے ہیں ، کئی لوگ حال ہی میں جیل کی کال کوٹھڑیوں سے رہا ہوئے ہیں ، کچھ ایسے علاقوں سے آئے ہیں جہاں پرآزادی کے لئے جدوجہد کی پاداش میں اُنہیں انتقام کے زہر آلود جھکڑ اور پولیس تشدد کے طوفان جھیلنا پڑے ہیں ۔ آپ نے اِس بامعنی انسانی جدوجہد میں اپنی زندگیوں کے طویل برس صرف کئے ہیں ۔ اس یقین کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں کہ ہم جرم بے گناہی کی جو سزا کاٹ رہے ہیں ، اسی سے نجات کا راستہ نکلے گا۔

جایئے! مسس سپی‘ الاباما‘ جارجیا اور لوئز یانا میں واپس جایئے۔ اپنے شمالی شہروں کی کچی بستیوں میں اِس اعتماد کے ساتھ لوٹ جائیے کہ حالات کی یہ صورت بدل سکتی ہے بلکہ بدل کر رہے گی۔

ہمیں مایوسی کی اتھاہ دلدل ہی میں دھنسے نہیں رہنا۔ میرے دوستو میں آج آپ سے کہے دیتا ہوں کہ موجودہ حالات کی آشفتگی اور مشکلات کے باوجود میرا ایک خواب ہے اور میرے خواب کی بنیاد سُکھ کے گاﺅں کا وہی سپنا ہے جو امریکہ کے بانی پُرکھوں نے دیکھا تھا۔

 میرا خواب ہے کہ اک روز یہ قوم اُٹھے گی اور اپنے اس ایقان پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہو گی۔ ”ہم اس سچائی کو بدیہی طور پہ درست سمجھتے ہیں کہ تمام انسانوں کو مساوی پیدا کیا گیا ہے۔۔۔۔، ،

 میرا خواب ہے کہ ایک روز جارجیا کی سرخ پہاڑیوں پر سابق غلاموں اور سابق آقاﺅں کے بیٹے مساوات اور بھائی چارے کی میز پر مِل بیٹھیں گے۔

یہ میرا خواب ہے کہ ایک روز ریاست مسس سپی کے جھلستے ریگ زار وں پر بھی جو آج ناانصافی اور ظلم کے شعلوں میں لپٹے ہیں ، آزادی اور انصاف کے پھول کھِلیں گے۔

میرا یہ خواب ہے کہ ایک روز میرے چار ننھے بچے ایک ایسی قوم کے شہری ہوں گے جہاں اُنہیں جلد کے رنگ کی بنا پہ نہیں بلکہ کردار کی بنیاد پر پرکھا جائے گا۔

 یہ آج میرا خواب ہے!

میرا یہ خواب ہے کہ جنوبی ریاست الاباما جہاں آج کٹر نسل پرست کوس لمن الملک بجا رہے ہیں اور جہاں کے گورنر کی کف آلود زبان حرف انکار اور تفرقے کے شعلوں کو ہوا دے رہی ہے ایک روز اسی الاباما کی گلیوں میں چھوٹے چھوٹے سیاہ فام لڑکے اور لڑکیاں بہن بھائیوں کی طرح ننھے سفید فام بچوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نظر آئیں گے۔

 یہ آج میرا خواب ہے!

میرا یہ خواب ہے کہ ایک روز ہر نشیب کو بلندی نصیب ہو گی اور پُر غرور چوٹیوں کی بلندیاں تھوڑا نیچے لائی جائیں گی۔ میدانوں کی اُونچ نیچ ہموار کی جائے گی۔ ٹیڑھے میڑھے کونوں کھدروں کو حسنِ توازن نصیب ہو گا۔ خداوند کی عظمت کا ایسا نظارہ سامنے آئے گا جسے تمام خلقت دیکھے گی۔

یہی ہماری اُمید ہے۔ میں اسی یقین کو ساتھ لے کر جنوب کی طرف لوٹوں گا۔ اِسی اعتماد کے ساتھ ہم مایوسی کے پہاڑ میں سے اُمید کا ہیرا تراش سکیں گے، اِسی ایقان کے سہارے ہم اپنی قوم میں اختلاف اور تفریق کے بے ہنگم شور کو باہم اخوت کی خوبصورت دُھن میں بدل دیں گے۔ اسی یقین کی بنیاد پر ہم مل کر کام کر یں گے، اکھٹے دعاکریں گے، مل کر جد وجہد کریں گے، ایک دوسرے کی رفاقت میں بندی خانوں کی رونق بنیں گے اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ امید کی اس لو سے دلوں کو گرماتے ہوئے آزادی کے لئے آواز اٹھاتے رہیں گے کہ ایک روز ہم ضرور آزادہوں گے۔

وہ دن آئے گا، اور وہ ایسا روشن دن ہو گا جب سب خلق خدا ایک نئے مفہوم کے ساتھ وطن کا ترانہ گائے گی

 ”میرے وطن! یہ سب تیرا ہے، اے آزادی کی خوبصورت سرزمین! میں تیری شان کے نغمے گاتا ہوں ۔ وہ سرزمین جہاں میرے پُرکھوں نے اپنی جانیں دیں ، بے خانماں پردیسیوں کی امید، اے میری دھرتی ! تیری ہر پہاڑی پر آزادی کے نغمے گونجیں “

اور اگر امریکہ کو ایک عظیم قوم بننا ہے تو اس خواب کو حقیقت کا روپ دھارنا ہو گا۔ سو آزادی کا نغمہ بلند ہو !

نیو ہمپشائر کی عظیم الشان چوٹیاں آزادی کی صدا سے گونج اٹھیں !

 نیویارک کے بلندو بالا پہاڑوں تک آزادی کی صدا درا ہو !

 پنسلوانیا کے پُرشکوہ پہاڑی سِلسلوں پرآزادی کے نغمے گائے جائیں

 کالوریڈو کی برف پوش چوٹیوں سے آزادی کے گیت سنائی دیں کیلے فورنیا کی پُر پیچ پہاڑیوں سے آزادی کی تانیں اُبھریں !

اور نہ صرف یہ بلکہ

جارجیا کے سنگلاخ پہاڑ وں پر آزادی کی دُھن سنائی دے !

 ٹینی سی کے پرشکوہ پہاڑ آزادی کے زمزموں سے جھوم اٹھیں !

 مِسی سِپی کے ہر ٹیلے اور پہاڑی سے آزادی کے نغمے سنائی دیں !

اس وطن کے ہر پہاڑی سِلسلے پر آزادی کے نغمے کا سایہ ہو!

اور جب یہ سب ہو گا، جب ہم آزادی کے سُر تال کو اِذن اظہار دیں گے اور اس نغمے کی گونج ہم ہر گاﺅں اور ہر قصبے، ہر شہراور ہر ریاست میں سن سکیں گے تو ہم ا س دن کو قریب لے آئیں گے جب خداوند کے تمام بچے گورے اور کالے، یہودی اور غیر یہودی، پروٹسٹنٹ اور کیتھولک سب ہاتھ ملا کر حبشیوں کا قدیم بھگتی گیت الاپیں گے:

”بالآخر آزاد، ہم بالآخر آزاد ہوئے،

شُکر خدا کا،

ہم بالآخر آزاد ہوئے “

اس تاریخی خطاب کا کچھ حصہ ذیل کے لنک پر سنا جا سکتا ہے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2