کراچی ایئرپورٹ حملے کے چار برس: ’بھائی کے بچوں کو بھوکا مرتا نہیں دیکھ سکتا تھا‘


عمیر خان کو چار برس قبل کراچی ائیرپورٹ پر ہونے والے حملے میں اپنے بھائی عنایت اللہ کے مرنے کی خبر حملے کی رات ہی مل گئی تھی لیکن ان کی لاش ڈھونڈنے میں دو دن لگ گئے۔

اس وقت تک خبر آ چکی تھی کہ کراچی ایئرپورٹ کے کولڈ سٹوریج میں سات کارگو ورکرز جل کر ہلاک ہو گئے ہیں۔ واقعے کے دو دن بعد تک ان سات افراد کے اہلِ خانہ ان کی لاشیں ڈھونڈتے رہےـ عمیر بھی ان ہی میں شامل تھے۔

عمیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب ہمیں لاشیں دکھائی گییں تو وہ اس حالت میں نہیں تھی کہ پہچانی جاسکیں ـ تو ہم نے ایک اور ساتھی سیف الرحمان کو اس کے قد سے، نبیل کو گلے میں پہنی ہوئی چین سے اور میرے بھائی عنایت اللہ کو اس کی جیب میں موجود آدھے جلے ہوئے شناختی کارڈ سے پہچانا تھاـ

اس واقعے کے بعد لواحقین نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ کولڈ سٹوریج میں مرنے والوں کے ساتھ برتی گئی غفلت کے خلاف عدالت جائیں گےـ

’شروع میں تو مجھے بہت غصہ آیاـ انتظامیہ کی غفلت پر، اپنے بھائی کے مرنے پر اور انتظامیہ کے ہمارے گھر چیک لانے پر لیکن گھر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو دیکھ کر اور کمرہ عدالت میں یونین کی بےبسی دیکھ کر میں نے بےغیرت بن کر پیسے قبول کر لیےـ‘

عمیر اور ان کا خاندان پہلے ملیر نمبر دو کھوکھراپار میں رہتے تھےـ گھر کا خرچ معمول کے مطابق عنایت اللہ اور عمیر بانٹ لیتے تھے لیکن عنایت کی ہلاکت کے بعد یہ سارا زور عمیر پر آ گیاـ

’واقعے کے فورا بعد تو ہم لاش ڈھونڈنے اور تدفین کرنے میں مصروف ہوگئےـ ذمہ داریوں اور گھر کا خرچ چلانے کا احساس مجھے تب ہوا جب بچوں کی ذمہ داری سامنے آئی ـ‘

پاکستان، کراچی، ایئر پورٹ

حملے کے دوران گولڈ سٹوریج میں موجود افراد نے فون کے ذریعے اپنے خاندان سے رابطے میں تھے

عمیر نے کہا کہ شروع میں تو سب نے عدالت میں کیس فائل کرنے میں ساتھ دیاـ لیکن کچھ ہی مہینوں میں ایک ایک کرکے سب پیچھے ہٹ گئےـ

’مجھے بتایا گیا کہ ہمیں اپنا گھر خالی کرنا پڑے گاـ میرے بھائی کے تین بچے ہیں جن میں سے ایک ان کے مرنے کے دو مہینے بعد پیدا ہواـ ہمارا خرچہ اور ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں ـ گھر میں بات بات پر بحث ہو جاتی تھی کہ اور کون کون کما سکتا ہے تاکہ ماہانہ خرچ پورا کیا جا سکےـ‘

مشکلات دیکھتے ہوئے انھوں نے ایئرپورٹ کلیکٹو بارگیننگ ایجنٹ اور یونین کے صدر یونس خان سے رابطہ کیا اور معافی مانگتے ہوئے اپنا نام کیس سے نکلوالیاـ

’کوئی کتنی بھی رقم دے کر میرے بھائی کو واپس نہیں لا سکتاـ اس بات کا علم مجھے واقعے کے فورا بعد ہو گیا تھا لیکن میں ان کے بچوں کو نہیں چھوڑ سکتا اور نہ ہی انھیں بھوکا مرتے ہوئے دیکھ سکتا تھاـ اس ملک میں غریب کے لیے انصاف نہیں ہے، تو کیوں اپنا وقت ضائع کرتا؟‘

