چودھری نثار کیلئے نیب کی ’’سہولت کاری‘‘


لوگ جو بھی کہتے رہیں۔ میں یہ بات مگر ایک لمحے کے لئے بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ چودھری نثار علی خان صاحب نے انجینئر قمر الاسلام کو انتخابی اکھاڑے سے دور رکھنے کے لئے نیب کی معاونت طلب کی ہوگی۔

اندھی نفرت وعقیدت میں بٹی سیاست کی لیکن کئی مضحکہ خیز صورتیں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ایک پہلو ہے جسے Unintended Consequencesکہا جاتا ہے۔ یعنی وہ نتائج جو کسی سمت کی طرف قدم اٹھانے والے نے کبھی سوچے بھی نہیں ہوتے۔

پیر کی رات بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہوچکا ہے۔نیب نے ’’اچانک‘‘ چودھری نثار علی خان صاحب کے لئے برسوں سے ’’محفوظ‘‘ سمجھے حلقے سے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ یافتہ قمرالاسلام کو صاف پانی کی فراہمی کے لئے پنجاب حکومت کے بنائے ایک منصوبے میں کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا اور فوری پیغام یہ گیا کہ مقصد قمرالاسلام کو مبینہ کرپشن کی سزا دینا نہیں بلکہ چودھری نثار علی خان کی جیت کو یقینی بنانا ہے۔

بحیثیت صحافی چودھری صاحب کو 1985سے جانتے ہوئے مجھے سوفیصد یقین ہے کہ قمرالاسلام کی گرفتاری ان کی ایماء پر نہیں ہوگی۔ سیاست میں تاثر مگر حقائق سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ نیب،قمرالاسلام کی گرفتاری کے ذریعے چودھری صاحب کو انتخابی معرکے میں سہولت پہنچاتی نظر آئی ہے اور میں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ چودھری صاحب مذکورہ تاثر کے ابھرنے سے بذاتِ خود پریشان ہوگئے ہوں گے۔

کانٹے دار انتخابی مقابلے چودھری نثار علی خان کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 1985سے انتخابی میدان میں ہیں۔ ان کے آبائی حلقے میں چودھری سرور دھڑے کے اعتبار سے بہت طاقت ور ہیں۔ چودھری نثار اور غلام سرور کے مابین ہار جیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

قومی اسمبلی میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانے کے لئے مگر چودھری نثار نے اسلام آباد اور اپنے آبائی حلقے کے مابین موجود ایک اور حلقہ بھی دریافت کرلیا تھا۔ اپنے آبائی چکری والے حلقے سے ہار کر بھی وہ اس حلقے سے قومی اسمبلی پہنچ جاتے ہیں۔ اس بار بھی ان کا اصل مقابلہ چودھری سرور کے ساتھ تھا جو پہلی بار اس حلقے سے بھی میدان میں ہیں جو چودھری نثار نے اپنے لئے 2002سے ’’محفوظ‘‘ بنایا ہوا تھا۔

قمرالاسلام کا تعلق بھی اسی حلقے سے ہے۔ قومی سطح پر وہ کوئی معروف شخص نہیں۔ قاف لیگ سے انتخابی سیاست کا آغازکیا۔ 2008سے نون کے قریب ہونا شروع ہوگئے۔ شنید ہے کہ محنتی آدمی ہیں اور تھانہ کچہری اور ڈیرہ داری والی Constituencyسیاست کو خوب سمجھتے ہیں۔ 2013میں پنجاب اسمبلی کے لئے نون کی ٹکٹ پر 40ہزار سے زیادہ ووٹ لے کرمنتخب ہوئے تھے۔

چودھری نثار ان کے ایم این اے تھے۔ اس حیثیت میں اگرچہ چودھری صاحب اپنے جونیئر کے لئے برگد کا درخت ہی ثابت ہوئے۔ اسی حلقے میں جو ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے ان سب کا کریڈٹ فقط چودھری صاحب کو ملا۔Follow Upوالی دوڑ بھاگ اگرچہ ’’چھوٹے‘‘ ٹھہرائے قمرالاسلام کا مقدر ہوئی۔ اس دوڑ بھاگ نے اگرچہ موصوف کو شہباز شریف اور ان کے چہیتوں کی نظر میں ایک وفادار مشقتی بناکر پیش کیا ہوگا۔

اس وفادار مشقتی کو شاید کبھی قومی سطح پر ابھرنے کا موقعہ ہی نہ ملتا۔ 2016سے لیکن چودھری نثار علی خان صاحب اپنے دیرینہ دوستوں سے دور ہونا شروع ہوگئے۔ چونکہ چودھری صاحب اور نواز شریف کے مابین باہم مشورے نہ ہوپائے اس لئے دلوں میں موجود الجھنیں بڑھتی چلی گئیں۔

