دو ٹکڑے ہوتا پاکستان اور یحییٰ خان کی سیاسی انجینرنگ


1970کے الیکشن سے پہلے میجر جنرل غلام عمر کی سربراہی میں نیشنل سکیورٹی سیل بنا جس نے صدر یحییٰ خان کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس کی بنیاد پر تجزیہ کرکے سیاسی صورت حال کا جائزہ پیش کرنا تھا۔ اس سیل نے اپنے ذمے کام مکمل کر کے صدر کو جو رپورٹ پیش کی اس میں بتایا گیا کہ 33 چھوٹی بڑی پارٹیوں میں ووٹ اس طرح تقسیم ہوں گے کہ کوئی ایک پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ سیل نے مسلم لیگ (قیوم) کو خفیہ طور پر پیسے دینے کی سفارش کی تا کہ وہ دوسری جماعتوں سے آگے بڑھ جائے اور یحییٰ خان کی سرپرستی میں مخلوط حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو۔ اس نیک مقصد کے لیے مغربی پاکستان سے خان عبدالقیوم خان اور مشرقی پاکستان سے صبور خان اور مولانا بھاشانی کو پیسے دینے کا فیصلہ ہوا۔

انتخابی مہم جوں جوں آگے بڑھی اسٹیبلشمنٹ کی چالیں الٹی پڑنے لگیں، لیکن یحییٰ خانی ٹولے کو اپنی سکیم کی کامیابی پریقین تھا۔ الیکشن کے روز یحییٰ خان ایوان صدر سے ووٹ ڈالنے کے لیے گاڑی میں بیٹھے تو ڈرائیور اعجاز اور اے ڈی سی ارشد سمیع خان سے کہا کہ ہم کو مسلم لیگ کے انتخابی نشان سائیکل پر مہر لگانی ہے۔

Sami ,Ejaz, remember we have to vote for cycle, the symbol cycle. We must make it win, it must win ,it must win!

ارشد سمیع کے بقول، یحییٰ خان کا یہ خاص سٹائل تھا کہ جس بات پر زور دینا ہوتا اسے بار بار دہراتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ عام طور پر کڑے وقت میں پرسکون رہنے والے صدر اس دن بے چین اور مضطرب تھے۔ ٹی وی پر الیکشن کے نتائج بتانے کا سلسلہ شروع ہوا تو مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے جیتنے کی خبریں آنے لگیں، ادھر مغربی پاکستان سے بھی پیپلز پارٹی کی پوزیشن مضبوط تھی۔ رات تین بجے تک صورت حال خاصی واضح ہوگئی تو صدر نے اے ڈی سی سے جنرل غلام عمر سے فون پر بات کرانے کو کہا ۔ وہ لائن پر آئے تو یحییٰ خان ان پر برسے اور پوچھا وہ تمھارے اندازے کیا ہوئے؟ خان عبدالقیوم خان ، صبور خان اور بھاشانی کو جو پیسے دیے گئے، ان کا کیا بنا؟ اور یہ بھی کہا کہ تم نے سب کچھ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ الیکشن کے نتائج یحییٰ خان کے لیے پریشان کن ضرور تھے لیکن دھن کے پکے اس ڈکٹیٹر نے ہمت نہیں ہاری۔ ان کے لیے اصل مسئلہ شیخ مجیب الرحمٰن تھے ۔مغربی پاکستان میں اکثریت لینے والی پیپلز پارٹی ان سے تعاون پر آمادہ تھی ۔فوجی حکومت کو عوامی لیگ کا مینڈیٹ چرانے کا اچھوتا خیال سوجھا جس میں ان کا ساتھ دینے کے لیے دائیں بازو کی جماعتیں (مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور دیگر چند جماعتیں) اور پیپلز پارٹی تیار ہوگئی۔

یحییٰ خان نے 28 جون 1971 کو قوم سے خطاب میں فرمایا کہ منتخب ارکان میں سے شرپسندوں اور وطن دشمنوں کی چھانٹی ہوگی اور خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوگا ۔ یہ سارا بندوبست مشرقی پاکستان کے لیے تھا کیونکہ’’ شرپسند‘‘ سارے ادھر ہی تھے۔ ان ’’ تاریخی ضمنی انتخابات ‘‘کے لیے باقاعدہ شیڈول کا اعلان ہوگیا۔ قومی اسمبلی کی 78 نشستوں کے لیے ضمنی الیکشن ہونا طے پایا،جس سے عوامی لیگ کے اراکین کی تعداد 160 سے کم ہوکر 82 رہ گئی۔ اسی طرح دو مرحلوں میں مشرقی پاکستان صوبائی اسمبلی کا ضمنی الیکشن ہونا تھا۔ عوامی لیگ کے پاس تین سو کے ایوان میں 288 نشتیں تھیں، ان میں سے 192 نااہلوں کی نشستوں پر ضمنی الیکشن ہونا طے پایا۔

دائیں بازو کی جماعتیں اس تاریخی موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں اور منظر نامہ یہ بن رہا تھا کہ فوجی حکومت کی عنایت سے یہ جماعتیں جنھیں آگے چل کر ایک اتحاد یونائٹیڈ کولیشن پارٹی میں ڈھلنا تھا اس کی نشستیں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی سے بڑھ رہی تھیں ، یہ چیز بھٹو کے لیے پریشانی کا باعث تھی اس لیے ان کے لہجے میں تلخی آتی جارہی تھی، جسے محسوس کرکے ضمنی انتخابات کے منتظم اعلیٰ میجر جنرل راؤ فرمان علی سے کہا گیا کہ پیپلز پارٹی کے لیے چوبیس نشستوں کا انتظام کیا جائے تا کہ قومی اسمبلی میں وہ اکثریت حاصل کرسکے لیکن یہ ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ ایک تو پیپلز پارٹی کے پاس امیدوار نہیں تھے، دوسرے ڈھاکہ میں الیکشن کے منتظمین کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ نہیں تھا اور تیسرے دیگر جماعتیں پیپلز پارٹی کو کیک کا چھوٹا سا ٹکڑا دینے پر بھی آمادہ نہ تھی۔ اس پر یحییٰ خان نے ایک دفعہ پھر راؤ فرمان علی سے پیپلز پارٹی کے لیے کچھ کرنے کو کہا تو اسے چند نشستیں دینے کا فیصلہ ہوا اور نور الامین کی مخالفت کے باوجود پیپلز پارٹی کے پانچ امیدواروں کو بلا مقابلہ منتخب کرایا گیا۔

راؤ فرمان علی اس ڈھونگ کو پولنگ کے ذریعے رچانا چاہتے تھے لیکن میجر جنرل رحیم نے اس کا تکلف اٹھا دینے کی سفارش کی اور ووٹنگ کے لیے عملہ فراہم کرنے سے انکار کردیا، یوں بھی حالات جو رخ اختیار کرچکے تھے، ان میں پولنگ ممکن بھی نہ تھی، اس لیے اب یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ حکومتی پٹھوؤں کے مخالف امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے یا پھر ان پر دباؤ ڈال کر دست بردار کرایا گیا۔ اس کے باوجود 30 نشستیں ایسی رہ گئی تھیں جہاں حکومتی ہتھکنڈے کامیاب نہ ہوسکے ، اس کے لیے کاغذات نامزدگی واپس لینے کی تاریخ آگے ہوئی تاکہ نافرمان امیدواروں کو راؤ فرمان راہ راست پر لاسکیں اور سب بلامقابلہ منتخب ہوسکیں۔ یہ فارمولا کامیاب رہا اور حکومت کی پٹھو جماعتوں کی نشستیں 37 سے 116 ہوگئیں اور نورالامین وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد ہوگئے۔ اندھے کو بھی نظر آتا تھا کہ اس مشق نے بے سود ہی رہنا ہے لیکن حیرت ہے کہ ملک ٹوٹ رہا تھا اور یحییٰ خانی ٹولا اس وقت بھی دھاندلی سے سیاسی انجینرنگ میں مصروف تھا، جس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور جماعت اسلامی ان کا ساتھ دینے میں پیش پیش تھیں۔ محمود علی قصوری جیسے ستھرے سیاستدان ضمنی الیکشن کی بندر بانٹ میں حصہ وصول کرنے مشرقی پاکستان کے شہروں کا دورہ کر رہے تھے ۔ ان کے ساتھ سعید حسن اور خورشید حسن میر بھی تھے۔ یہ وہ حضرات ہیں جنھیں پارٹی کا نمک کہا جاسکتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے وفد سے نامور صحافی اور براڈ کاسٹر علی احمد خاں سے ملاقات ہوئی جس کا احوال انھوں نے ’’ جیون ایک کہانی ‘‘میں کچھ یوں لکھا ہے:

’’ ۔۔۔ پھر ایک دن نوشاد نوری مرحوم نے اطلاع دی کہ میاں محمود علی قصوری اور سید سعید حسن آئے ہوئے ہیں، انٹرکانٹی نینٹل میں ہیں اور ملنا چاہتے ہیں۔

سید سعید حسن سے میری کراچی یونیورسٹی کے زمانے کی دوستی تھی۔ وہ یونیورسٹی کے سینئر طلبا میں شمار ہوتے تھے اور میں انہیں سعید بھائی کہتا تھا۔ میاں صاحب سے نیپ کے زمانے کی واقفیت تھی۔ سید سعید حسن نے مجھ سے کہا کہ میں دیناج پور کی نشست کے لیے کاغذات نامزدگی پُر کردوں۔ میں نے صاف انکار کر دیا، تو انہوں نے زچ ہو کر انگریزی کی کہاوت سنائی، ’’گھوڑے کو آپ کھینچ کر تالاب پر تو لا سکتے ہیں، لیکن اس کو پانی پینے پر مجبور نہیں کر سکتے۔‘‘

پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ ایسے لوگوں کے نام بتاؤ، جن کو اس پر آمادہ کیا جا سکے۔ میں نے اپنے بہنوئی کے بڑے بھائی کا نام بتا دیا، جو ایوب خان کے زمانے میں پاربتی پور سے کنونشن مسلم لیگ کے ٹکٹ پر مشرقی پاکستان کے رکن رہ چکے تھے۔

ایک دن معلوم ہوا کہ خورشید حسن میر آئے ہوئے ہیں اور پیپلز پارٹی کے دفتر میں، جو انٹرکانٹی نینٹل کے قریب ریٹائرڈ کیپٹن خورشید باجوہ کے بنگلے میں واقع تھا، اخباری کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ میں وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی کے کچھ امیدوار بھی موجود تھے۔ ان میں ہمارے وہ رشتہ دار بھی تھے، جن کا ذکر میں نے سید سعید حسن سے کیا تھا۔

خورشید حسن میر سے پریس کانفرنس کے بعد اِدھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں۔ میں نے کہا کہ ملک کے حالات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں اور آپ لوگ انتخابات کی تیاریاں کر رہے ہیں، تو انہوں نے میرا مذاق اڑانے کے انداز میں کہا، ’’میں تو آج نرائن گنج (ڈھاکہ کے مضافات میں ایک صنعتی علاقہ) سے ہو کر آرہا ہوں، مجھے تو کوئی گڑبڑ محسوس نہیں ہوئی۔‘‘ میں چپ ہو گیا لیکن اس بات کا دکھ ضرور ہوا کہ ان جیسے لوگ بھی صورتحال کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ ان جیسے لوگوں سے امید تھی کہ وہ پیپلز پارٹی کو صحیح راستے پر رکھیں گے اور یہ بھی اسی ارادے سے پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔

میں چپ چاپ پریس کانفرنس سے واپس آ گیا۔ اتفاق سے اسی روز پیپلز پارٹی کے دفتر میں ایک زوردار دھماکا ہوا اور اس کی عمارت کو خاصا نقصان پہنچا۔ میں خورشید حسن میر سے یہ پوچھنے نہیں گیا کہ کیا اب بھی ان کے خیال میں حالات پر سکون تھے۔‘

7 جولائی، 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).