مفتی نور ولی محسود تحریکِ پاکستان طالبان کے نئے امیر مقرر


طالبان

طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جب پاکستانی افواج نے آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تو مفتی نور ولی محسود نے اس محاذ میں پاکستانی افواج کے خلاف لڑائی میں شرکت کی۔

کلعدم دہشتگرد تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد، تنظیم نے مفتی نور ولی محسود کو اپنی مرکزی شوریٰ کا امیر مقرر کر دیا ہے جبکہ نائب امیر کے عہدے پر مفتی مزاحم حفظہ اللہ تعینات ہوئے ہیں۔

نور ولی محسود کو رواں برس فروری میں خالد سجنا کی ہلاکت کے بعد حلقہ محسود کے شدت پسندوں کا امیر مقرر کیا گیا تھا۔ مفتی نور ولی سابق امیر بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھی تھے اور ماضی میں تحریک کی اہم ذمہ داریاں سنبھالتے آ رہے ہیں۔

چالیس سالہ مفتی نور ولی نے طالبان کی تاریخ پر ایک کتاب بھی تحریر کی تھی جس میں کئی اہم انکشافات جیسے کہ بےنظیر کے قتل میں ٹی ٹی پی کا ہاتھ اور فنڈنگ کہاں کہاں سے ہوتی تھی سامنے آئے ہیں۔

اس سے قبل افغان وزارتِ دفاع کے حکام نے صوبہ کنّڑ میں امریکی فوج کی کارروائی میں پاکستانی طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کر دی تھی۔

ادھر پاکستانی انٹیلیجنس کے ذرائع نے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ 13 جون کو ملا فضل اللہ کنّڑ کے ضلع مروارہ میں واقع بچائی مرکز میں منعقدہ افطار پارٹی میں گئے تھے۔ اطلاعات تھیں کہ رات دس بج کر 45 منٹ پر جب وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے تو اس پر ڈرون حملہ ہوا۔ اس وقت ان کے ہمراہ ان کے تین ساتھی بھی موجود تھے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ حملے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جن کی لاشیں جل گئیں اور انھیں 13 جون کی شب ہی بچائی میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

مفتی نور ولی محسود کون ہیں؟

طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جب پاکستانی افواج نے آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تو مفتی نور ولی محسود نے اس محاذ میں پاکستانی افواج کے خلاف لڑائی میں شرکت کی۔

سنہ 2014 میں امریکی ڈرون نے جنوبی وزیرستان کے علاقے سروکئی میں نور ولی محسود کے ایک ٹھکانے کو بھی نشانہ بنایا تھا تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے اور آٹھ طالبان مارے گئے تھے۔

نومنتخب امیر مفتی نور ولی محسود نے حال ہی میں 690 صفحات پر مبنی ‘انقلاب محسود، ساؤتھ وزیرستان – فرنگی راج سے امریکی سامراج تک’ نامی ایک تفصیلی کتاب لکھی تھی۔

اس کتاب میں پہلی مرتبہ تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو پر کارساز، کراچی اور راولپنڈی میں حملوں کی بھی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ اس سے قبل طالبان اس سے انکار کرتے رہے ہیں۔

مفتی نور ولی محسود کے بقول اس کا مقصد یہ تھا کہ شدت پسند ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ سکیں اور انھیں مستقبل میں نہ دہرائیں۔ ایک اور وجہ ان کے بقول تجزیہ نگاروں، محققین اور مورخین کی ‘تصحیح’ کی جاسکے۔

کتاب میں مفتی نور ولی نے اعتراف کیا تھا کہ طالبان گروہ اور تنظیمیں ماضی میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے تحریک ہی کی چھتری تلے ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، اجرتی قتال جیسی کارروائیوں میں ملوث رہیں۔

کتاب میں اپنی ذرائع آمدن کے بارے میں تحریک نے بتایا کہ سال 2007 میں جنوبی وزیرستان میں اہلکاروں کے علاوہ مختلف قسم کے اسلحے اور گاڑیوں سے لیس ایک فوجی قافلے کے اغوا کے واقعے کے بعد حکومت سے ایک معاہدے کے تحت یہ سب کچھ مبینہ طور پر چھ کروڑ روپے کے بدلے واپس لوٹائی گئی تھیں۔

طالبان نے ان فوجیوں کو کئی ماہ تک اپنی حراست میں رکھا تھا اور بات چیت کے نتیجے میں انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ اس وقت اس رہائی اور سامان کی واپسی پر کسی رقم کا کسی نے کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ اس بارے میں فوج سے رابطہ کیا گیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ بی بی سی اردو کو اس وقت طالبان کے رہنما حکیم اللہ محسود نے ان اغوا شدہ فوجیوں میں سے چند سے ملنے کی اجازت بھی دی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp