اپنے آپ سفیر، ضیاء اللہ ظہیر



فیس بک پر جہاں بہت سے لوگوں سے ایسا تعلق بنتا ہے جو محض نام کا تعلق ہوتا ہے وہاں کئی ” ہیرے لوگ ” بھی ملے جن سے دوستانہ تعلق استوار ہو گیا۔ ان میں پی ٹی وی اسلام آباد کے نیوز ایڈیٹوریل لے رمضان خالد یا ریڈیو پاکستان بہاولپور/ ملتان کے پروڈیوسر سجاد بری شامل ہیں۔ ان لوگوں سے ملاقاتیں البتہ پاکستان جانے پر پاکستان میں ہی ہوئیں۔ اسی طرح رؤف کلاسرا اور ندیم سعید کے ” ٹاپ سٹوری آن لائن” کی وساطت سے وسی بابا اور عدنان کاکڑ جیسے لگوں سے شناسائی ہوئی بعد میں ” ہم سب ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے ” نے تو بافہم لوگوں کی ایک پوری فہرست کو مجھ  سمیت ایک دوسرے سے متعارف کروا دیا۔
مگر ضیاءاللہ ظہیر سے دو سال پیشتر فیس بک پر ہی “فیس بک فرینڈ شپ” ہوئی تھی۔ کبھی کبھار ان کی پوسٹیں دیکھ لیتا تو معلوم ہوتا کہ پنجابی ایکٹیوسٹ ہیں اور انہیں اپنی بیشتر سرگرمیوں کی وڈیو بنا کر فیس بک پر ڈاؤن لوڈ کرنے کا شوق ہے۔ پھر انہوں نے لکھا کہ وہ روس میں ہو رہے فٹ بال ورلڈ کپ کے میچ  کے سلسلے میں ماسکو آ رہے ہیں، چنانچہ ماسکو کے موسم سے متعلق جاننا چاہ رہے ہیں۔
    ان کے ماسکو پہنچ جانے کی اطلاع فیس بک میں لگی ان کی تصویروں اور وڈیوز سے ملی۔ وہ ” سانون پنجابی ہون تے مان ہے”  گورمکھی اور شاہ مکھی دونوں میں لکھا ایک بینر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو پکڑاتے، تصویریں کھنچواتے اور وڈیو میں ان سے “پاکستان زندہ باد ” کا نعرہ لگواتے۔ میں نے اس بارے میں ان سےملاقات سے پہلے ایک مضمون میں لکھا بھی کہ روسی بہت زیادہ قوم پرست ہونے کے باوجود قوم پرست کہلانے سے متنفر ہیں چنانچہ قوم یا قومیت پرستی سے متعلق کوئی بھی سرگرمی یہاں کی ایجنسی کی نگاہ میں جلد آ جاتی ہے۔
  ایک روز ضیاءاللہ نے مجھے فون کیا اور کہا کہ وہ میرے لیے کچھ لے کر آیا ہے جو مجھے دینا چاہتا ہے۔ اس روز میں انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آئے۔ میں چونکہ خود پاس نبھانے کا قائل ہوں مجھے اچھا نہیں لگا مگر برا نہیں منایا کہ وہ مسافرت میں ہیں کوئی بھی مجبوری ہو سکتی ہے۔ اگلے روز وہ آئے اور سوہن حلوے کے دو ڈبے مجھے دیے۔ ساتھ ہی بتایا کہ وہ کل بیلا روس کے دارالحکومت شہر منسک جا رہے ہیں جہاں سے سینٹ پیٹرزبرگ جائیں گے۔ چار روز بعد واپسی ہوگی پھر وہ تین روز ماسکو میں رہنے کے بعد تاشقند جائیں گے جہاں ایک روز قیام کے بعد تاجکستان میں خجند جائیں گے اور پھر تاشقند لوٹ کر پاکستان چلے جائیں گے۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ ماسکو لوٹیں تو میرے ساتھ قیام کریں۔
  ضیاء اللہ ظہیر نہ صرف وڈیو بناتے بلکہ پنجابی زبان میں رواں رپورٹنگ بھی کرتے۔ مجھے جس بات نے حیران کیا کہ وہ پہلی بار روس آئے اور بغیر کسی مترجم یا رہبر کے انہوں نے اپنے طور پر زیر زمین ریلوے کا سفر، شہر میں گھومنا پھرنا، ریل گاڑی کے دوسرے شہروں کے ٹکٹ لینا، اپنے طور پر دوسرے شہروں میں جانا، قیام کا انتطام کرنا اور مناسب کھانا تلاش کرکے کھانے پر عمل کیا۔ وہ یہ سب کام اپنے ٹیلیفون پر انٹرنیٹ اور گوگل ٹرانسلیشن سے مدد لے کر کرتے رہے۔
انہوں نے انگریزی، عربی اور بنگالی میں باہر سے آئے لوگوں اور روس میں رہنے والوں کو پاکستان سے متعارف کروایا۔ سب ملنے والوں پر پاکستانیوں کا ایک اچھا تاثر چھوڑا اور جن کی بھی وڈیو بنائی ان سب سے چاہے وہ روسی تھا یا غیر ملکی ” پاکستان، زندہ باد” کا نعرہ ضرور لگوایا۔ بعض نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے تو ان کے اخلاق اور دوستانہ انداز سے متاثر ہو کر اپنے طور پر ” مجھے پاکستان سے پیار ہے” بھی اپنی زبان میں کہا۔
 ضیاءاللہ ظہیر صرف 39 برس کے ہیں۔ تین پیارے بچوں کے باپ ہیں اور مرکزی پنجاب کے قصبے منڈی ڈھاپاں سنگھ کے رہائشی ہیں۔ گورمکھی اور ہندی پڑھنا لکھنا جانتے ہیں۔ والد صاحب کا قدیم پنسار خانہ چلاتے ہیں۔ انہوں نے مختصرا” اپنی کہانی یوں بیان کی،” میرے والد کے پہلی بیوی سے چار بچے تھے جو کوئی حیات نہ رہ پایا تو میرے والد نے ساٹھ برس کی عمر میں پہلی بیوی کی رضامندی سے اولاد کی خاطر دوسرا بیاہ میری والدہ سے کیا۔ ہم چھ بھائی اور دو بہنیں اس دنیا میں آئے۔ میں 17 برس کا ہوا تو والد راہی ملک عدم ہو گئے۔ مجھے سبھی ذمہ داریاں نبھانی تھیں۔ میں نے میٹرک کے بعد گرافک ڈیزائننگ کا کورس کیا اور سعودی عرب سدھار گیا۔ پاکستان میں سیکھی گرافک ڈیزائننگ معیاری نہیں تھی اس لیے میں نے بغیر تنخواہ دو ماہ کام کر کے بہتر جاننے والوں سے اسے مزید سیکھا اور مجھے سویڈن کی ہوم اپلائنسز چین IKEA میں گرافک ڈیزائنر کی جاب مل گئی۔ سات سال وہاں رہا۔ دو بھائیوں کو اعلٰی تعلیم دلائی جن میں سے سی اے کرنے والا آئرلینڈ میں اور ماس کمیونیکیشن کرنے والا انگلینڈ میں ہے۔ سعودی عرب میں رہنے کے دوران فون پر ملازمین سے رابطہ رکھ کر والد مرحوم کا پنسار خانہ بھی چلاتا رہا۔ لوٹا تو ایک بہن کا بیاہ کرنے کے بعد خود رشتہ ازدواج میں بندھ گیا۔ میں میٹرک تھا اور اہلیہ ایم اے۔ ایک روز اس نے ویسے ہی ہنستے ہنستے زیادہ پڑھے ہونے کا فخر کیا جو مجھے طعنہ لگا۔ میں نے پرائیویٹ ایف اے کیا، پرائیویٹ بی اے کیا، پرائیویٹ ایم اے پنجابی کیا اور خاتون خانہ کو ڈگری دکھا کر کہا کہ اب نہ کہنا میں کم پڑھا لکھا ہوں۔ اللہ کے کرم سے میں دو بھائیوں کے ساتھ مل کر دو پنسار خانے چلاتا ہوں جو ایک طرح سے منی سپر سٹور بھی ہیں۔ ایک بھائی جو پڑھنے میں طاق نہیں تھا کو علیحدہ دکان کھول دی ہے”۔
    ضیاءاللہ ظہیر کی اولوالعزمی اور ہمت کی داستان متاثر کن ہے۔ فٹ بال کا کھیل اچھا لگتا ہے مگر اتنا بھی نہیں۔ انہون نے جس میچ کی ٹکٹ لی دوسرے شہر میں جا کر وہ میچ نہیں دیکھا وہ تو یہ جاننے آئے تھے کہ روس اور روسی کیسے ہیں اور پاکستان کے سافٹ امیج کا پرچار کرنے بھی۔ ان کو بہت اچھا لگا کہ روس کے کسٹمز اور امیگریشن نے ان کے پاکستانی ہونے پر کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا بلکہ پندرہ بیس منٹ میں ہی “ویلکم ٹو رشیا” کہہ کر چالیس روز کا ویزا جاری کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ روسی بہت خوش خلق اور دوستانہ رویوں کے حامل لوگ ہیں۔ روسیوں کے بارے میں دوسرے ملک میں نہ صرف غلط بلکہ جھوٹا تصور پیش کیا جاتا ہے۔
ضیاء اللہ ظہیر اور میں دونوں بڑی سکرین پر روس کا سپین کے ساتھ میچ دیکھنے گئے۔ میں تو خیر روسی شہری ہوں ہی مگر ظہیر نے بھی “رسیا، پیریود” یعنی روس آگے بڑھو اور ” رسیا، چیمپیون” کے علاوہ ” یا لبلیو رسیا” یعنی مجھے روس سے پیار ہے کے نعرے دل کھول کر لگائے۔ روس کو کوارٹر فائنل میں پہنچا کر ضیاء اللہ ظہیر تاشقند چلے گئے جہاں انہوں نے تاشقندی امام سے دوستی گانٹھی اور وہاں سے وہ خجند رکنے کی بجائے ہماری تجویز پر دوشنبے پہنچے جہاں ہم نے ان کو ایک مقامی گھر میں مہمان کرنے کا بندوبست کیا تھا۔ مہمان اور میزبان دونوں ہی ایک دوسرے کی زبان جانے بنا نہ صرف باتیں کرتے رہے بلکہ خوش ہوئے۔
   پاکستان کو ایسے ہی باہمت، اولوالعزم، انسان دوست اور محب وطن افراد کی ضرورت ہے جو دوسرے ملکوں میں جا کر اپنا اور اپنی قوم کا اچھا تاثر دیں اور
دوسرے ملکوں کے لوگوں کے بارے میں ایک درست اور منصفانہ تصویر بھی پیش کر سکیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).