یہ لنگڑی‘ یک چشم‘ اونٹنیاں!!


عجیب عرب تھا۔ تینوں بیٹوں کا ایک ہی نام رکھا۔ حجر۔ مرتے وقت وصیت بھی عجیب و غریب کی کہ حجر کو وراثت ملے گی اور حجر کو وراثت نہیں ملے گی اور حجر کو وراثت ملے گی۔ یعنی تین میں سے ایک بیٹے کو عاق کر گیا۔ کیسے معلوم ہو کہ کون سے دو حجر ہیں جنہیں حصہ ملے گا اور کون سا حجر ہے جسے کچھ نہیں ملے گا۔

یہ معمہ حل کرانے وہ شہر کی طرف چل دیے تاکہ عدالت پہنچ کر قاضی کے حضور پیش ہوں اور فیصلہ کرائیں‘ راستے میں ایک جگہ ٹھہرے۔ وہاں ایک اعرابی اپنی گم شدہ اونٹنی تلاش کر رہا تھا۔ ایک حجر نے پوچھا کیا تمہاری اونٹنی ایک آنکھ سے بھینگی تھی۔اس نے جواب دیا ہاں! دوسرے حجر نے پوچھا کیا تمہاری اونٹنی ایک ٹانگ سے لنگڑی تھی۔ اس نے کہا ہاں لنگڑی بھی تھی۔ تیسرے حجر نے پوچھا کیا تمہاری اونٹنی کی دم کٹی ہوئی تھی۔ اس نے کہا بالکل درست کہہ رہے ہو۔

دم کٹی ہوئی تھی اب خدا کے لیے بتائو اونٹنی کہاں ہے؟ تینوں حجر نے بیک آواز کہا کہ ہمیں اونٹنی کے بارے میں کچھ پتہ نہیں! اعرابی کو یقین تھا کہ انہیں معلوم ہے اونٹنی کہاں ہے۔ ورنہ اس طرح ساری نشانیاں ٹھیک ٹھیک نہ بتاتے۔ ہو سکتا ہے ذبح کر کے کھا اڑا چکے ہوں۔ اس نے دھمکی دی! میں تمہیں عدالت لے جائوں گا۔ حجر بولے‘ ہم بھی عدالت ہی جا رہے ہیں۔ چلو ہمارے ساتھ‘ اکٹھے چلتے ہیں۔

چاروں قاضی کے حضور حاضر ہوئے۔ اونٹنی کے مالک کا بیان سُن کر قاضی نے تینوں حجر کو کہا کہ تم نے خود ہی ثبوت دے دیے کہ اونٹنی تمہارے پاس ہے یا تمہیں اس کا علم ہے۔ بہتر ہے اعتراف جرم کر لو۔ تینوں نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا حضور اونٹنی نہیں دیکھی۔ اونٹنی کے آثار دیکھے تھے۔ پہلے نے بتایا کہ راستے کے ایک طرف کی گھاس کھائی جا چکی تھی جبکہ دوسری طرف سالم کھڑی لہلہا رہی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ کانی تھی اور صرف ایک آنکھ سے دیکھ سکتی تھی۔

دوسرے نے بتایا کہ راستے پر تین قدم تو گہرے لگے ہوئے تھے جب کہ چوتھا قدم زور سے نہیں لگا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جانور لنگڑا تھا۔ تیسرے نے بتایا کہ اونٹ گوبر کرتے ہیں تو دم سے ادھر ادھر بکھیر دیتے ہیں مگر یہاں گوبر ایک سیدھی قطار کی صورت گرا تھا۔ مطلب واضح تھا کہ دم کٹی ہوئی تھی۔

قاضی نے اونٹنی کے مالک کو فیصلہ سنایا کہ ان تینوں کے پاس اونٹنی نہیں ہے نہ ہی انہیں معلوم ہے کہ کہاں ہے۔پھر ان تین بھائیوں نے قاضی کو اپنا مسئلہ بتایا اور فیصلہ کرنے کی استدعا کی۔ قاضی حیران ہوا۔ تینوں کو رات اپنے مہمان خانے میں ٹھہرایا کہ کل فیصلہ کروں گا۔

تینوں حجر مہمان خانے میں ٹھہر گئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ پھر کھانا لگایا گیا۔ گوشت اور روٹیاں! کھانا دیکھتے ہی پہلے حجر نے کہا کہ گوشت کتے کا ہے۔ دوسرے نے بتایا کہ روٹیاں پکانے والی عورت حاملہ ہے اور بچہ جنم دینے کے دن قریب ہیں۔ تیسرے نے کہا کہ قاضی حلال زادہ نہیں‘ حرام زادہ ہے! بات قاضی تک پہنچ گئی۔

صبح اس نے تینوں کو طلب کیا۔ پوچھا کس نے کہا تھا کہ سالن کتے کے گوشت کا ہے۔ پہلا بولا کہ میں نے کہا تھا باورچی کو بلا کر پوچھا گیا۔ اس نے اعتراف کیا کہ رات گئے پکانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ مجبوراً کتا مار کر پکا دیا۔ اب قاضی نے پہلے حجر سے پوچھا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ گوشت کتے کا تھا۔ اس نے بتایا کہ بکری یا اونٹ کے گوشت کے نیچے کہیں کہیں چربی لگی ہوتی ہے مگر یہ ساری چربی تھی اور کہیں کہیں چربی کے نیچے گوشت لگا تھا۔

قاضی نے فیصلہ سنایا کہ تم وہ حجر ہو جسے وراثت میں سے حصہ ملے گا۔ پھر پوچھا کس نے کہا تھا کہ روٹیاں حاملہ عورت نے پکائیں۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگا روٹیاں ایک طرف سے پھولی ہوئی اور خوب پکی ہوئی تھیں جب کہ دوسری طرف سے کچی۔ اس سے نتیجہ اخذ کیا کہ روٹیاں پکانے والی خاتون تکلیف کے مارے جُھک نہیں سکتی اور سامنے کی چیز دیکھنے سے بھی قاصرتھی۔ مطلب تھا حاملہ ہے۔قاضی نے کہا کہ تم وہ دوسرے حجر ہو جسے حصہ ملے گا۔

پھر تیسرے حجر سے پوچھا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں ناجائز اولاد ہوں۔ اس نے جواب دیا تم حلال کے ہوتے تو مہمانوں کی نگرانی نہ کرتے‘ نہ کتے کا گوشت کھلاتے اور نہ کسی بیمار‘ تکلیف زدہ عورت سے روٹیاں پکواتے۔ قاضی نے گھر جا کر ماں سے حقیقت حال پوچھی۔ ماں نے تصدیق کی۔ قاضی واپس آیا اور تیسرے سے کہا تم وراثت سے محروم رہو گے اس لیے کہ تم ناجائز اولاد ہو اور ایک ناجائز ہی دوسرے ناجائز کو پہچان پاتا ہے۔ تینوں حجر ماں کے پاس پہنچے اور سارا ماجرا سنایا۔

اس نے کہا تمہارا باپ ایک صبح مسجد نماز پڑھنے گیا تو مسجد کے دروازے کے باہر ایک نوزائدہ بچہ پڑا تھا اسے گھر لے آیا۔ حجر نام رکھا اور پرورش کی۔ عربی ادب سے اخذ کردہ یہ کہانی ہمارے ہاں بہت مشہور ہے۔ کئی بار پڑھی اور سنی گئی۔ بے شمار افراد اس سے آگاہ ہیں۔ آج یہاں یہ کہانی لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ اس میں وہ کانی‘ لنگڑی دم کٹی اونٹنی‘ جسے ڈھونڈا جا رہا تھاہمارے کام کی نکلی۔۔

دنیا میں بالعموم اور ہمارے ہاں بالخصوص مظلوم ترین اور سب سے زیادہ عبرت ناک مخلوق Beneficiaries کی ہے۔ یعنی فائدہ اٹھانے والے اور مفادات کی خاطر سچ کو لٹا کر اس کے گلے پر چُھری پھیرنے والے! پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے ہمارے ہاں طویل اقتدار کے مزے لوٹے ہیں اور باری باری بہت ترتیب سے لوٹے ہیں۔

جن لوگوں نے ان سے مفادات اٹھائے‘ سیاست دان ہیں یا بیورو کریٹ‘ وکیل ہیں یا تاجر‘ ادیب ہیں یا صحافی‘ کالم نگار ہیں یا شاعر‘ بیچاروں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ وہ اس مربی حکومت کے خلاف کچھ نہیں کہہ یا لکھ سکتے جس سے فوائد اٹھائے ہیں۔ زرداری صاحب اور میاں صاحبان نے کئی لوگوں کو نوازا‘ لطف و کرم کی بارشیں برسائیں۔ چنانچہ ان Beneficiaries کی آنکھ پر احسان کی پٹی بندھ گئی ہے۔ کل کو عمران خان کی حکومت آئی تو Beneficiaries کا ایک طبقہ اور وجود میں آ جائے گا جس کی نظریں صرف عمران خان کی خوبیوں پر پڑیں گی اور خامیاں دکھائی ہی نہیں دیں گی۔

خامیاں دکھائی بھی دیں تو کیسے؟ایک آنکھ میں تو نقص ہے۔ گھاس صرف راستے کے ایک طرف والی نظر آ رہی ہے۔ موٹر وے نظر آتی ہے مگر کروڑوں اربوں کا کمیشن نہیں دکھائی دیتا۔ میٹرو بس، اورنج ٹرین نظر آتی ہے مگر چھپن کمپنیاں نظر نہیں آتیں۔

