بھوک انسان کی سب سے بڑی مجبوری


چار بجتے ہی آفس میں جیسے ہر طرف افرا تفری سی مچ جاتی ہے۔ چھٹی ہوتے ہی ہر کوئی اپنی چیزیں بھی سمیٹنے کی زحمت نہیں کرتا اور بھاگ نکلتا ہے۔ میں بھی ہر روز کی طرح سب کے ساتھ ہی چھٹی ہوتے ہی سامان سمیٹے بغیر باہر نکل گئی۔ رکشہ والا پندرہ منٹ سے کھڑا مجھے کوس رہا تھا۔ پندرہ منٹ میں کئی بار فون کر چکا تھا۔ خیر اللہ اللہ کر کے جب لفٹ سے باہر نکلی تو سورج میاں ہاتھ میں گرم ہوا کا تحفہ لیے استقبال میں کھڑے تھے۔ اک سیکنڈ کے لیے لگا یہیں سے واپس ہو لوں پر واپسی کا رستہ بھی کچھ اتنا ہی سخت تھا۔ نیچے اُتر کر رکشہ میں بیٹھی اور گھر کو نکل گئی۔

لاہور کی تین ایسی شاہرایں ہیں جو مجھے بہت پسند ہیں جن میں سے ایک میرے گھر کو جاتی ہے۔ ایف سی انڈر پاس سے ہو کر کینال روڈ۔ پر سڑک اس لیے پسند ہے کہ اس کے ایک طرف نہر ہے تو دوسری جانب بڑے بڑے درخت جن پہ آج کل کھلے پھول نہایت خوبصورت لگتے ہیں۔ واپسی پہ جاتے ہوئے ہر روز آج کل نہر لوگوں کے رش کی وجہ سے کافی زیادہ مصروف لگتی ہے کیونکہ سورج کی تمازت میں نہر کا ٹھنڈا پانی شاید وہاں آنے والے تمام لوگوں کو راحت بخشتا ہے۔

میں انہیں لوگوں کو نہر میں ڈبکیاں لگاتا دیکھ کر خاصا محظوظ ہو رہی تھی کہ اچانک رکشہ والے نے سوال کیا باجی کدھر جانا ہے۔ میں نے دو گھڑی سڑک پہ نظر دوڑائی جہاں ٹریفک سست روی کا شکار تھی اور اس سے نہایت میٹھے لہجے میں کہا بھائی پہلے ذرا ایک فارمیسی جانا ہے اور پھر گھر ہی جس پہ وہ کافی سخت لہجے میں بولا میڈم جی بات دراصل بات یہ ہے کہ ہمارا بھی روزہ ہے اور افطاری سے پہلے مجھے اپنے رائیڈز بھی پوری کرنی ہیں لہذا ایک ہی جگہ جا سکتا ہوں!

پہلے تو خاصا غصہ آیا اور دل کیا اس کا منہ توڑ دوں بھلا اتنی عزت سے بات کی ہے میں نے اور دیکھو کیسے جواب دے رہا ہے لیکن کیونکہ روزہ تھا تو دل میں ہی کُڑھ کے اسے بولا بھائی مارکیٹ ہی چھوڑ دو۔ ناجانے اسے کیا احساس ہوا بولا میڈم بچوں کے لئے افطاری کا سامان لے کے جانا ہوتا ہے اس لئے وقت کم ہے اور ابھی پانچ رائیڈز پڑی ہیں۔ بس اس کا یہ کہنا تھا کہ اگلا سارا رستہ میں سوچتی رہی کہ کیسی بات ہے یہ بھوک بھی۔ انسان کتنا مجبور ہو جاتا ہے۔

دو وقت کی روٹی اور گھر کے خرچے کے لئے مارا مارا پھر رہا ہے۔ نہ سردی دیکھتا ہے نہ گرمی اور وقت بھی کیسا ظالم ہے گزرتا چلا جاتا ہے لیکن بھوک ہے کہ مٹتی ہی نہیں اور یہ بھوک ہی ہے جو انسان کو تلخ کر دیتی ہے۔ اتنا تلخ کہ شاید عزت، محبت، نرمی سب بے بنیاد اور غیر ضروری اشیا لگتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہر کوئی بس کسی نا کسی بھوک کے پیچھے ہے اور اس بھوک نے اُسے اتنا اندھا کر دیا ہے کہ لحاظ، تمیز، عزت اور یہاں تک کہ جان کی فکر بھی ختم  ہوگئی۔ اب تو بھوک مٹانے کے لیے کسی کی جان لینا بھی اتنا ہی آسان ہے جتنا رکشہ چلانا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).