اور مشین سانس لیتی ہے


میرا ہمیشہ سے یہ اعتقاد رہا ہے محبت اس کائنات کا ازلی جذبہ ہے۔ اسی کو دوام حاصل ہے۔ نفرت نہایت عارضی فعل ہے۔ یہ لمحاتی کیفیت ہے۔ اس کو دوام حاصل نہیں۔ یہ انسانی سرشت سے لگا نہیں کھاتا۔ اس کو بہرحال ختم ہونا ہوتا ہے۔

جنگ و جدل ، مارپیٹ، گالی گلوچ انسانی افعال ضرور ہیں مگر یہ سب وقتی ہیں۔ انسان ان قابل نفرین جذبوں سے عظیم ہے۔ انسانوں کو محبت کے لئے تخلیق کیا گیا ہے۔ امن کے لئے اس روئے زمین پر اتارا گیا ہے۔ دوستی اور بھائی چارے کا پیامبر بنایا گیا۔

جو کچھ بھی ہو جائے انسان اپنی فطرت سے منکر نہیں ہو سکتا۔ اپنی حقیقت سے مفر نہیں کر سکتا۔ عارضی جذبوں اور مستقل کیفیت میں فرق ہوتا ہے۔ اگر انسان کی تخلیق کا مقصد لڑائی جھگڑا ہی ہوتا تو یہ دنیا کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ قیامت آچکی ہوتی۔ آسمان گر پڑا ہوتا۔

لیکن چونکہ آسمان ہمارے سروں پر قائم ہے اور زمین پر ہمارے قدم ابھی تک جمے ہوئے ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ محبت زندہ ہے۔ انسانوں میں نیکی ابھی جاگ رہی ہے۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسانوں میں فرقے ہیں ، طبقے ہیں، تفرقے ہیں، تفاوت ہے، اونچ نیچ ہے، رنگ نسل کا اختلاف ہے۔ لیکن یہ سب بھی عارضی ہے۔

انسانوں نے بالآخر محبتوں کو پروان چڑھانا ہے۔ سب فرق مٹ جانے ہیں۔ سب نے مساوی کہلانا ہے۔ سب نے ایک ہو جانا ہے۔ اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ اس کائنات میں محبت کے چند جذبے اٹل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے انسان کا اعتبار قائم رہتا ہے۔

ان فطری جذبوں پر نہ اختلاف ہے نہ بحث ۔ یہ انسان کے خمیر کا حصہ ہیں۔

کچھ جذبے ایسے ہیں جہاں ساری دنیا کےا نسان ایک سا سوچتے ہیں۔ سب لوگ ایک سا چاہتے ہیں۔ خدا سے محبت ان میں سے ایک جذبہ ہے۔ ساری دنیا اسی ایک جذبے کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ سب اسی کی عبادت میں مگن ہیں۔ طور طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ عبادتوں کے قرینے منفرد ہو سکتے ہیں۔ تسلیم کے قائدے جدا جدا ہو سکتے ہیں۔ مگر اس ذات سے انکار کسی کو نہیں ہے۔

سب مخلوق ہیں اسی کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ قادر مطلق ہے سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہی پیدا کرنے والا ہے اور وہی روح قبض کرنے ولا ہے۔ وہی مختار ہے ، وہی مالک ہے۔ ہم سب اسکے نائب ہیں۔ یہ جو کچھ ہے یہ اسی کی عطا ہے۔

سانس کی مالا بھی اسی کے حکم سے چلتی ہے۔ دل کی دھڑکن بھی اسی کے تابع ہے۔ سوچ کا پنچھی بھی اسی کے ازن کا مرہون ہے۔ خواب تک رسائی بھی اسی کی بخشش ہے۔ منزل تک نظر بھی اسی نے دینی ہے۔ راستے کا حوصلہ بھی اسی کے نام سے ملنا ہے۔ سفر کی تکان بھی اسی مالک کی عطا ہے۔

زاد راہ بھی اسی کے حکم سے ملنا ہے۔ جستجو بھی وہی دیتا ہے۔ جذبہ بھی اسی نے بخشنا ہے۔ جدوجہد کا حوصلہ بھی وہی عطا کرتا ہے۔ خوشیاں بھی اسی کی تقسیم ہیں۔ غم بھی اسکی رضا سے ملتا ہے۔زخم بھی اس کی اجازت سے لگتا ہے اور مرہم بھی وہی عطا کرتا ہے۔

وطن سے محبت کا جذبہ بھی ایسا ہی ایک جذبہ ہے۔ جو انسان کو سدا جوان رکھتا ہے۔ اسکا سینہ چٹان کر دیتا ہے۔ اسکا عزم کمان کر دیتا ہے۔ ہر شخص کے دل میں اپنے وطن سے محبت کا جذبہ اسکے زندہ ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ پاکستان کے بسنے والے بھی اسی جذبے کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں تفریق کوئی نہیں ہے۔ اختلاف کوئی نہیں ہے۔

یہ جذبہ تو ہر پاکستانی کے دل میں ایک آبشار کی طرح برستا رہتا ہے۔ سبز پرچم کو دیکھ کر سب کا سر تسلیم خم ہوتا ہے۔ ترانے کے بول دل میں امنگ جگاتے ہیں۔ ملی نغمے ایک نئی ترنگ بخشتے ہیں۔ قائد کی تصویر اب بھی حوصلہ عطا کر تی ہے۔

اقبال کا خواب اب بھی نگاہ میں تعبیر ہوتا ہے۔ تحریک پاکستان کی قربانیوں کی داستان اب بھی ولولہ جگاتی ہے۔ وطن کی آزادی کا جشن اب بھی روشنیاں بکھیرتا ہے۔ چہروں کو خوش رنگ کرتا ہے۔ ہم سب کسی بھی فرقے ، علاقے یا نسل سے تعلق رکھیں یہ دیس ہمارےخوابوں کا محور ہے۔ امیدوں کا مرکز ہے۔ آرزئوں کا منبع ہے۔

پاکستان ہی ہماری شناخت ہے۔ اسی کے نام سے ہم جانے پہچانے اور مانے جاتے ہیں۔ اسی کی بقامیں ہماری بقا ہے۔ اسی کے دوام میں ہم قائم ہیں۔ یہی ہمارے پرکھوں کی امانت ہے اور یہی ہماری آنے والی نسلوں کا امین ہے۔ شان ماضی حال یہی ہے۔ ارض پاکستان یہی ہے۔ یہی منتہائے مقصود ہے۔ یہی وطن جد وجہد ہے ، یہی ارض پاک منزل ہے۔ یہ مادر علمی ہے۔ یہی گوشہ سکون ہے۔

وطن کی محبت عظیم ہےاور اس خطہ پاک کو عظیم سے عظیم تر بنانے کی قسم ہم نے کھائی ہے اور یہ قسم ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔ماں کی محبت اس کائنات کا تیسرا عظیم جذبہ ہے جس پر کوئی بحث کوئی اختلاف نہیں۔ یہ وہ ہستی ہے جسکی دعائوں کی چھائوں میں ہر انسان رہتا ہے۔

سنگ دل سے سنگ دل شخص کے سامنے جب اسکی ماں کا ذکر آتا ہے تو آنکھ نم ہو جاتی ہے۔ محبت ٹھاٹھیں مارتی ہے۔ احترام سے سر جھک جاتا ہے۔ گوشت کے ایک لوتھڑے کو جنم دینے تک اپنی آخری سانس تک انسان اپنی ماں کی دعائوں کے حصار میں ہوتا ہے۔

انسان جو کچھ حاصل کر تا ہے۔ یہ اسکا نصیب نہیں اسکی ماں کی دعا ہوتی ہے۔ ماں محبت کا دوسرا نام کہلاتی ہے۔ شفقت کا بے پایاں سمندر ہوتی ہے۔ محبت اور صرف محبت ہوتی ہے۔ اسکے لبوں سے نکلی دعا میں عجب قبولیت کا ثمر ہوتا ہے۔

بگڑی بات بن جاتی ہے۔ بدقسمتی، خوش قسمتی میں بدل جاتی ہے۔ یہ قربانی کا استعارہ کہلاتی ہے۔ پیٹ کاٹ کر بچوں کو پالتی ہے۔ مشقتیں سہہ کر اپنی اولاد کو سکھ پہنچاتی ہے۔ بچپن سے بڑھاپے تک بچوں کی حفاظت کی دعائیں اسے جگائے رکھتی ہیں۔ یہ عظیم ہوتی ہے اور اپنے مرتبے کے سبب جنت اس کے قدموں تلے در آتی ہے۔

پاکستان میں عمران خان کی والدہ کینسر کے موذی مرض سے انتقال کر گئیں۔ عمران خان نے کینسر اسپتال بنانے کا عزم کیا۔ اس عظیم خواب کی تکمیل میں سارا پاکستان ایک ہو گیا۔ بچوں نے اپنی پاکٹ منی چندے میں دے دی، عورتوں نے زیور بیچ دیئے، لوگوں نے اپنے اکائونٹ خالی کر دیئے۔

اس وقت نواز شریف نے اس اسپتال کے لئے لاہور میں قیمتی زمین عطا کی، پچاس کروڑ روپیہ دیا اور ایک ماں کی محبت میں سارے پاکستان نے یہ اسپتال تعمیر کر دیا۔ آج بیگم کلثوم نواز شدید علیل ہیں۔ انکی سانسیں وینٹی لیٹر کی مرہون منت ہیں۔

میں ذاتی تجربے کی بناپر جانتا ہوں کہ ایسے میں گھر والوں کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ مریض تو مشین سے سانس لے رہا ہوتا ہے مگر گھر والے سب مر چکے ہوتے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ ایسے میں جب ڈاکٹر کاغذ پر کچھ لکھنے سے پہلے ایک لمحہ توقف کرتا ہے تو اس ایک لمحے میں کیا کچھ گزر جاتا ہے۔ کون کون سی قیامت ڈاکٹر کے ایک لفظ سے ڈھے جاتی ہے۔

جب ڈاکٹر کہتا ہے کہ اچھی خبر یہی ہے کہ کوئی بری خبر نہیں تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ جب اس جاں کنی کے عالم میں انفیکشن ہونے کی اطلاع ملتی ہے تو اہل خانہ پر کیا گزرتی ہے۔ نواز شریف اور انکے بچے اس وقت جس کیفیت سے گزر رہے ہوں گے اس الم کو صرف وہی جان سکتے ہیں۔

ہماری مذہبی، قومی اور اخلاقی روایات یہ سکھاتی ہیں کہ اس لمحے کا احترام لازم ہے۔ اس مرحلے پر دل جوئی فرض ہے ۔ لیکن جو کچھ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے چند لیڈران اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اس موضوع پر کر رہے ہیں وہ اتنا کریہہ ہے کہ نیکی پر واثق یقین کے باوجود بعض اوقات انسانوں پر سے اعتبار ختم ہو جاتا ہے۔ محبت کا ازلی جذبہ کہیں دور دفن ہو جاتا ہے۔

بشکریہ جنگ

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar