بنگلہ دیش آگے کیسے نکلا؟


میرے کئی دوست حیرت سے پوچھتے ہیں کہ بنگلہ دیش، ملبوسات(گارمنٹس) کی برآمدات میں ہم سے آگے کیسے نکلا۔ اُن کی سوچ کے پیچھے یہ گمان ہے کہ خام مال میسر ہو تو اشیاء برآمد کرنا سہل ہو جاتا ہے۔ اُنہیں علم ہے کہ بنگلہ دیش میں کپاس پیدا نہیں ہوتی۔

وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش نے 1980ء کی دہائی میں گارمنٹس کی برآمدات شروع کیں جبکہ ہم نے بنگلہ دیش سے تیس سال پہلے مغربی پاکستان میں اِس صنعت کی بنیاد رکھی تھی۔ بنگلہ دیش کیسے آگے نکلا؟ اس سوال کا جواب پانے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مقامی خام مال کی دستیابی، برآمدات میں کامیابی کے لئے ضروری نہیں۔

میں نے دوستوں سے کہا ’’پاکستان میں خواتین کے لئے ’’لان‘‘ ایک مقبولِ عام پہناوا بن چکا ہے۔ درجن بھر مشہور برانڈ، آپس میں مقابلہ کر رہے ہیں۔

موسم میں خنکی ختم ہوتے ہی، دلکش اشتہاروں کے رنگ چاروں طرف بکھر جاتے ہیں۔ پہلے اتنا شاندار کپڑا تیار نہیں ہوتا تھا۔ کیا آپ معیار میں بہتری کی وجہ جانتے ہیں؟‘‘ سوال پوچھ کر میں نے خود ہی جواب دیا ’’اِس کپڑے میں پاکستانی روئی استعمال نہیں ہوتی‘‘۔ یہ بات سُن کر وہ چونک گئے۔ شاید قارئین کے لئے بھی باعث ِحیرت ہو، کیونکہ عام خیال ہے کہ ہم کپڑا صرف مقامی کپاس سے تیار کرتے ہیں۔

کپاس کی مختلف اقسام ہیں۔ صوبہ پنجاب اور سندھ میں پیدا ہونے والی کپاس کا ریشہ موٹا اور لمبائی کم ہوتی ہے۔ اِس کپاس سے جو دھاگہ بنتا ہے وہ زیادہ مہین نہیں ہوتا۔ مقامی کپاس کے ریشے سے پندرہ، بیس، تیس اور زیادہ سے زیادہ چالیس کائونٹ کا یارن بنایا جا سکتا ہے۔ جتنا یارن کا کائونٹ کم ہو گا، کپڑا اتنا ہی موٹا اور کھُردرا ہو گا۔ ہماری کپاس سے جو اشیاء بہتر طور پر تیار ہو سکتی ہیں اُن میں تولئے، کم قیمت کی ٹی شرٹ، بستر کی چادریں، میزپوش، غلاف اور پردے شامل ہیں۔

مقامی کپاس کپڑے کی صنعت کے لئے دو قسم کے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ ایک طرف اُس کا ریشہ مہین اور ملائم کپڑا بنانے کے لئے موزوں نہیں، دُوسری طرف چنائی سے جننگ کے مرحلے تک کپاس میں کثافتیں شامل ہو جاتی ہیں۔ وزن بڑھانے کے لئے، پسا ہوا نمک اور دُوسری ملاوٹ کی جاتی ہے۔ دھاگہ اور کپڑا بننے تک یہ کثافت نظر نہیں آتی۔ البتہ جب کپڑے کو رنگ دیا جائے تو سطح پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے صنعت کار مجبوراً اپنی مصنوعات کو عالمی منڈی میں سستے داموں بیچتے ہیں۔

ہم اپنی کپاس سے پورا فائدہ حاصل کر سکتے تھے مگر حکومت کی پالیسیوں نے اِس امکان کو ختم کر دیا۔ پہلے ایک کالم میں ذکر ہو چکا ہے کہ کپاس پر برآمدی ٹیکس لگا کر مقامی منڈی میں اُس کی قیمت کم کی گئی۔ صرف دھاگہ برآمد کرنے سے اتنا منافع ہو جاتا کہ ہمارے صنعت کاروں کو اور کچھ کرنے کی ضرورت نہ رہتی۔ 1950ء کی دہائی کے دوران کپڑا بنانے کی فیکٹریاں لگنا شروع ہوئیں۔ ضرورت تھی کہ صنعت کاروں کو مصنوعی اور مہین سُوتی دھاگے کی آمیزش سے بہتر کپڑا بنانے کی ترغیب دی جاتی۔

مگر بھٹو حکومت کے ایک فیصلے نے اِس رحجان میں رکاوٹ ڈال دی۔ فیصل آباد، کپڑے کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا ہے۔ اِس شہر کے کاریگروں نے گھروں میں پاور لومز نصب کر رکھی تھیں۔ آلودہ ماحول میں بُنا ہوا کپڑا، اعلیٰ لباس کی تیاری کے لئے موزوں نہ تھا۔

برآمدی صنعت کے فروغ کے لئے بڑی اور جدید فیکٹریاں درکار تھیں۔ مگر حکومت نے سیاسی مقبولیت کی خاطر جو پالیسی بنائی وہ ضرورت کے برعکس تھی۔ چار لومز پر مشتمل یونٹ ’’چار کی چوکڑی‘‘ کے لئے ٹیکس کی معافی ہو گئی۔ اِس رعایت نے جدید مشینری کی درآمد اور صنعت میں سرمایہ کاری پر منفی اثر ڈالا۔

1992ء میں سُوتی دھاگے پر ترکی جیسے دوست ملک نے اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی لگائی تو ہمیں کپاس پر لگائے گئے برآمدی ٹیکس کو ختم کرنا پڑا۔ دھاگے کی برآمد پر منافع کی شرح کم ہوئی تو ٹیکسٹائل کی صنعت پر مشکل وقت آیا۔ اُن دنوں امریکہ اپنی ٹیکسٹائل کی درآمدات ایک کوٹہ سسٹم کے تحت کیا کرتا تھا۔ ہر ملک کو ٹیکسٹائل کی مختلف اشیاء کی برآمدات کا مخصوص کوٹہ ملتا۔ جب تک پاکستان کو کوٹے کی بیساکھی دستیاب رہی، ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بنیادی کمزوریوں پر پردہ پڑا رہا۔

اِس صدی کے اوائل میں امریکہ نے کوٹہ سسٹم ختم کر دیا۔ ہم اِس تبدیلی کے لئے تیار نہ تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مہنگے داموں بکنے والے لباس کے بجائے، ہماری برآمدات کا بیشتر حصہ بستر کی چادروں اور تولیوں تک محدود ہو گیا۔ آج بھی تقریباً وہی کیفیت ہے۔

بنگلہ دیش نے دُوسرا راستہ اختیار کیا۔ اُس کے پاس نہ کپاس تھی، نہ دھاگہ اور نہ ہی کپڑا بنانے کی صنعت۔ 1981ء میں گارمنٹس کی برآمدات صرف تین ملین ڈالر تھی۔ پھر اُس کے صنعت کاروں نے کپڑا درآمد کر کے، لباس تیار کرنا شروع کیا۔

حکومت نے صنعت کاروں کو تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کرنے میں مدد دی۔ کپڑوں کی سلائی صرف عورتوں کے لئے مخصوص کر دی گئی۔ خواتین کو ملازمت ملی تو اُن کے ہاتھ میں رقم آئی۔ اُس کے مثبت اثرات نئی صورت میں ظاہر ہوئے۔ ایک طرف آبادی میں افزائش کی شرح کم ہوئی اور دُوسری طرف خواتین کو پیداواری عمل میں حصہ لینے کا موقع ملا۔

پوری دُنیا تسلیم کرتی ہے کہ کپڑوں کی سلائی میں خواتین اپنے کام پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ پتلی انگلیوں کی وجہ سے کام میں نفاست اور کپڑے کا ضیاع کم ہوتا ہے۔ ہم بھی خواتین سے یہی کام لے سکتے ہیں مگر معاشرتی اقدار آڑے آتی ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں ملازمت پیشہ خواتین کا احترام نہیں کیا جاتا۔ ایک فیکٹری میں عورتوں اور مردوں کے باہمی اختلاط سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اُن سے خوفزدہ ہو کر بہت سے صنعت کار پیداواری لاگت میں اضافہ قبول کر لیتے ہیں مگر عورتوں کو ملازمت نہیں دیتے۔

بنگلہ دیش میں جب سلے سلائے کپڑوں کی صنعت اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی تو اِس مرحلے پر کپڑا بنانے کی جدید فیکٹریاں لگائی گئیں۔ اِن فیکٹریوں کے لئے ہر قسم کا دھاگہ درآمد ہوتا۔ کپڑا بنانے کی صنعت نے ترقی کی تو بنگلہ دیش نے دھاگہ بُننے کی فیکٹریوں کا بھی انتظام کر لیا۔ اِن فیکٹریوں میں استعمال کے لئے، مختلف ممالک سے کپاس اور مصنوعی ریشہ درآمد کیا جاتا ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے راستے مختلف رہے۔ ہمارا سفر، مقامی کپاس کی پیداوار کے فائدے کو بنیاد بنا کر، نیچے سے اُوپر کی طرف شروع ہوا۔ اِس کے برعکس، بنگلہ دیش کی گارمنٹ انڈسٹری اُوپر سے نیچے آئی۔ سلے سلائے کپڑوں (گارمنٹس) سے شروعات ہوئیں۔ اُس کے بعد کپڑا اور دھاگہ بنانے کی صنعت کو فروغ دیا گیا۔ عورتوں کو ملازمت ملی۔ ورکروں کے لئے یونیورسٹیوں میں مختلف میعاد کی تربیت کا انتظام ہوا۔ خام مال کی ضرورت، درآمد سے پوری کی گئی۔

آج بنگلہ دیش کی صرف گارمنٹس ایکسپورٹ، ہماری ٹیکسٹائل برآمدات سے دوگنا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ اگر پالیسیاں صحیح خطوط پر استوار نہ کی جائیں تو خام مال کی مقامی پیداوار، فائدے کے بجائے نقصان بھی دے سکتی ہے۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood