1937ء کا الیکشن اور دیہاتی سیاسی شعور


(میرے دادا جان (1892-1963 ) ایک سیلانی آدمی تھے۔ غلام محمد نام تھا لیکن بابو غلام محمد مظفر پوری کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کے متعلق ان کا کہنا ہوتا تھا کہ انھوں نے اس کا چپہ چپہ دیکھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بسلسلہ ملازمت برما، ایران، عراق اور مشرقی افریقا کے ممالک (کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ) میں ان کا قیام رہا تھا۔ افریقا میں قیام کے دوران ہی (1938-46) انہوں نے اپنی سوانح لکھنا شروع کی تھی جس کا نام” سفری زندگی“ رکھا تھا۔  ”سفری زندگی“ کے کچھ اقتباسات “ہم سب” میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس کتاب کا 1937 میں ہونے والے الیکشن پر مبنی، ایک اقتباس پیش ہے۔ اس ضلع جالندھر کی دو تحصیلوں (نکودر اور پھلور) پر مشتمل سیٹ کے انتخاب کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ آج سے اسی (80) برس قبل ہونے والے الیکشن میں امیدوار کے چناؤ کا طریقہ کار قابل غور ہے ۔)

٭٭٭     ٭٭٭

انجمن راعیاں کا قیام

 1932ءمیں تحصیل نکودر (ضلع جالندھر) میں انجمن راعیاں کا قیام عمل میں آیا۔ دیگر عہدے داران کے ساتھ خاکسار کو پروپیگنڈہ سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ اب میں نے ہمت و استقلال کے ساتھ ، خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے، گاؤں گاؤں پھرنا شروع کر دیا۔ 1935 کے آغاز میں ڈسٹرکٹ بورڈ کے الیکشن خوب زور شور سے ظہور میں آئے اور ہمارے سب کے سب امیدوار منتخب اور کامیاب ہو گئے۔

جالندھر شہر – اوائل 20ویں صدی

پنجاب لیجسلیٹو کونسل کا الیکشن

1936ء سے کونسل کے الیکشن کا کام شروع ہو گیا جو 1937 میں ہونے کے لیے سرکار کی طرف سے اعلان ہو چکا تھا۔ اب خدا کے فضل و کرم سے انجمن راعیاں قوم کے لیے ایک جمہوری باڈی بن چکی تھی۔ اب جب کونسل کے الیکشن کا زمانہ قریب آ گیا تو راعی قوم کے سات عدد اشخاص، جن میں پانچ تحصیل نکودر کے تھے، کھڑے ہو گئے۔

راعی قوم کے بیرونی علاقہ سے دو لوگ ممبری کے امیدوار تھے۔ ایک میاں شاہ نواز باغبان پورہ لاہور سے تھے۔ ان ہر دو حضرات کو غلط فہمی ہو گئی کہ تحصیل نکودر و پھلور میں کوئی قابل شخص ممبری کے لائق نہیں۔ پس ان دو صاحبان کی اس ہم دردی اور قومی احساس کا میں خاص کر ممنون ہوں اور رہوں گا۔

ان امیدواروں کے کھڑا ہو جانے سے ہم ارکان انجمن کو بڑی مشکل آن پڑی کیونکہ نشست صرف ایک ہی تھی اور خواہش مندوں کی تعداد مع اسد اللہ خان صاحب کے آٹھ ہو گئی تھی۔ ان میں سات افراد راعی برادری کے تھے۔ ہر ایک اپنی ذاتی قابلیت اور اثر و رسوخ کے لحاظ سے دوسروں سے بالاتر تھا۔

بابو غلام محمد مظفر پوری

 انجمن نے ایک جلسہ عام کا اعلان کر دیا تاکہ ان امیدواروں کے درمیان کوئی راہ عمل اتحاد کی پیدا ہو سکے۔ مقررہ تاریخ پر اجلاس میں حاضرین کی تعداد کافی ہو گئی۔ ہر ایک امیدوار کے رشتہ دار اور مددگار کافی تعدا میں جمع ہو گئے۔ میاں شاہ نواز کے پروپیگنڈہ کے لیے مولوی فتح الدین انبالوی، ایڈیٹر راعی اخبار، بھی تشریف فرما تھے۔ شروع اجلاس میں تو کچھ دیر حاضرین میں گڑبڑ ہوتی رہی، رسہ کشی کی طرح ہر ایک اپنی طرف اپنی جانب کوشش کر رہا تھا۔ جب جلسہ میں تقریروں کا سلسلہ ذرا کم ہوا تو خاکسار نے بطور خادم قوم اور انجمن کے پروپیگنڈہ سیکریٹری ہونے کے جو تقریر کی وہ یہاں پر حرف بحرف تحریر کرتا ہوں۔ پہلے تو میں بیرونی علاقہ کے امیدواروں اور ان کے حواریوں سے یوں مخاطب ہوا:

 آپ بطور مہمان ہمارے لیے ادب و احترام کے قابل ہیں اور ہم کو آپ صاحبان نیک اور فائدہ مند مشورہ دے سکتے ہیں لیکن ہماری انجمن کے کام اور فیصلوں میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ باقی رہا ممبری کے لیے قابل امیدوار کا چناؤ تو وہ ہماری انجمن اور برادری پر منحصر ہے۔ ان ہر دو تحصیلوں، نکودر اور پھلور، کے راعیوں میں اگر کوئی لائق اور قابل شخص نہیں ہے تو پھر ایسی قوم کی جو کہ نکمی اور بودی ہو، رہنمائی کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس آپ بیرونی اصحاب کے خیال اور اندازے کے خلاف ہمارے اس علاقے میں بے شمار وکیل اور تعلیم یافتہ اشخاص ہیں جن میں سے ہم ایک نہ ایک کو ضرور منتخب کریں گے۔ اگر بفرض محال کوئی بھی قابل اور تعلیم یافتہ شخص نہ ملا تو ہم اپنی برادری اور قوم کے ایک ایسے شخص کو کونسل میں بھیجیں گے جس کے جسم پر پتلون کی جگہ تہبند، کوٹ کے عوض پتوئی، سر پر ٹوپی کی جگہ کھدر کا صافہ ہو گا، کندھے پر کسی اور ہاتھ میں رنبہ ہو گا۔ اس لیے آپ بیرونی علاقہ والے ہم کو نااہل اور نالائق سمجھتے ہوئے ہم سے کسی ہمدردی اور مدد کی توقع نہ رکھیں۔

پس میرے ان کورے اور سچے الفاظ سے بیرونی امیدوار تو ٹھنڈے اور ناامید ہو گئے۔ اب باقی رہ گئے ہمارے علاقے کے پانچ امیدوار، جن میں سے دو تو اپنی مرضی سے قوم کے ہم درد ہوتے ہوئے خود بخود دست بردار ہو گئے۔ باقی ماندہ تین امیدوار اپنی ضد او ر ہٹ پر اڑے ہوئے تھے۔

1937ء کے انتخابات کا ایک منظر

انتخابی بورڈ کا قیام

 ان کے فیصلہ کے لیے انجمن کو علاقہ کے بارسوخ اشخاص سے ایک سو ارکان کا ایک سلیکشن بورڈ بنانا پڑا جس نے دوڑ دھوپ اور کوشش کی، انجمن کے کارکنوں کو علاقہ کا دورہ کرکے گاؤں گاؤں پھرنا پڑا۔ اس منتخب شدہ بورڈ کے اجلاس کے لیے ایک تاریخ مقرر کی گئی۔ مقررہ تاریخ پر قوم کا اس قدر ہجوم اور مجمع تھا جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔

 تینوں امیدواروں سے حلف نامہ تحریری و تقریری روبرو ممبران بورڈ لکھوایا تاکہ فیصلہ کے بعد کسی کے رنج و غصہ کا امکان لاحق نہ رہے۔ اس کے بعد تمام امیدواروں کو باہر بھیج دیا گیا اور بورڈ کی کارروائی ایک بند کمرہ کے اندر عمل میں لائی گئی جس کا نتیجہ ووٹوں کے لحاظ سے اس طرح تھا۔ چوہدری عبدالرب کو 43 بابو سمیع اللہ کو 37 ووٹ اور مولوی عبداللہ کو صرف 18 ووٹ ملے۔ کل 98 ووٹ پول ہوئے۔ بورڈ کے دو ممبران غیر حاضر رہے۔ پس عبدالرب کامیاب امیدوار رہا۔ یہ کارروائی شام کے تقریباً پانچ بجے ختم ہوئی۔

اس کے بعد مولوی عبداللہ نے اپنے رشتہ داروں اور مددگاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جو فیصلہ مقررہ بورڈ نے کیا ہے میں اس پر دل و جان سے متفق ہوں اور آئندہ کے لیے آپ سب صاحبان نے چوہدری عبدالرب کی مدد کرنی ہے۔ یہ کہہ کر مولوی صاحب تو اپنے موضع تلونڈی چلے گئے۔ لیکن بابو سمیع اللہ صاحب اپنی ناکامی کی وجہ سے، غم و غصہ کی تاب نہ لاتے ہوئے، بغیر آداب کئے ، کسی تمہید و تقریر کے بغیر، چپکے سے اپنے گاؤں نواں پنڈ کو چلے گئے۔ اس قومی بورڈ کے نظام و فیصلہ پر دیگر اقوام اور خاص کر نکودر کے مہاجن لوگ بہت حیران ہوئے اورعش عش کرتے رہے جو ابھی تک راعی قوم کو بالکل بھولی بھالی اور غیر منظم قوم سمجھے ہوئے تھے۔

افسوس کہ بابو سمیع اللہ صاحب دوسرے ہی دن اپنے حلف نامہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی بورڈ کے فیصلے سے منحرف ہو گئے اور ارکان انجمن کو برا بھلا کہنے لگ گئے۔ اسی سلسلہ میں ایک لمبی چوڑی چٹھی ،جس میں سخت ناراضگی ظاہر کی گئی، انجمن کو بھیج دی۔ پس بابو صاحب کی یہ چٹھی انجمن کو پہنچنے پر علاقہ میں اور ارکان انجمن کے درمیان طرح طرح کے خیالات کے چرچے ہونا شروع ہو گئے۔ نیز انجمن کا شیرازہ ٹوٹنے اور قوم میں بے اتفاقی پیدا ہونے کا احتمال ہونے لگا۔ بابو صاحب نے حلف نامہ سے صرف تحریری بغاوت نہیں کی بلکہ عملی طور پر کونسل کی ممبری کے لیے درخواست گزار دی ۔اس کے بعد بابو صاحب کو کئی ایک جگہ اور موقع پر بلا کر سمجھایا گیا لیکن وہ اس قدر غصہ سے مغلوب ہو چکے تھے کہ اگر ان کو صبح منایا جاتا تو شام کو پلٹ جاتے، اگر شام کو راضی کیا جاتا تو اگلی صبح کو پھر منکر ہو جاتے۔ اسی کش مکش میں درخواستوں کی واپسی کی آخری تاریخ آ گئی لیکن بابو صاحب ہر چند سمجھانے اور منت سماجت کے کسی طرح بھی اپنی درخواست اور زر ضمانت واپس لینے پر آمادہ نہ ہوئے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2