نامعلوم افراد، گم شدہ افراد، خاموش منبر اور نظر بند خبر


نائن الیون کے بعد امریکہ تمام تر حشرسامانی کے ساتھ افغانستان پر ٹوٹ پڑا۔ عالم پناہ جناب ڈبلیو بش عالی مقام منہ میں دھواں لیے پھر رہے تھے۔ رمز فیلڈ ٹیلفون آپریٹر بنے کچھ سربراہانِ مملکت کو فون لگائے جارہے تھے۔ فون لگتا، ساتھ ہی تڑی لگتی ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے ساتھ؟ جواب آتا کہ حضور! یہ بھی آخر کوئی پوچھنے والی بات ہے؟ عالمی قوانین ہوں کہ ملکی قوانین، بری طرح سے پامال کر دیئے گئے۔ دور کیوبا کے مشرقی جنوب میں واقع گوانٹاناموبے پہ ایک پنجرا تعمیر کیا گیا۔ افغانستان اور پاکستان سے مطلوبہ افراد کی مشکیں کسی گئیں اور ریوڑ کی طرح ہانک کر اس پنجرے میں پہنچائے گئے۔ جنرل پرویز مشرف نے طشتری میں رکھ کر جو انسان حوالے کئے ان میں طلبان دور حکومت کے سفیر عبدالسلام ضعیف بھی تھے۔ درد و الم کی روح چھیر دینے والی داستان پڑھنی ہو تو ملا ضعیف کی کتاب ’’گوانتا ناموبے کی کہانی ملا ضعیف کی زبانی‘‘ ضرور پڑھ لینی چاہیئے۔ عالمی اداروں کو دو سے ڈھائی برس تک اس ستم کدے میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ جب قدم پڑے تو اندازہ ہوا کہ کیا کچھ ستم ہیں جو وہاں ڈھائے نہیں جارہے۔ نارنجی لباس میں ملبوس اور کچھ بے لباس قیدیوں کی تفصیل بتانے کی شاید ضرورت ہی نہیں کہ ہر آنکھ گواہ ہے۔ سوال یہ اٹھا کہ گوانتا مو بے میں جو قید ہیں ان میں کوئی جنگی قیدی ہے اور کوئی سفیر۔ کیا بین الاقوامی قانونِ انسانیت کے تحت ان کا کوئی خاص درجہ ہے یا کہ نہیں؟ اس سوال کا جواب بش کابینہ نے باقاعدہ ایک ایکٹ تخلیق کر کے دیا۔ صبح کی پہلی کرن پھوٹتے ہی علم کی دنیا میں ایک ہیبت ناک اضافے کی خبر پھیلی کہ جو لوگ گوانٹاناموبے میں قید ہیں وہ دراصل ’’اَن لا فل کمبیٹینٹ‘‘ ہیں۔ مطلب؟ مطلب سادہ ہے کہ یہ قیدی نہ تو مُقاتل ہیں اور نہ ہی سویلین ہیں۔ پھر کیا ہیں آخر؟ بھئی کچھ لوگ آپ نے پابند سلاسل کر دیئے ہیں جو ازروئے منطق حیوانِ ناطق کی تعریف پہ پورا اترتے ہیں، انہیں آخر کیا کہا جائے؟ شہنشاہ مکرم کے کچھ درباریوں نے دانشوارانہ طیش میں اس کی مزید تشریح یوں کی کہ یہ ’’نان کمبیٹنٹ اینیملز‘‘ یعنی غیر مقاتل جانور ہیں۔ سبحان تیری قدرت۔ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ یعنی تین میں ہوئے نہ تیرہ میں۔ آج بھی فرصت ملے تو فائلیں ٹٹولتا ہوں اور دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ اس پورے عرصے میں انسانی تاریخ کی اس بدترین عقوبت گاہ پہ کسی نابغے نے کلام کیا کہ نہیں؟ عقوبت گاہوں کو چھوڑ دیتے ہیں، کتنے ہیں جو بش کابینہ کے اس انسانیت سوز ایکٹ پہ حرف گیر ہوئے ہوں؟ وجہ۔؟ آگے چلتے ہیں، وجہ بھی شاید ہاتھ لگ جائے گی۔

نوے کی دہائی میں نصیراللہ بابر صاحب قیامت بن کر کراچی پہ ٹوٹے۔ اعلامیہ ایسے جاری کرتے جیسے نامعلوم مقام سے کوئی مطلوبہ لڑاکا دھاڑ رہا ہے۔ مہاجر قومی مومنٹ کے بے شمار کارکن پورے اطمینان کے ساتھ ماورائے عدالت قتل کر دیئے گئے۔ میرے محلے کی بغل میں جہانگیر آباد کی کچھ مائیں آج بھی نہیں جانتیں کہ رات کے آخری پہر سادہ لباس میں ملبوس بندوق بردار ان کے بچوں کو گھسیٹ کر کہاں لے گئے تھے۔ آج اگر مر گئے ہیں تو ان کو کفن بھی دیا کہ نہیں؟ قبر ملی تو کہاں ملی ہوگی؟ توفیق زاہد عرفان بہادر اور چوہدری اسلم جیسے پولیس اہلکار تب کراچی میں بندوق تھامے بدر منیر اور سلطان راہی والی چوڑی چال میں چلا کرتے تھے۔ ایک پولیس اہلکار خلق خدا کے سامنے نعرہ تکبیر بلند کرتا، کسی نوجوان کے بھیجے میں گولی اتارتا۔ نال میں پھونک مارتا اور پستول نیفے میں دبا کر چل پڑتا۔ جو لوگ ان نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل پہ خوش تھے ان میں سرفہرست اپنے اس بھائی کو بھی رکھیئے۔ اس زمانے میں جس شخص کے ڈنکے گھر گھر پٹے وہ چوہدری اسلم تھے۔ جی یہی والے ایس پی چوہدری اسلم جو خود کش حملے میں مارے گئے۔ انہوں نے کراچی میں اپنے کیرئیر کا آغاز ہی ہمارے مقامی تھانے سے کیا۔ دن بھر وہ طبیلے میں تکبیریں پڑھتے، سرِ شام رندوں کو پکارتے کہ آ تشنہ لبی تشنہ لبی بادکشاں دیکھ، پھر سورج غروب ہوتے ہی فقیہانِ حرم کو پکارتے کہ اے ساتھیا میخانے پہ جنت کا گماں دیکھ۔ واعظ ہجوم در ہجوم چلے آتے۔ کوئی تعویذ پیش کرتا کہ سالار اسے بازو پہ باندھیئے، اگر دشمن کی گولی آپ کو لگ جائے تو جو نعیم شری کی سزا وہ میری سزا۔ کوئی پانی کا گلاس پیش کردیتا کہ یہ اول آخر درود شریف کے ساتھ تین سانسوں میں پی لیجیئے دشمن کی چال سے محفوظ رہیں گے۔ ایک مذھبی سیاسی رہنما نے انہیں قرآن کی ایک آیت تعلیم کی کہ اس کا ورد برابر جاری رکھیں تو سامنے ہوتے ہوئے بھی دشمن کی نگاہ آپ کو تاک نہیں پائے گی۔

کیا آپ کو خبر پہنچی ہے کہ کراچی کے مقتدر ترین دینی تعلیمی اداروں میں ختمِ بخاری کی تقریب میں رینجرز سندھ کے اعلیٰ ترین افسروں کو مدعو کیا جاتا ہے علما اپنی پرنور نگاہیں جس ادائے قربانت شوم کے ساتھ ان کی راہ میں بچھاتے ہیں، اس کی کوئی سن گن ملی؟ جی ہاں جن سے لیا جائے گا کام مسجد کی امامت کا، وہ خوش ہیں کہ ان کی نگاہِ ناز نے جیتے جی طارق بن زیاد کی بلائیں لے لیں۔ کیا مجھے وضاحت کرنی پڑے گی کہ باوردی افسران کو اس عقیدت کے ساتھ مسند پہ بٹھانے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ جو آپ سمجھ گئے ہیں وہی میرا مدعا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر چوہدری اسلم لنکا میں تھے اور پورے باون گز کے تھے۔ معصوموں کو احساس نہیں ہوتا کہ ایک تھری اسٹار بندوقچی دراصل ایک نوکر ہوتا ہے۔ وہ احکام کا پابند اور صورت حال کا غلام ہوتا ہے۔ اس کا برتاؤ پل میں تولے اور پل میں ماشے کا حساب رکھتا ہے۔ دیکھیے نا کہ وقت نے کیسا پلٹا کھایا۔ جنرل مشرف نے ایوان اقتدار پہ شب خون مارا، ایم کیو ایم کے دن پھر گئے، افغان جہاد کی چکا چوند دم توڑنے لگی، فور بائی فور ڈبل کیبن گاڑیوں کا ایندھن خشک ہونے لگا، مشک و عنبر کی مہکار دھیمی پڑنے لگی، اور یہاں تک کہ قندھار کی ریشمی پگڑیوں کے پیچ وخم ڈھیلے پڑ نے لگے۔ اب وہی چوہدری اسلم تھے، مگر ان کا رخ لیاقت آباد کے بجائے سہراب گوٹھ کی طرف تھا۔ وہ اسی آہنگ سے سعید آباد کی تنگ و تاریک گلیوں میں گھستے اور کالعدم جماعتوں کی مطلوبہ شخصیات کو صدقے کے بکرے کی طرح گھسیٹ کر لاتے۔ ملیر لانڈھی اور کورنگی سے اٹھائے ہوئے کارکنوں کی لاشیں اسی طرح سڑک کنارے ملنے لگیں جس طرح ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ملا کرتی تھیں۔ نشانے اب پختہ ہوچکے تھے سو چلتی گاڑی سے ٹھوک کر ٹیپو میاں نکل جایا کرتے تھے۔ اب وہی لوگ جو چوہدری صاحب کو رد بلا کا تعویذ دیتے تھے وہ چوہدری اسلم سے نمٹنے کے لئے  جل تو جلال تو اس بلا کو ٹال تو والے وظیفے بانٹنے لگے۔ بندوق اٹھا کر اسی بازو کا نشانہ باندھنے لگے جس پر ان کا وظیفہ لپٹا ہوا تھا۔ کیوں بھیا کیا ہوا؟ کچھ نہیں، بس اندازہ ہوگیا کہ سیر آٹے سے کتنی چپاتیاں بنتی ہیں۔ کوئی شخص دن دیہاڑے اٹھا لیا جائے، منہ اندھیرے مار دیا جائے تو ایک ماں پہ کیا گزرتی ہے۔ اس کا اندازہ ایم کیو ایم کو پہلے ہی ہوچکا تھا، مگر ستم دیکھیئے کہ جب مذہبی جماعتوں کے کارکن ماوارئے عدالت قتل کیے جانے لگے تو ایم کیو ایم ہی نے بغلیں بجانا شروع کردیں۔ یہ کیا ہے؟ آگے چلتے ہیں، شاید سمجھ آجائے گا کہ کیا ہے۔

بلوچستان اور وزیرستان میں ہونے والے خلفشار کے بعد کچھ لوگ ماروائے عدالت غائب کر کے لاھوت ولامکان کی طرف پہنچا دیے گئے۔ نامعلوم افراد کی طرح انہیں ہم لاپتہ افراد کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔ ایک فہرست وہ تھی جو ماما قدیر لیے پھرتے تھے دوسری فہرست وہ کہ جو آمنہ مسعود جنجوعہ کے ہاتھ میں تھی۔ یا یوں کہہ لیں کہ لاپتہ افراد میں کچھ وہ تھے جن کا مقدمہ سردار اختر مینگل لڑ رہے تھے اور کچھ وہ جن کا کیس قاضی حسین احمد مرحوم کے ہاتھ میں تھا۔ کیا بلوچستان کے لاپتہ افراد مظلوم تھے؟ پتہ نہیں۔ کیا مذھبی جماعتوں کے لاپتہ افراد مظلوم تھے؟ خبر نہیں۔ ظالم مظلوم کی ہمیں خبر نہیں بس ایک بات طے ہے کہ دونوں اطراف سے جس کسی کی بھی گردن اتری ماورائے عدالت اتری۔ جس کو بھی افق کے اس پار لے جایا گیا آئین اور قانون سے ماورا ہی لے جایا گیا۔ مگر اس کے باوجود قومی قیادت ہو کہ سول سو سائٹی، دو واضح رخوں پہ تقسیم ہوگئی۔ ایک طبقے کے لیے صرف وہ لوگ لاپتہ افراد تھے جو راسخ العقیدہ مسلمان تھے، اور کچھ کے لیے وہ کہ جو قوم پرست تحریکوں کے لیے سرگرم تھے۔ یعنی یہ کیا ہے؟ کچھ نہیں، بس یہ انسانیت کی وہ بنیاد ہے جس کی تفہیم میں فقیہِ شہر اور امیرِ شہر سے بیک وقت ایک جیسی بھول ہوگئی ہے۔ اگر نہیں ہوئی تو پھر گوانتاناموبے میں روا رکھی گئی شقاوتِ قلبی پہ اہلِ آئین و دستور کی سرد مہری کیسی؟ ایم کیو ایم کے ماورائے عدالت قتل کیے گئے بے شمار کارکنوں پہ خداندانِ منبر ومحراب کی خاموشی کا کیا مطلب؟ اسی شہر کے اہلِ مذھب پہ ڈھائے گئے ماورائے آئین ستم در ستم پہ حقوقِ انسانی کے تنہا ضامنوں کی لاتعلقی چہ معنی دارد؟ پختونخوا سے غائب کیے گئے نوجوانوں پہ بلوچستان کی قوم پرستی کیوں خاموش تھی؟ بلوچستان سے اٹھائے گئے انسانوں پہ پختونخوا کی مذہب پسندی کیوں چپ سادھی ہوئی تھی؟ سنجیدگی سے سوچنے پہ آپ کو اندازہ ہوگا کہ جبر کو سہنے پہ ہمارے بیچ شدید اختلاف رائے ہے، اور جبر ڈھانے پہ مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ میرے قدامت پسند رجحانات کو پناہ ملے تو ضیا الحق ایسا جابر مجھے گوارا ہے، میرے جدت پسند رجحانات کو سہارا ملا تو مشرف جیسے آمر کو اکیس توپوں کی سلامی۔

جانے دیجیئے۔ یہ سب شاید کل تک کی بات تھی، اب معاملہ دوسری رخ پر ہے، جو زیادہ سنگین ہے۔ ذرائع ابلاغ کے گرد اٹھارہ انچ کا تسمہ کھینچ دیا گیا ہے، اب ماورائے عدالت ہونے والی بربریت کی ہر قسم ٹھنڈے پیٹوں برداشت کی جارہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق کراچی کے قٓریب ساڑھے چار سو جوان راؤ انوار کی بھینٹ چڑھائے گئے اور اس پر راؤ انوار مسکراتے ہوئے عدالت میں نمودار ہوتے ہیں۔ ان دہشت گردوں کو سلام واجب ہے جو ہتھکڑیاں پہن کر پولیس کا مقابلہ کرتے رہے۔ کیا آئین و قانون کی اس قدر واضح خونریزی پہ ذرائع ابلاغ کے قلم کیمرے حرکت میں آئے؟ نہیں۔ مرنے والوں کی نعشوں پر سر تا پاؤں تمام نشانات بتلا رہے ہیں کہ تشدد کی کون سی اقسام بروئے کار لائی گئی ہیں۔ مگر داد دیجیئے کہ ہلاکت اس تشدد کے بجائے حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے ئی۔ اب حرکت قلب کیوں بند ہوئی؟ ممکنہ وجوہات میں سے ایک سیگریٹ نوشی بھی ہوسکتی ہے ورنہ لاتوں گھوسوں راڈوں ٹھڈوں میں کہاں دم کہ کسی ملزم کی جان لے لے۔ قلم خاموش۔ زبان گنگ۔ کیمرا بند۔ دانشور چپ۔ اب اگر کہیں کہ ماورائے عدالت قتل ٹھیک ہی تو ہے، تو آئین کی شقیں اور منطق کے قضیئے گلے پڑجاتے ہیں۔غمگساری کے واسطے پکاریئے تو زبان پہ آبلے پڑجاتے ہیں۔ یہ ستم بھی شاید اس قوم کے نصیب میں تھا، مگر خیر کی بات یہ ہے کہ ابلاغ کے تمام خاموش ذرائع کو سماجی ذرائع ابلاغ نے اوقات دکھا دی ہے۔ زبانِ خنجر چپ تھی تو کیا ہوا، آستین کا لہو پکار اٹھا ہے صاحب۔ جیسے تیسے ہی سہی، متعلقہ ادارے ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سنجیدہ نوٹس لینے پر مجبور ہوئے۔ سماجی ذرائع ابلاغ پہ بیٹھے نوجوان اسے اپنی فتح جانیں، مگر اس احساس کے ساتھ کہ ظالم کا کوئی مذھب نہیں ہوتا، مظلوم کا کوئی مسلک نہیں ہوتا۔ جابر کی کوئی نسل نہیں ہوتی مجبور کا کوئی قبیلہ نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments