قرضہ سے معاشی استحکام اور ترقی ناممکن ہے۔


گزشتہ دنوں ایک تحریر پڑھنے میں آئی ،جو ملکی قرضہ کے بارے میں تھی۔ لکھاری کا کہنا تھا ملکی قرضہ پہ آج کے ڈگری یافتہ لوگ بہت تنقید کرتے ہیں۔ قرضہ کو بہت معیوب اور منفی تصور کیا جاتا ہے۔ جب کہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں قرضہ کے بغیر کسی ملک میں وسائل کی کمی پوری نہیں کی جا سکتی ہے اور قرضہ ناگزیر ہے۔ یا پھر اس نظام کے متبادل نظام لے آئیں۔

تحریر پڑھنے کے بعد عام بندہ اس بارے یہی سوچ سکتا ہے کہ واقعی قرضہ اتنی بھی بری چیز نہیں ہے۔ اور قرضہ لے کے اس سے کوئی بھی ملک اپنی محرومی کو ختم کر سکتاہے ۔ ملکی معیشت بہتر انداز میں چلا کے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنایا جا سکتاہے۔ ایک عام شخص ملکی سطح پہ لیے گئے قرضہ کو انفرادی قرضہ کی صورت میں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اور سمجھ رہا ہوتا ہے کہ جس طرح انفرادی قرضہ سے اپنی ضرورت کو پورا کرلیتاہے اور پھر قرضہ بھی واپس کر دیتا ہے،تو ملکی قرضہ میں بھی یہی وطیرہ اپنایا جا سکتا ہے لیکن معیشت دان کے طور پہ دیکھا جائے تو دونوں قرضہ جات میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

انفرادی قرضہ شخصی ضمانت اور بغیر کسی شرط کے لیا جاتا ہے۔ اور جب چاہے اور جہاں چاہے اسے استعمال میں لاکے اپنا کام چلایا جا سکتاہے۔ لیکن ملکی قرضہ نہ تو شخصی ضمانت پہ ملتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی ملک اپنی مرضی سے خرچ کر سکتا ہے۔ قرضہ کے ساتھ کچھ شرائط بھی منسلک ہوتی ہیں۔ اگر قرضہ اشیا کی صورت لیا جائے تو پھر ایسی شرائط رکھی جاتیں ہیں۔ جس سے قرضہ دینے والے ادارے یا ملک کو فائدہ زیادہ اور لینے والے کو کم ہی نظر آتاہے۔ پاکستانی قرضہ کی بات کی جائے جو وقتا فوقتا عالمی سطح پہ قائم بینک یا اداروں سے لیاجاتا ہے۔ اس میں قرضہ دینے والا سب سے پہلے یہ دیکھتا ہے، کہ قرضہ کی واپسی کس طرح ممکن ہوگی۔ قرض لینے والی رقم پہ واپس کیا جانے والاسود اور اصل رقم کیلئے کون سے ذرائع اس ملک کے پاس ہیں۔ ان کی تفصیل مہیا کرنا لازم ہوتا ہے۔ اور عالمی مالیاتی ادارہ کی کوشش ہوتی ہے۔ جس ملک کو قرضہ دیا جائے، اس ملک سے واپسی کو بھی یقینی بنایا جائے۔ قرض واپسی کی یقین دہانی اس ملک کی یقینی وصولیوں سے ہی ممکن ہے۔ یقینی وصولیاں کیسے کی جا سکتی ہے اورکہاں سے ممکن ہے۔ یہ سب قرض دینے والا ادارہ بتاتا ہے۔ کیونکہ قرض دینے والے کو ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک کی جانب سے مہیا کیے جانے والے اعداد و شمار کے صحیح ہونے پہ یقین کم ہوتاہے ۔ یہ ایک بات ہے۔ دوسری بات سرمایہ دارانہ نظام میں ایسے عالمی مالیاتی ادارے بنانے کا مقصد ترقی پذیر ملکوں کو قرضہ دے کے اپنا منافع کھرا کرنا ہوتاہے۔ نہ کہ قرض لینے والے ملکوں کو ان کے پاوں پہ کھڑا کر کے اپنے پاوں پہ کلہاڑی مارنا ہوتا ہے۔ یہ مالیاتی سرمائے کے دور کی خاصیت ہے۔

جیسا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لیتا آیا ہے۔ ہر بار قرضہ کی قسط کے ساتھ ایک سٹرکچرل ایڈجسٹمنت پروگرام بھی آتا ہے یا کم از کم شرائط ہوتیں ہیں کہ قرضہ کیسے واپس کیا جا سکتاہے۔ اور شرائط سے منسوب قرضہ ہی مل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔ ان شرائط میں سب سے پہلی شرط بالواسطہ ٹیکس کی شرح کو بڑھانا مقصود ہے۔ بالواسطہ ٹیکس کی وصولی یقینیت کی حد کے قریب ہوتی ہے، لیکن بالواسطہ ٹیکس کا مطلب پیداکردہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کسی صنعت کار کیلئے وقتی فائدہ تو ہو سکتاہے۔ لیکن معیشت کی خوشحالی ممکن نہیں ہے۔ دوسر ی شرط ملکی کرنسی کی قدر کم کرنا ہوتا ہے۔ کرنسی کی قدر کم کرنے کا مطلب برآمدات میں اضافہ مقصود ہے، لیکن جس ملک کی برآمدات ہی چند ایک اور نہ ہونے کے برابر ہوں۔ اس کو بجائے فائدہ کے نقصان کا بوجھ زیادہ اٹھانا پڑ جاتا ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں زیادہ حصہ خام مال کا ہے اور چند ایک صنعتی اشیا ہیں۔ جو اب اور بھی کم ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کا نقصان درآمدات مہنگی ہونے کی صورت سامنے آتاہے۔ نتیجہ افراط زر میں اضافہ نکلتاہے۔ ایسی صورت میں قرضہ سے فائدہ اٹھانا تو درکنار ہم وقتی سرمائے کی کمی بھی پوری نہیں کر سکتے ہیں۔ تیسری بات، بطور قرضہ لی جانے والی رقم پاکستان میں دفاعی اخراجات میں خرچ ہوتی رہی ہے یا پھر قرضہ کی سابقہ قسط کو واپس کرنے کیلئے استعمال ہوئی ہے۔ جب کہ پیداواری کاموں کیلئے کبھی بھی اس کا استعمال عمل میں نہیں آیاہے۔ یہ بھی مالیاتی اداروں کی شرائط میں شامل ایک شرط رہ ہے ۔ جس وجہ سے آ ج تک لیا جانے والا قرض کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ اب کوئی کیسے کہے کہ قرضہ سے معیشت کو سہارا مل جاتاہے اور معاشی حالت بہتر کی جا سکتی ہے۔ اس کا متبادل اور واحد حل تعیشات کی اشیا اور غیر ضروری اشیا جن سے ملکی زرمبادلہ میں کمی آتی ہے۔ ایسی اشیا پہ پابندی عائد کی جائے تا کہ زرمبادلہ کے اخراج کو روکا جا سکے۔ اس کے ساتھ درآمدات کا نعم البدل تیار کرنا ضروری ہے۔ بہت سی ایسی درآمدات ہیں، جن کے نعم البدل تیار کرنے میں کوئی خاص ٹیکنالوجی کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔ ان کا متبادل بآسانی ملکی سطح پہ تیار کیا جا سکتاہے۔ جیسا کہ خوردنی تیل، ملٹی نیشنل کمپنی کی اشیا استعمال کرنے کی بجائے مقامی اشیا تیار کی جائیں۔ ان اشیا میں ٹوتھ پیسٹ، کیچپ، جوسز، منرل واٹر، ٹافیاں، بسکٹ، کولڈ ڈرنک، چاکلیٹ،دلیا، اس طرح کی بے شمار اشیا بنا کر پیسہ ملک کے اندر ہی رکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ملٹی نیشنل کمپنیز تو سارے کا سارا منافع اپنی مدر کنٹری منتقل کر دیتی ہیں۔ درآمدا ت کا نعم البدل تیار کرنے والی صنعت کو کچھ عرصہ کیلئے ٹیکس سے مستثنٰی قرار دے کر تحفظ دیا جا سکتاہے ۔ مقامی صنعت کار سے مشاورت کر کے کوئی مناسب پالیسی جو قابل عمل اور پیداواری صلاحیت کی یقینی بڑھوتری کا سبب بن سکے اسے اپنایا جا سکتا ہے۔ ورنہ قرضہ سے معاشی استحکام اور ترقی ناممکن ہے۔ چاہے پھر کئی اور دہائیاں ہی کیوں نہ صرف کر دی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).