پاکستان، کراچی، ایئر پورٹ

اسی طرح بانٹوا نگر، غریب آباد کے فضل لاکھانی نے بھی اپنے بھائی فیضان لاکھانی کی ہلاکت کے بعد انتظامیہ سے سمجھوتہ کر لیاـ

انھوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے بھائی کے گھر والوں کو سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا اور اس رقم سے ان کے بچوں کا مستقبل تو بن جائے گاـ‘

دو خاندانوں نے اس بارے میں بات کرنے سے انکار کردیا کیونکہ معاوضہ دیتے وقت انتظامیہ نے ان سے کنٹریکٹ پر دستخط کروائے جس کے مطابق وہ نہ ہی اس واقعے کے بارے میں اور نے ہی انتظامیہ کے بارے میں کسی سے کچھ کہیں گےـ

تحقیقاتی کمیٹی

کراچی ایئرپورٹ پر 8 جون 2014 کی رات کو ہونے والے حملے کو چار سال پورے ہو چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس واقعے کی جانچ کرنے کے لیے بنائی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی نے اب تک کوئی واضح پیش قدمی نہیں کی ہے بلکہ ایک افسر کے مطابق معاملات اس وقت رک گئے ہیں۔

اس واقعے میں 34 لوگوں کی جانیں گئیں جن میں کولڈ سٹوریج میں موجود سات لوگ بھی شامل ہیں۔ خاص کر جیریز ڈیناٹا کے خلاف لواحقین کے شور کے بعد بننے والی انکوائری کمیٹی کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا اور سبھی اداروں کی انتظامیہ جن میں جیریز ڈیناٹا، ایئرپورٹ سکیورٹی فورس اور سول ایوی اییشن شامل تھے سب کو بری الزمہ قرار دے دیا گیا۔

دوسری انکوائری کمیٹی کی تشکیل اس وقت کے پولیس چیف غلام قادر تھیبو نے کی تھی۔ انکوائری میں یہ پتا چلا کہ دہشت گردوں کے پاس ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کے جعلی شناختی کارڈ تھے جنھیں دکھا کر وہ اندر داخل ہوئےـ واقعے کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان اور اسلامک موومنٹ ازبکستان نے قبول کی تھی۔

پاکستان، کراچی، ایئر پورٹ

واقعے کے بعد لواحقین نے فیصلے کیا کہ وہ کولڈ سٹوریج میں مرنے والوں کے ساتھ برتی گئی غفلت کے خلاف عدالت جائیں گے

انکوائری سے جڑے ایک افسر کے مطابق، مارے جانے والے دس دہشت گردوں میں سے دو کا تعلق کراچی سے تھا اور ان کے ڈی این اے نمونے لاہور بھیجے گئے ہیں لیکن اس بات کو بھی اب دو سال کی مدت ہو چکی ہے۔ یہ انکوائری دو بار بند ہو کر دوبارہ کھلی ہے اور انکوائری سے جڑے افسر کے مطابق اس میں پولیس کی تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

اے ایس ایف کے ترجمان کرنل عاطف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چار سالوں میں ایئر پورٹ میں حفاظتی اقدامات میں مزید اضافہ کیا گیا ہے ـ

’ہم نے خاص طور سے اپنے اہلکاروں کی ٹریننگ ان کی حفاظتی اقدامات سے متعلق آگاہی پر بہت محنت کی ہےـ اینٹی ٹیررزم ٹریننگ موڈیول کو اپنایا ہے۔ ساتھ ہی ایئرپورٹ پر حفاظتی آلات بھی لگوائے ہیں۔‘

جب ان سے لواحقین کے لگائے گئے الزامات کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’ہم نے لواحقین کا بہت خیال رکھا ہے اور میرا ماننا ہے کہ وہ ہم سے خوش ہیں۔‘

سینیئر کارگو سپروائزر یونس خان نے کہا کہ اس واقعے کے چار سال بعد بھی کارگو ورکرز کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہےـ

’ادارے کے جن لوگوں نے انتظامیہ کے خلاف کیس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ان سب لوگوں کو ان چار سالوں میں نکال دیا گیاـ ان کو کہا گیا کہ یا تو استعفیٰ دے دو یا پھر ہم نکال دیں گےـ اس لیے اگر کل کو ایسا واقعہ پھر ہوا تو روزگار بچانے کے لیے کوئی بھی آواز بلند نہیں کرے گاـ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32491 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp