انسانوں کی اس بدبو کو کون ختم کرے گا؟


رات کے گیارہ بجے تھے اور میں سونے ہی والا تھا کہ انہوں نے میرا دروازہ دھڑدھڑایا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ یہ وہی ہوں گے۔ وہی ایسے وقت پر آتے تھے، بغیر کسی اطلاع کے دروازہ کھٹکھٹاتے نہیں تھے بلکہ دھڑدھڑاتے تھے۔ مجھے ان کا آنا اچھا لگتا تھا۔ ان سے باتیں کرنا اور دنیا کے بارے میں ان کے تجربات و نتائج سے آگاہ ہونا پاکستان کے دوغلے لوگوں سے ہونے والے ان کے تجربات پر سردھننا اور ان کے ساتھ شراب کی ہلکی ہلکی چسکیاں لیتے ہوئے سرور میں آنے کے بعد بات ہی کچھ اور ہوتی تھی۔

وہ ایک پڑھے لکھے انسان، غالب کے شیدائی، اور کیمسٹری فارمیسی میں سند یافتہ تھے۔ زندگی کے بارے میں ان کے خیالات بہت دلچسپ تھے، ساری زندگی انہوں نے پڑھتے پڑھاتے ہی گزاری تھی، وہ ایک آزادانہ زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا اپنا ایک چھوٹا سا مکان میرے ہی محلے میں تھا وہ اکثر و بیشتر میرے پاس آجاتے۔ ہم دونوں کی کیمسٹری ایک تھی، میرا دروازہ اور دل ہمیشہ ہی ان کے لیے کھلا ہوتا تھا۔

میں نے جا کردروازہ کھولا، کوئٹہ کی ہواؤں والا سردی کا زمانہ تھا، وہ کوٹ کے اوپر ایک چادر بھی اوڑھے ہوئے تھے اور سر پر ٹھنڈک سے بچنے کے لیے ایک سرخ اون کی ٹوپی بھی پہنی ہوئی تھی۔

مسئلہ حل ہوگیا۔ مجھے دیکھتے ہی بغیر کسی دُعا سلام کے انہوں نے کہا۔
کون سا مسئلہ۔ میری سمجھ میں نہیں آیا، کیونکہ ان سے تو مسئلوں پر ہی باتیں ہوتی رہتی تھیں، انگنت مسئلے اور ان کے حل کی جستجو۔
ارے وہی گیس والا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گیس کی بدبو والا۔ انہوں نے فوراً ہی جواب دیا۔

اچھا اندر تو آئیں میں نے بغیرسمجھے ہوئے جواب دیا اور دروازہ کھول کر ایک طرف ہوگیا تھا۔
کیا پئیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چائے، کافی یا ٹماٹر کا سوپ۔ میں نے سردی کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا اور دروازہ بند کر دیا۔
گرما گرم سوپ پلادو تو مزا آجائے گا مگر ساتھ ہی دارو بھی ہوجائے، کیا ہے تمہارے پاس۔ پھر دوبارہ بولے، تم سمجھ گئے نہ میں کس مسئلے کی بات کررہا ہوں۔

ضیغم صاحب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاررہے تھے۔ کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے پھر ریٹائر ہونے کے بعد ایک دوا ساز کمپنی میں ملازم ہوگئے، کئی سالوں تک وہاں کام کیا پھر ایک وقت آیا کہ وہاں سے بھی ریٹائر ہوکر پڑھنے پڑھانے اور تجربے کرنے میں لگ گئے۔ میری طرح سے انہوں نے بھی شادی نہیں کی تھی۔ کتابیں، گھومنا اور میرے جیسے چند لوگوں سے دوستی تھی ان کی۔ مجھے ان سے مل کر باتیں کرکے بہت مزا آتا تھا کیونکہ وہ سائنس کی نئی نئی معلومات بڑے سادہ طریقے سے بتا اور سمجھا دیتے تھے۔

ایک اور اہم بات یہ تھی کہ دنیا کے سیاسی ومعاشی اور اقتصادی حالات پربھی ان کی خوب نظر تھی۔ یونان کے فلسفے سے لے کر قدیم مصری اور میسو پوٹیمیا کی تہذیبوں کے بارے میں بھی انہوں نے بہت کچھ پڑھا ہوا تھا۔ ان کے پڑھنے لکھنے کی عادتوں کی وجہ سے میری معلومات میں خوب اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ زندگی اور دنیا کے بارے میں ان کے نظریات بہت سیدھے سادے تھے، اتنے ہی سیدھے سادے کہ عام آدمی کو تو سمجھ میں آتے تھے مگر دنیا کے چلانے والوں کواس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ وہ دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت اور انسانوں کے جنگی جنون کے بارے میں کافی فکر مند رہتے تھے۔ وہ جنگلوں، درختوں، دریاؤں، ندی نالوں اور جھیلوں کے بارے میں فکر کا اظہار کرتے، ساتھ ہی زمین پر پلنے بڑھنے والے جانوروں اور ہواؤں میں اڑنے والے پرندوں کے بارے میں سوچتے رہتے تھے۔

ان کے پاس اکثر امریکا سے نکلنے والا نیشنل جغرافیہ کا شمارہ ہوتا اور مجھے دلچسپی اور بڑے موثر طریقے سے انسانوں کی لائی ہوئی تباہی کے بارے میں بتاتے تھے۔ دنیا کی گھمبیر صورت حال کے بارے میں وہ باتیں تو کرتے تھے مگر ساتھ ساتھ امیدبھی ہوتی تھی اور انسانوں سے شکوہ بھی جو ان کے خیال میں بہت خودغرض تھا جو دھرتی کو تباہ کررہا تھا محض منافع کے لیے۔ انہیں نت نئی ایجادات سے بھی بڑی دلچسپی ہوتی تھی اور اکثر وبیشتر وہ کسی نئی ایجاد کے بارے میں اپنے دلچسپ خیالات بھی پیش کردیتے تھے۔

میں ان کو بٹھا کر ان کے بارے میں سوچتا ہوا باور چی خانے میں جا کر ٹماٹر کا سوپ کا ڈبہ کھول رہا تھا کہ مجھے ان کی بات کا خیال آیا۔ گیس کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ میں نے سوپ چولہے کی دھیمی آنچ میں رکھا اور الماری سے پیالے نکالنے لگا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ انہوں نے دارو کی فرمائش بھی کی تھی۔ مجھے فوراً ہی شیمپئن کی اس بوتل کا خیال آیا جو میرا عربی شاگرد دے کر گیا تھا۔ میں نے سوچا ضیغم صاحب کو آج شیمپئن پلائی جائے اور اس کے بعد کھانے کو کچھ دیا جائے۔ آخر یہ بوتل کب کھلے گی۔ میں دو گلاس اور شیمپئن کی بوتل کے ساتھ ان کے پاس پہنچا تھا۔ شیمپئن کی بوتل دیکھ کر ان کا چہرہ کھِل اُٹھا اور دونوں آنکھوں میں جیسے قمقمے جگمگاگئے تھے۔

ارے بھئی یہ تو زبردست شیمپئن ہے، کہاں سے مل گئی؟ انہوں نے پوچھا۔
ایک عربی شاگرد جو میرے پاس پی ایچ ڈی کررہا ہے اس نے دی تھی۔ میں تو بھول ہی گیا تھا مگر آج آپ نے فرمائش کی تو مجھے یاد آگیا۔ میں نے گلاس ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔

بھئی یہ زبردست شیمپئن ہے بروٹ کی۔ یہ دو طرح کے کالے انگوروں سے بنائی جاتی ہے، دو تہائی حصہ کالے انگور کی پیٹی کا ہوتا ہے اور ایک تہائی حصہ سبز انگور سے آتا ہے۔ میرے خیال سے پھر اسے کم از کم دس گیارہ سال تک محفوظ کردیا جاتا ہے، اس میں پھر جو گیس، تلخی اور خوشبو پیدا ہوتی ہے اس کے ساتھ پینے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ بھئی سوپ کا مزا آجائے گا۔ انہوں نے چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کہا تھا۔ آج کی خبر کے بعد شیمپئن تو ملنی ہی چاہیے تھی۔ انہوں نے ایک گھونٹ اپنے منہ میں گھما کر پھر دھیرے سے حلق سے اتار کر کہا تھا۔

کچھ سال پہلے انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کوئی ایسی دوا ایجاد کرنا چاہ رہے ہیں جس سے انسانی جسم سے خارج ہونے والی گیس کی بدبو ختم ہوجائے۔ ان کا خیال تھا کہ ایسی دوا ضرور ایجاد کی جاسکتی ہے جس سے نہ صرف یہ کہ بدبوختم ہوجائے گی بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بدبو کے بجائے خوشبو کی آمیزش ہوجائے۔ آج کل کی نجی محفلوں، سماجی تقریبات سیاسی جلسوں، تعلیمی سیمینار، سمپوزیم، یہاں تک کہ مذہبی اجتماعات اور سرکاری اجلاسوں میں بدبودار گیس کے اخراج سے جو شرمندگی ہوتی ہے اس سے بچا جاسکتا ہے۔

پہلے تو مجھے ان کے اس کے خیال پر ہنسی آگئی تھی لیکن بعد میں ان سے بات کرکے اور اس بارے میں سوچ کر مجھے یہ خیال نہ صرف یہ کہ اچھا لگا بلکہ بہت عملی بھی لگا تھا۔

جسم سے گیس کا اخراج ایک عام معمول کا عمل ہے۔ ہاضمے کے دوران مختلف قسم کے کھانے کے اجزاء جب ہضم ہوتے ہیں تو غذائیت جسم میں جذب ہوجاتی ہے، اس ہاضمے اور جذب ہونے کے عمل میں گیس بنتی ہے۔ غذائیت نکلنے کے بعد بچے ہوئے کھانے کے اجزاء نظامِ ہاضمہ کے آخری حصے میں موجود مختلف قسم کے کروڑوں بیکٹیریا سے ملتے ہیں۔ بیکٹیریا سے ملنے کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور ہائیڈروجن بنتی ہے۔ مختلف گیسوں کا یہ ملغوبہ دباؤ بڑھنے کے بعد خودبخود خارج ہوتا ہے۔ گیس کے خارج ہونے کے اس عمل پر بعض لوگ قابو رکھتے ہیں اور بعض لوگ اختیاری اور بعض غیر اختیاری طورپر گیس خارج کردیتے ہیں۔

مجھے یاد ہے گیسوں کے بننے اور اخراج کے بارے میں ان سے گفتگو کے دوران میں نے پوچھا تھا کہ ہر انسان کو دوسرے انسان کی گیس بہت خراب لگتی ہے، جب کہ اس کی اپنی گیس اسے زیادہ بُری نہیں لگتی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟

تحریر کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے ”اگلا صفحہ“ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3