مرید عباس قتل کیس: ایک سال بعد بھی فرد جرم عائد نہیں ہو سکی، بیوہ کا ملزمان سے سمجھوتہ کرنے سے انکار


پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک سال قبل قتل ہونے والے ٹی وی اینکر مرید عباس کے مقدمے میں ملوث ملزمان پر تاحال فردِ جرم عائد نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے مقدمے کا باقاعدہ آغاز نہیں ہو سکا ہے۔

وکلا کا دعویٰ ہے کہ سمجھوتے پر مجبور کرنے کے لیے تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں جبکہ مرید عباس کی اہلیہ زارا عباس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے خون کا سودا نہیں کریں گی۔

بول ٹی وی سے منسلک اینکر پرسن مرید عباس اور ان کے دوست خضر حیات کو گذشتہ سال نو جولائی کی شب قتل کیا گیا تھا۔ پولیس نے اس الزام میں دونوں مقتولین کے دوست عاطف زمان اور اس کے بھائی عادل زمان کو گرفتار کیا تھا۔

فرد جرم عائد نہیں ہو سکی

مرید عباس اور ان کے دوست خضر حیات کے قتل کو ایک سال مکمل ہونے پر بھی مقدمہ سماعت کا منتظر ہے۔

قانون کے مطابق پولیس ملزمان کو فرد جرم پڑھ کر سنائے گی جس کے بعد ملزم صحت جرم قبول یا مسترد کریں گے اور اس کے بعد مقدمے کا باقاعدہ آغاز ہو گا۔

اس دوہرے قتل میں کے ایک ملزم عادل زمان ضمانت پر رہائی حاصل کر چکے ہیں۔

ملزم عاطف زمان نے خودکشی کی کوشش کی تھی، جس کے بعد وہ پہلے زیر علاج رہے اور اس کے بعد کبھی ملزم اور کبھی وکلا کی عدم حاضری پر فرد جرم لاگو نہیں ہو سکی۔

تیسری سماعت پر مقامی عدالت نے ملزمان کو متنبہ کیا تھا کہ وکلا کو پیش کریں ورنہ پیروی کے لیے سرکاری وکیل فراہم کیا جائے گا تاکہ مقدمہ آگے بڑھ سکے۔

عدالت کے حکم پر ملزمان کو سرکاری وکیل فراہم کیا گیا اور اس کے بعد فاضل جج کی رخصت پر ہونے کی وجہ سے سماعت آگے نہ بڑھ سکی جبکہ مارچ کے بعد کورونا وائرس کی وجہ سے ملزمان کو عدالتوں میں لانے کا سلسلہ روک دیا گیا۔

زارا عباس کے وکلا کے پینل میں شامل سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر کا کہنا ہے کہ تاخیری حربے اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں کہ مدعی کو تھکایا جائے اور سمجھوتے تک بات آئے۔

زارا عباس کا کہنا ہے کہ یہ ’اوپن اینڈ شٹ کیس‘ ہے اور سامنے والے فریق کی کوشش ہے کہ مدعی مقدمہ کو تھکا دیں۔

عباس

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ سمجھتے ہوں گے کہ یہ تو خاتون ہیں، تھک جائیں گی۔ ان کے وکیل نے طنزیہ مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ دیکھ لیجیے، آپ کو تو پتا ہے یہاں لمبے کیس چلتے ہیں۔ میں نے انھیں کہا کہ ابھی تو کیس کی شروعات ہے، آپ نے اتنی جلدی پیشکش کر دی۔ دیکھتے ہیں اس لمبے عرصے میں کون ہمت ہارتا ہے، ملزمان کو پھانسی ضرور ہو گی۔‘

زارا عباس کہتی ہیں کہ وہ کسی بھی موڑ پر سمجھوتہ نہیں کریں گی۔

’جس پیسے کے لیے میرے شوہر کو قتل کر دیا گیا اس کے لیے اپنے شوہر کا سودا کروں گی؟ جس نے میرے بچے سے اس کا باپ اور مجھ سے میرا شوہر چھین لیا اس سے سمجھوتہ میرے لیے گالی ہو گی۔‘

