نواز شریف کو سزا کب سنائی گئی؟ خصوصی تجزیہ


اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو دس برس قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو بھی مختلف مدت کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے وکیل صفائی خواجہ حارث کے دلائل پر غور و فکر کے بعد چھ جولائی 2018ء کی سہ پہر سزا سنائی ہے۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔

نواز شریف کو یہ سزا تیسری بار سنائی گئی ہے۔ 30 اکتوبر 2016 کی شام جب عمران خان اسلام آباد میں لاک ڈاؤن کی کال دیے بیٹھے تھے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے عمران خان کو کھلی عدالت میں دعوت دی تھی کہ وہ یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں لے کر آئیں۔ قبل ازیں سپریم کورٹ پانامہ انکشافات کی بنیاد پر نواز شریف کے خلاف  درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے چکی تھی۔ یہ نواز شریف کے لئے سزا کا پہلا اعلان تھا۔

نو مہینے پر محیط سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے جب 28 جولائی 2017ء کی دوپہر میاں نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے کے لئے نااہل قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ ہی کے ایک عزت مآب جج کی نگرانی میں متعین مدت کی شرط کے ساتھ ان کے خلاف ریفرنس نیب عدالت میں بھیجنے کا فیصلہ دیا تو یہ نواز شریف کے لئے سزا کا دوسرا اعلان تھا۔ چھ جولائی 2018ء کو نواز شریف نے اپنی سزا تیسری بار سنی ہے۔

پاکستان کی سڑکوں اور گلیوں میں اس فیصلے کے خلاف کسی قابل ذکر ردعمل کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیاسی رہنما اور کارکن اپنی توانائیوں کو 25 جولائی کے لئے محفوظ رکھنا پسند کریں گے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے فیصلوں کی کوئی کمی نہیں۔ سیاسی عمل عدالت کے محترم جج صاحبان کے اشارہ ابرو پر نہیں چلتا۔ اس فیصلے کے قانونی حسن و قبح پر بات ہوتے رہے گی۔ اس فیصلے کی حقیقی اہمیت سیاست کے میدان میں سامنے آئے گی۔ انتخابات میں صرف اٹھارہ روز باقی ہیں۔ امیدواروں کا حتمی چناؤ ہو چکا۔ اب ٹکٹوں میں ردوبدل ممکن نہیں۔ جج محمد بشیر صاحب کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ نواز کے کسی امیدوار کا کشتی سے چھلانگ لگانا خودکشی کرنے کے مترادف ہو گا۔ اب یہ انتخاب نواز شریف کی جماعت اور دیگر تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے درمیان دوٹوک مقابلے کی شکل اختیار کر لے گا۔

میاں نواز شریف نے اپنی سیاست سے اپنے تمام سیاسی اور ریاستی مخالفین کی آئین سے وابستگی اور جمہوری شناخت پر سوال کھڑا کر دیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس سوال کا جواب صرف تین ہفتوں میں سامنے آ جائے گا۔

اپنی اہلیہ کی علالت کے باعث میاں نواز شریف نے لندن سے واپسی میں کچھ تاخیر کر دی ہے۔ اگرچہ یہ ان کے لئے حد درجہ حساس جذباتی معاملہ ہے اور کسی تیسرے فرد کو ان کی ذہنی اذیت کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ تاہم بہتر ہوتا کہ میاں صاحب وینٹی لیٹر پر موجود بیگم کلثوم کی علالت کے بارے میں تفصیلی مشاورت کے بعد پاکستان لوٹ آتے۔ اس ضمن میں کم از کم دو ہفتے کی تاخیر ہوئی ہے۔ مسلم لیگ کی انتخابی مہم پر اس کے منفی اثرات سے انکار ممکن نہیں۔ شہباز شریف یا حمزہ شہباز حلقہ جاتی سیاست کے کھلاڑی ہیں۔ ان کی فکری اور سیاسی قامت ایسی نہیں کہ قومی سیاست میں ان کا اثر و رسوخ فیصلہ کن ہو سکے۔

میاں نواز شریف کو مزید تاخیر کئے بغیر وطن واپس آنا چاہیے۔ متعلقہ عدالت میں فیصلے خلاف اپیل کرنی دائر کرنی چاہیے۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نواز شریف اور مریم نواز کی موجودگی سے انتخابی مہم کا رنگ ہی بدل جائے گا۔ قید کی اس آزمائش کو اس زاویے سے بھی دیکھنا چاہیے کہ اب نواز شریف کے بہت سے رفقا اپنے رہنما کے ہمراہ عدالتوں کے چکر لگانے کی بجائے انتخابی مہم پر توجہ دے سکیں گے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی سمیت پاکستان کی بہت سی سیاسی جماعتیں اس طرح کی آزمائشوں سے گزر چکی ہیں۔ جیل میں قید ہونے پر تو میانوالی کا کوثر نیازی بھی انتخاب نہیں ہارتا، نواز شریف تو ملک کی ایک مقبول جماعت کے متفقہ رہنما ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).