صاف پانی پر اربوں خرچ ہوئے۔ ایک قطرہ پانی‘ ڈیلیور نہ ہوا۔ راستے کے دوسری طرف کھڑے‘ لہلہاتے سرسبز و شاداب احد چیمے اور فواد حسن فواد نہیں دکھائی دیتے۔ ہزاروں درخت کاٹ دیے گئے۔ لاہور عقوبت خانے میں تبدیل ہو چکا، سریے اور سیمنٹ کے انبار سے شہر کی صورت مسخ ہو گئی۔ ٹمپریچر بدل گیا مگر صرف میٹرو بس نظر آتی ہے۔ ان کانی‘ بھینگی اونٹنیوں کو جھنگ ‘بہاولپور ‘میانوالی‘اٹک ‘ چکوال اور کئی دوسرے پس ماندہ اضلاع نہیں دکھائی دیتے جہاں پنجاب سپیڈ کی ذرہ بھر جھلک دیکھنے کو نہیں ملتی۔

ان Beneficiariesنے آج تک ایک آنسو جمہوریت کی اس بربادی پر نہیں بہایا جو نواز شریف کے چار سالہ اقتدار میں عروج پر تھی۔ انہیں نہیں معلوم کہ میاں صاحب مہینوں نیشنل اسمبلی میں اور برس ہا برس سینٹ میں نہیں آئے۔ سات سات ماہ کابینہ کا اجلاس نہ ہوا، سارے فیصلے اندر خانے ہوتے تھے۔ جمہوریت کی لاش کا یہ مسلہ ان حضرات کو کبھی نہ دکھائی دیا۔

مہینوں وزیر اعظم لندن رہے۔ جو ان کا اصل گھر ہے اور مہینوں ان کی بیٹی عملاً حکمران رہی مگر ستم ظریفوں کے اس گروہ کو یہ لاقانونیت نہ دکھائی دی۔ انہیں معلوم ہی نہ ہوا کہ وزیر اعلیٰ کا بیٹا مغل شہزادہ بنا ہوا ہے۔ ممبر قومی اسمبلی کا تھا اور حکومت پنجاب پر کر رہا تھا۔

بے شرمی، ڈھٹائی، بے رحمی اور بے حسی کی آخری حد یہ ہے کہ جب پوچھا گیا کہ بورڈ آف ڈائریکٹر کے اجلاس میں صاحبزادے نے غیر قانونی شرکت کی اور فیصلوں پر اثر انداز ہوئے تو جواب ملا کہ شہزادہ سیاسی ورکر ہے اور عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے اس نے کمپنی کے افسروں کی رہنمائی کی!!اللہ اللہ سیاسی ورکر!! یا بددیانتی ! یا خیانت!یا پسر پروری! تیرا ہی آسرا! یہ ’’سیاسی ورکر‘‘ جب دوروں پر نکلتا تو پروٹوکول وائسرائے ہند کے پروٹوکول کو مات کر رہا ہوتا!

یہ لنگڑی اونٹنیاں اپنے ممدوحین کے خصائص بیان کرتے وقت زمین پر پائوں پوری قوت سے رکھتی ہیں مگر رذائل بیان کرتے وقت لنگڑا پیر زمین پر برائے نام پڑتا ہے! تاہم بات انصاف کی کرنی چاہیے انگریزوں کا محاورہ ہے کہ Give The Devil His Due یہ Beneficiaries ان مفاد پرستوں سے کئی گنا بہتر ہیں جو اقتدار بدلتے ہی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں۔

کہاں وہ دن کہ میاں صاحب کی حمایت میں اس قدر سرگرمی اور غیر منطقی کج بحثی کہ لوگوں نے پروگرام دیکھنے چھوڑ دیے۔ ایک معروف لکھاری تو تنگ آ کر ایسے ایک پروگرام ہی سے علیحدہ ہو گئے اور کہاں یہ دن کہ جمہوریت کے یہ خود ساختہ چمپئن ہوا کا رُخ بدلتا دیکھ کر باڑ کی دوسری طرف پھدک گئے ہیں چشم فلک نے ایسے مناظر پہلے بھی دیکھے ہیں۔

بیس بیس لاکھ ایک تقریر لکھنے کے وصول کرنے والے پانچ منٹ میں منڈیر پر جا بیٹھے تھے۔ ان مُردہ متعفن اونٹوں سے بہر طور یہ لنگڑی یک چشم اونٹنیاں بہتر ہیں کہ ع وفاداری بشرط استواری…

بشکریہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).