پھر نواز شریف سیاست میں حصہ لینے کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے تاحیات نااہل قرار دے دئیے گئے۔چودھری نثار علی خان جو نواز شریف کی تینوں حکومتوں میں طاقت ور ترین وزیر مانے جاتے رہے ہیں، مشکل کی گھڑی میں اس نواز شریف سے دور نظر آئے جسے ’’قائد‘‘ بنانے میں یقینا انہوں نے بھی اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔

سیاسی مشکلات کے علاوہ نواز شریف صاحب کو ان دنوں بیگم کلثوم نواز شریف صاحبہ کی سنگین علالت کی وجہ سے ذاتی طورپر شدید جذباتی دبائو کا سامنا ہے۔ چودھری صاحب سے بجاطورپر یہ توقع تھی کہ وہ اپنے دل میں کئی عرصے سے اُبلتے غصے کے اظہار کے لئے مناسب وقت کا انتظار کرتے۔

نواز شریف سے دوری رکھنے کے باوجود مسلم لیگ نون کو اس کی تاریخ کے کڑے ترین مرحلے میں سیاسی نقصان پہنچاتے نظر نہ آتے۔

ایسا مگر ہونہیں پایا۔ مجھ ایسے صحافیوں کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ پنچائیت کے چودھریوں کی طرح یہ طے کریں کہ نواز شریف اور چودھری نثار علی خان میں سے کون برحق ہے۔ یہ بات کہنا اگرچہ لازمی ہے کہ اب تک جس انداز میں چودھری صاحب نے مسلم لیگ نون سے فاصلہ رکھا ہے اس کے ہوتے ہوئے اس جماعت میں موجود ان کے بہی خواہوں کے لئے یہ ناممکن تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح چودھری صاحب کے لئے اپنی قیادت کے دستخطوں کے ساتھ مسلم لیگ نون کا ٹکٹ حاصل کرتے۔

دریں اثناء قمرالاسلام نام کا وفادار مشقتی چودھری صاحب کے لئے ’’محفوظ‘‘ ٹھہرائے حلقے میں مسلم لیگ نون کی ٹکٹ پر میدان میں آنے کو تیار تھا۔

’’مجھے کیوں نکالا‘‘ والے بیانیے کی افادیت پہ نازاں وفاداروں کو یقین تھا کہ مسلم لیگ نون کے ٹکٹ کے ساتھ قمرالاسلام جیسا وفادار مشقتی چودھری صاحب جیسے قومی سطح پر جانے پہچانے اور بہت طاقت ور مانے سیاست دان کو پہلی بار قومی اسمبلی تک پہنچنے سے روک سکتا ہے۔

مسلم لیگ نون میں موجود خواجہ سعد رفیق، زاہد حامد اور ایاز صادق جیسے ’’بردبار موقعہ شناس‘‘ مشکل کی اس گھڑی میں لیکن چودھری نثار علی خان کو دیوار سے لگاکر تخت یا تختہ والے شوڈائون کی طرف نہیں دھکیلنا چاہ رہے تھے۔

بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے نواز شریف صاحب کو سفارت کارانہ مہارتوں سے قائل کردیا کہ چودھری صاحب جن دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں وہاں نون لیگ کا امیدوار کھڑا نہ کیا جائے۔ان دونوں حلقوں کو ’’کھلا‘‘ چھوڑ دیا جائے اورپھر چودھری نثار جانیں اور چودھری سرور۔

چودھری نثار علی خان اس بندوبست کا اعلان ہوجانے کے باوجود شکرگزار نظر نہ آئے۔ منافقانہ تھینک یو تک نہ کہا۔ وفادار مشقتیوں نے ان سے منسوب اس’’رعونت‘‘ کا جذباتی استحصال کیا۔ مسلم لیگ قیادت دونوں حلقوں میں چودھری نثار علی خان کے خلاف امیدوار کھڑے کرنے پر مجبور ہوگئی۔

انتخابی سیاست کے ضمن میں چودھری نثار علی خان کی فراست ومہارت کا مداح ہوتے ہوئے بھی میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ مسلم لیگ نون کی جانب سے ان کے خلاف باقاعدہ امیدوار کھڑے ہونے کے بعد 2018کا انتخاب ان کی سیاسی زندگی کا مشکل ترین انتخاب بن گیا تھا۔

شاید اس کی وجہ سے وہ 1985کے بعد سے پہلی بار قومی اسمبلی تک بھی نہ پہنچ پاتے۔

یہ اعتراف کرنے کے باوجود میں یہ دعویٰ دہرانے پر مجبور ہوں کہ چودھری صاحب نے اپنی سہولت کے لئے قمرالاسلام کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری نہیں کروائی ہوگی۔ میرے اس دعویٰ کو لیکن کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔انگریزی والا Damageہوچکا ہے۔ NABچودھری نثار کی سہولت کار بنی نظر آرہی ہے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).