عمران خان کو اصل خطرہ کس سے ہے؟


اسلام آباد اس وقت سیاسی عدم استحکام اور قیاس آرائیوں کا مرکز بنا ہؤا ہے۔ قومی اسمبلی سے لے کر نجی مباحث تک یہ سوال سر فہرست ہے کیا تحریک انصاف کی حکومت کا وقت پورا ہوگیا ہے۔ اگرچہ اصولی طور پر قومی اسمبلی ہی کو فیصلہ کرنا ہے کہ کسے قائد ایوان منتخب کیا جائے اور ملک پر حکومت کرنے کا حق دیا جائے لیکن عوام کی نمائندگی کے نام پر اسمبلی تک پہنچنے والے بہت سے ارکان کہیں اور سے اشاروں کے منتظر رہتے ہیں۔

اشارہ بازی کے ان ہتھکنڈوں نے گزشتہ سات دہائیوں سے ملکی سیاست کو یرغمال بنایا ہؤا ہے۔ اس طرز عمل کے براہ راست دو نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ جمہوری ادارے کمزور ہوئے ہیں اور سیاست دانوں کو عام طور سے عوامی مفاد کے برعکس کام کرنے والا گروہ مانا جانے لگا ہے۔ دوسرے سیاسی معاملات پر عسکری اداروں کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ ملک میں کمزور سیاسی حکومتوں کی موجودگی اور پارلیمنٹ میں حقیقی مسائل پر غور کرتے ہوئے فیصلے کرنے کی بجائے غیر ضروری امور پر مباحث اور ذاتی حملوں کے نتیجہ میں اس فورم کا وقار اور کردار مجروح ہؤا ہے۔ کوئی سیاست دان یہ سوچنے پر تیار نہیں ہے کہ باہمی چپقلش اور تصادم سے ملک میں جمہوریت کو کیسے پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اس عذر پر اسمبلی آنے سے گریز کرتے ہیں کہ اپوزیشن نامناسب الفاظ استعمال کرتی ہے لیکن انہوں نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ وہ اپنے وزیروں اور نمائیدوں کو شائستگی سے گفتگو کرنے کی ہدایت دیں۔ تاکہ جس رویہ سے انہیں شکایت اور جسے وہ پارلیمانی روایت کے خلاف سمجھتے ہیں ، اسے تبدیل کرنے میں ان کے ساتھی اور وہ خود مثبت کردار ادا کرسکیں۔ لیکن الزام تراشی میں عمران خان خود قائد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی انہوں نے کبھی اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ وہ کسی ثبوت اور دلیل کے بغیر کوئی بات نہ کہیں۔ حتیٰ کی قومی اسمبلی کے فلور سے بھی ایسے ارشادات ارزاں کئے جاتے ہیں جو کسی قانونی فورم پر ثابت نہیں کئے جاسکتے۔ تحریک انصاف نے درحقیقت دشنام طرازی کی سیاست کو ایک نیا رخ عطا کیا گیا ہے جس میں کسی دلیل کے بغیر ذاتی حملے کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ اس طرح اس مفروضے کو درست ثابت کیا جارہا ہے کہ جھوٹ اس تواتر سے بولا جائے کہ وہ سچ لگنے لگے۔

سیاسی سرگرمی اور الزام تراشی کے اس ماحول میں دو واقعات رونما ہوئے ہیں جنہیں پاکستانی سیاست کے تناظر میں نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے:

1)دو روز قبل ایک نجی مدرسہ کی ملکیت کے دعوے کو بنیاد بنا کر لال مسجد فیم مولانا عبدالعزیز نے اپنی اہلیہ اور حامی طالب علموں کے ہمراہ اسلام آباد کے سیکٹر ای ۔7 میں واقع جامعہ الفریدیہ پر دھاوا بولا اور اس کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا۔ اس مدرسے کے مہتمم مولانا عبدالغفار بھی مدرسے کے اندر ہی ایک حصے کے اندر مورچہ بند ہیں ۔ دونوں مولویوں نے اپنے سینکڑوں حامیوں کو جمع کیا ہؤا ہے۔ مولانا عبدالعزیز اس مدرسہ کو اپنے باپ کی ملکیت بتا کر مولانا عبدلغفار کو معزول کرچکے ہیں اور اب مدرسے پر خود قابض ہونا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف مولانا عبدالغفار ، مولانا عبدالعزیز کے ’حق ملکیت‘ کو مسترد کرتے ہیں اور اس جامعہ پر اپنا انتظام و اختیار بحال رکھنا چاہتے ہیں۔

تصادم کے خطرہ کو بھانپتے ہوئے اسلام آباد پولیس نے جامعہ فریدیہ کے گرد پہرہ سخت کردیا ہے اور معززین کے ذریعے مولانا عبدالعزیز سے مذاکرات شروع کئے گئے ہیں۔ اسی قسم کی منت سماجت کے ذریعے مولانا کو چند ماہ پہلے لال مسجد میں خطبے دینے اور نما ز پڑھوانے سے روکنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پولیس نے میدان جنگ بنے ہوئے مدرسہ میں اسلحہ کی موجودگی کی اطلاع بھی دی ہے جس میں سب مشین گنز بھی شامل ہیں۔ اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کا البتہ یہ کہنا ہے کہ ’یہ دراصل ایک نجی تنازعہ ہے جو نہ تو سرکاری زمین پر وقوع پذیر ہورہا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی سرکاری مسجد متنازعہ ہے۔ ہماری واحد تشویش امن و امان بحال رکھنا ہے تاکہ امن و امان کو خطرہ لاحق نہ ہو‘۔ پولیس نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے تین کام کئے ہیں۔ اعلیٰ حکام کو مطلع کیا ہے، علاقے میں پہرہ سخت کیا ہے اور شہر کے دیگر مدرسوں کی نگرانی شروع کی ہے تاکہ وہاں سے مزید طالب علم اس مدرسہ پر قبضہ کے تنازعہ میں ملوث دو افراد کی حمایت کے لئے وہاں نہ پہنچ پائیں۔

اس صورت حال سے پولیس کے علاوہ ’اعلیٰ حکام‘ کی بے بسی واضح ہوتی ہے۔ لال مسجد میں 2007 میں ہونے والے تصادم میں درجنوں افراد جان سے گئے تھے اور فوج کو کئی روز کے ایکشن کے بعد لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں جمع ہونے والے دہشت گردوں سے نجات حاصل کرنا پڑی تھی۔ اس تنازعہ کے ماسٹر مائینڈ مولانا عبدالعزیز تھے۔ ملک کے دارالحکومت میں انتہائی خطرناک اور افسوسناک فساد کھڑاکرنے کے ذمہ دار اس شخص کو کوئی عدالت جیل میں بند نہیں رکھ سکی اور وہ بدستور دارالحکومت کے امن و امان کے لئے خطرہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ البتہ اس حوالے سے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ جب کسی بھی وجہ سے ملکی سیاست میں بحران اور بے یقینی کی کیفیت موجود ہوتی ہے، عین اسی وقت مولانا عبدالعزیز جیسے کردار خفیہ ایجنڈے کی تکمیل کے لئے بے یقینی کو سنگین بنانے کے مشن پر گامزن ہوتے ہیں۔ مدرسوں و مدارس کے نگرانوں کی خود سری اور ان مقدس اداروں کو اسلحہ جمع کرنے اور فساد کا مرکز بنانے کی وجوہ و علل پر بحث اس سے علیحدہ موضوع ہے۔ جو اپنے طور پر غور و فکر کا تقاضہ کرتا ہے۔

2)اس دوران پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے این ڈی ایم اے کے چیئرمین لیفٹینٹ جنرل محمد افضل کا انڈیپنڈنٹ اردو کو ایک انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے سول حکام کے غیر تربیت یافتہ ہونے کے علاوہ اٹھارویں ترمیم سے حائل ہونے والی مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ انٹرویو میں کورونا کے خلاف لڑائی میں پاکستان آرمی کے کردار پر بات کرتے ہوئے جنرل محمد افضل کا کہنا تھا کہ ’میں یہاں یونیفارم پہن کر بیٹھا ہوں اور ایک سویلین ادارے کا سربراہ ہوں جس میں 40 فیصد مین پاور فوجی ہے اور میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ فوجی مین پاور کا فائدہ یہ ہے کہ بہت سارے ایسے کام ہیں جن کے لیے ہمارے سویلین بھائی ٹرینڈ نہیں ہوتے‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کورونا کے حوالے سے پاکستانی فوج نے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ لیکن 18ویں ترمیم کی وجہ سے ہمیں ڈیٹا کوآرڈینیشن اور بات چیت کے حوالے سے بہت مسائل آئے۔یہ پاکستان آرمی ہی تھی جس نے صوبوں کو بھی ساتھ لیا۔یہاں پر بھی ایک سینٹر بنایا اور صوبوں میں بھی سینٹر بنائے۔ شروع میں تکلیفیں بھی بہت ہوئیں۔ ہم ان کو درخواستیں کر کر کے کام کرتے تھے لیکن اب ٹیم بن گئی ہے اور ڈیٹا کے مسائل ختم ہو گئے ہیں‘۔

اس گفتگو میں ہمہ قسم معاملات میں فوج کی بالادستی کو ضرورت قرار دینے کا اصول وضع کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بوجوہ سول حکام جن میں سیاست دان سر فہرست ہیں ، امور مملکت چلانے میں ناکام ہیں۔ حاضر سروس جنرل کی طرف سے ایک آئینی ترمیم کے بارے میں یوں کھل کر اظہار خیال بھی یہ واضح کرتا ہے کہ فوج صوبائی خود مختاری اور وسائل کی تقسیم جیسے معاملات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ایک جنرل کا یہ مؤقف ملک میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے خلاف رائے استوار کرنے کی سوچی سمجھی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس انٹرویو کا سب سے خطرناک پیغام یہ ہے کہ فوجی مدد کے بغیر حکومت جزو معطل ہے کیوں کہ اس کے پاس تربیت یافتہ سویلین لوگ موجود نہیں ہیں۔

اس وقت ملکی سیاست میں مائنس ون کی بحث شدت سے کی جارہی ہے۔ کالم نگار اور تجزیہ نگار عمران خان کے متبادل کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتے ہوئے دور کی کوڑیا ں لانے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں یہ دیکھنا اور سمجھنا اہم ہوگا کہ مولانا عبدالعزیز نے اسلام آباد کے ایک مدرسے میں جو محاذ آرائی شروع کی ہے، وہ محض ایک ادارے پر قبضہ کے لئے دو افراد کا جھگڑا ہے یا اس کے وسیع تر عواقب بھی ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح جب ایک حاضر سروس جنرل آئینی انتظام پر سوال اٹھاتا ہے اور سول انتظامیہ کو غیرفعال قرار دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے فوج کو معاملات ہاتھ میں لینے پڑتے ہیں تو اس بیان کی حکمت پر غور ضروری ہوجاتا ہے۔ ملکی سیاسی قیادت کی تابع فرمان فوج کے نمائیندے کس اختیار کے تحت ایسے بیان جاری کرتے ہیں اور اس سے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

عمران خان اپوزیشن میں دشمن تلاش کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں ۔ مخالف لیڈروں کیفر کردار تک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی صفوں پر بھی نگاہ ڈال لیں ۔ کہیں کچھ تیر انداز دوستوں کا بھیس بدلے انہیں کو نشانے پر نہ لئے ہوئے ہوں۔ تیر کھا کر پچھتانے سے بہتر ہے کہ وقت سے پہلے ان کی نشاندہی کرلی جائے۔ اس کے باوجود عمران خان کا اقتدار تو شاید نہ بچ سکے لیکن وہ دوستوں کو اچانک دشمنوں کے بھیس میں دیکھنے کے صدمے سے محفوظ رہ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments