اب تو فیصلے کاانتظار ہے


پاکستان کی سیاسی تاریخ بیان کرنا ہو تو مولوی تمیز الدین کیس کا ذکر بھی ضروری ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں برآمد ہوا ”نظریہ ضرورت“۔ جسٹس منیر کا دریافت کردہ نظریہ ضرورت بعدازاں ایوب،یحییٰ، ضیاءالحق اور پرویز مشرف کے لگائے مارشل لاﺅں کو ”جائز“ قرار دینے میں مدد گار ثابت ہوا۔ ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ملکی سیاست کا تجزیہ کرنے والوں کے لئے مشکل مگر اب یہ آن پڑی ہے کہ وہ مذکورہ واقعات کو یاد کرتے ہوئے ”عدلیہ مخالف“ سُنائی دیتے محسوس ہو سکتے ہیں۔

ان کا پروگرام اس خطاب کے نتیجے میں بند ہو سکتا ہے اور انتہائی صورتوں میں پیمرا اس نیٹ ورک کا لائسنس بھی معطل یا کینسل کر سکتی ہے جو انہیں اپنے خیالات بیان کرنے کے لئے پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ احتیاط لہٰذا بہت ضروری ہے۔

احتیاط کی عادت اپناتے ہوئے ہمارے تمام ٹی وی چینلوں نے منگل کی شام نواز شریف کی ”ووٹ کو عزت دو“ کے نام سے ہوئے سیمینار کے دوران تقریر کو طویل لمحات کے لئے Mute کیا۔ نواز شریف کی آواز مسلسل بند ہونا شروع ہوئی تو ہاہا کار مچ گئی۔ سوشل میڈیا پر افواہ یہ بھی پھیل گئی کہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں سیاست کے لئے تاحیات نااہل ہوئے نواز شریف کے خیالات ٹویٹر کے ذریعے بھی آن ائیر جانے کی ”اجازت“ نہیں دی جا رہی۔

حالانکہ یہ محض اتفاق تھا کہ نواز شریف کی تقریر کے دوران دنیا بھر میں ٹویٹر کسی تکنیکی وجہ سے پوری طرح کام نہیں کر پا رہا تھا۔ ویسے عام حالات میں بھی ٹویٹر کے ذریعے ایسے طویل پیغام کی براہِ راست اشاعت ممکن ہی نہیں جس کا مواد بنیادی طورپر Audio-Visual ہو۔ ڈیڑھ سے دو منٹ کی کلپ بھی Upload ہونے میں وقت لیتی ہے۔ سمارٹ فونز اس ضمن میں کمزور انٹرنیٹ سروس کی وجہ سے بسااوقات ان منٹوں سے کہیں زیادہ وقت لیتے ہیں۔

نواز شریف کی تقریر کے دوران میں اپنے ٹی وی شو کی تیاری میں مصروف تھا۔ کئی نوجوان ساتھی جن کی اکثریت کو مسلم لیگ کے رہ نما کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ان کی تقریر کے مسلسل میوٹ ہونے کے بارے میں بہت پریشان تھے۔ میں ڈھیٹ بنامسکراتا رہا۔ اپنی جوانی کے دن یاد آگئے۔ ان دنوں جن اخبارات سے وابستہ رہا ان کی تیار کردہ کاپی پریس میں جانے سے قبل پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ بھیجی جاتی تھی۔

وہاں سے ”تخریبی“ خبریں نکال دی جاتیں۔ صبح چھپے اخبارات میں Blank Spacesنظر آتیں۔ مارشل لاءحکومت کو ان Spacesکی وجہ سے ندامت محسوس ہوتی۔ بالآخر حکم صادر ہوا کہ Spacesخالی نہ چھوڑی جائیں۔ جو خبر ہٹائی جاتی اس کی جگہ کوئی اور مواد ڈالنے کے لئے ہم نے اکثر ایسی خبریں تیار کی ہوتی تھیںجن میں عموماََ بازاروں میں بکتی مختلف اشیاءکی فراوانی یا عدم دستیابی کا ذکر ہوتا تھا۔ سبزیوں اور دالوں کا تازہ ترین احوال اس ضمن میں ہمارے بہت کام آتا۔

میری جوانی کے دنوں میں ”آزاد“ ٹی وی صحافت کی گنجائش ہی موجود نہیں تھی۔ صرف PTV تھا۔ اس کا خبرنامہ ہوتا تھا جو سب اچھے کی خبر دیتا۔ سیاسی امور سے آگاہی کے لئے ہم سب کا انحصار بی بی سی کی اُردو نشریات پر ہوا کرتا تھا۔ سیربین اس کا مقبول ترین پروگرام تھا۔

اپنی پسند کی خبر یا تبصرے جاننے کے لئے آپ کو اب ریڈیو کی ضرورت نہیں رہی۔ فیس بک اور ٹویٹر متعارف ہو چکے ہیں۔ راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک کو 22 دنوں تک دھرنے کے ذریعے بند کرنے والی ایک جماعت نے سوشل میڈیا ہی کی بدولت اپنا جلوہ دکھایا تھا۔ گزشتہ ہفتے جمعرات کی شب اسی جماعت کے جذباتی کارکنوں نے جی ٹی روڈ کو مختلف مقامات پر بند کردیا۔

پنجاب کے کئی شہروں بلکہ بڑے قصبات میں بھی پہیہ جام کی صورتیں دیکھنے کو ملیں۔ بالآخر کئی برسوں سے اس ملک میں ”گڈ گورننس“ کی علامت بنی پنجاب حکومت کے راجپوتی کرتا دھرتا مذکورہ جماعت کے کارکنوں کے روبرو حاضر ہوئے۔ ان کے گھٹنے چھوتے ہوئے جاں بخشی کروائی۔ پنجاب پولیس نے اپنی ہی تفتیش کو ناقص قرار دیتے ہوئے اب اس جماعت کے رہنماﺅں کے خلاف دہشت گردی وغیرہ کے الزامات کے تحت قائم ہوئے مقدمات کو واپس لے لیا ہے۔

اس جماعت کے علاوہ نوجوانوں کی ایک تحریک بھی ہے۔ ذکر اس کا ہمارے ٹی وی چینلوں میں ہرگز نہیں ہوتا۔ اخبارات بھی اس کا ذکر کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس تحریک کی جانب سے لیکن فیس بک پر Live نشریات چلائی جاتی ہیں۔ بسااوقات ان نشریات کو دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں تک چلی جاتی ہے۔ ہماری ریاست مگر مطمئن ہے کہ مذکورہ تحریک کا بیانیہ لوگوں تک نہیں پہنچ رہا۔

نواز شریف کا بیانیہ ویسے ”تخریبی“ ہو ہی نہیں سکتا۔ تعلق ان کا ایک صنعت کار گھرانے سے رہا۔ جنرل ضیاءکی سرپرستی میں بطورسیاست دان پروان چڑھے تھے۔ اس ملک کے تین بار وزیر اعظم رہے۔ زندگی کی آسائشوں کے عادی ہیں۔ان کے نام سے منسوب جماعت Electables سے بھری پڑی ہے۔بنیادی طورپر خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے یہ Electablesمزاجاََ جی حضوری ہیں۔

”سرکار“ کو برطانوی راج کے دنوں سے ”مائی باپ“ کے طور پر لیتے ہیں۔ ”پلس مقابلے“ ان کے بس کی بات نہیں۔ میاں صاحب کا ”مجھے کیوں نکالا“ والا بیانیہ وہ محض اس لئے برداشت کررہے ہیں کہ یہ ووٹ بینک کو مستحکم رکھنے کے کام آرہا ہے۔ میاں صاحب کو آئندہ کچھ دنوں میں احتساب عدالت نے جیل بھیج دیا تو بھی محض ”بیانیے“ کا ذکر ہوگا مگر ساتھ ہی نہایت احتیاط سے آئندہ انتخابات کی تیاری بھی۔ ”نیویں نیویں“ رہ کر جان کی امان طلب کرتے Electables کی معاونت سے نواز شریف اس ملک میں ”انقلاب“ جیسی کوئی شے دکھا ہی نہیں سکتے۔

ان کی Live تقاریر کا Mute ہو جانا مگر انہیں ”انقلابی“ بناکر پیش کررہا ہے۔ سوال مگر یہ اُٹھتا ہے کہ مزید کتنے دنوں تک؟ گواہان اور دلائل ان کے خلاف دائر ہوئے ایک کیس میں تقریباََ مکمل ہوچکے ہیں۔ اب تو فیصلے کا انتظار ہے اور شاید ہم سب کو علم ہے کہ ”وہ کیا لکھیں گے جواب میں“۔

بہرحال چند روزہ رونق اور لمحاتی سنسنی ہے۔ مناسب یہی ہوگا کہ اسے گزر جانے دیا جائے اور چیزوں کو Balance کرنے کے لئے کینیڈا میں بیٹھے ”شیخ السلام“ سے درخواست کی جائے کہ وہ ”ریاست بچانے“ ایک بار پھر پاکستان آجائیں۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا ”قصاص“ لینے کے لئے لاہور کے قلب میں دھرنا دیں۔ اس دھرنے سے ان کے Live خطابات کے مقابلے میں نواز شریف کی تقاریر بہت پھسپھسی محسوس ہوں گی۔ لوگوں کی تفریح کا بندوبست بھی ہوجائے گا اور صحافت ہماری بدستور بہت ہی آزاد اور بے باک نظر آتی رہے گی۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).