قتل کیسے ہوا؟

مرید عباس کی اہلیہ زارا عباس کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کی چند سال قبل عاطف زمان سے ایک دوست کے ذریعے ملاقات ہوئی تھی کیونکہ مرید ٹی وی اینکر تھے اور ان کے ساتھ لوگوں کے تعلقات تھے، اس لیے عاطف زمان نے مراسم بڑھائے۔

زارا کہتی ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرید عباس اور عاطف کی دوستی گہری ہوتی گئی۔ ڈیفنس میں جہاں مرید عباس کا فلیٹ ہے وہاں دونوں نے ساتھ بکنگ کرائی۔

مرید عباس کے دوست اور ان کے قتل کے عینی شاہد عمر رحمان نے پولیس کو دیے گئے بیان میں بتایا ہے کہ ملزم عاطف زمان سے وہ مرید عباس کے توسط سے ملے تھے۔

بیان کے مطابق سنہ 2016 میں انھیں مرید عباس نے بتایا کہ انھوں نے عاطف زمان نامی شخص کے ساتھ ٹائر کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی ہے اور عاطف زمان کو 21 لاکھ روپے دیے ہیں، جو کہ عمر رحمان نے مرید عباس کو دیے ہوئے تھے۔

زارا عباس کا کہنا تھا کہ ان کی سرمایہ کاری کے بعد بہت سے لوگوں نے ان کے شوہر سے اس بارے میں بات کی جنھوں نے ان تمام لوگوں کو عاطف کے بارے میں بتایا اور پھر سرمایہ لگایا۔

کاروبار کی وجہ سے دوستی بڑھنے لگی

عمر رحمان کے بیان کے مطابق مرید عباس ہر دو ماہ بعد 12 سے 13 ہزار روپے منافع دیتے تھے۔

’میں نے مزید 40 لاکھ اکھٹے کر کے مرید عباس کو دیے۔ فروری 2017 میں مرید عباس نے ان کی عاطف زمان سے ملاقات کروائی جو لوگوں کے لگائے گئے پیسے سے کاروبار کرتے تھے۔

’عاطف زمان ڈیفنس کے فیز ٹو میں دوست کے دفتر میں بیٹھتے تھے۔ وہاں میرا، مرید عباس اور دیگر سرمایہ کاروں کا آنا جانا ہوتا تھا۔ اس دفتر میں عدنان (جس نے مرید عباس کے قتل کے بعد مبینہ طور پر خود کشی کر لی) اور عادل زمان بھی آتے جاتے رہتے تھے۔ عاطف زمان نے بتایا کہ عادل زمان ان کا بھائی ہے اور ریکوری کرتا ہے، جبکہ عدنان آفس بوائے ہے۔‘

عمر رحمان کا کہنا ہے کہ عاطف زمان نے وہاں دو مزید افراد، ایاز شوکت اور اُن کی بیگم صدف ایاز سے متعارف کروایا اور کہا کہ یہ اپنی ملازمت چھوڑ کر ہمارے ساتھ کمپنی کھولنا چاہتے ہیں اس طرح میرا کاروبار اور سرمایہ کاری بڑھنے لگی۔

’میں نے چھ سے سات کروڑ روپے عاطف کی کمپنی میں لگا دیے۔ بعد میں وہ فیز ٹو سے دوسری عمارت میں منتقل ہو گئے جہاں ایک کمرہ مجھے دیا، ایک ایاز شوکت کو، اور ایک خود رکھا، جبکہ وہ اور صدف ایاز کامن روم میں بیٹھا کرتے تھے۔ اس آفس میں مرید عباس اور خضر حیات روزانہ آتے تھے۔‘

مرید عباس

منافع کم ہوا پھر رک گیا

عمر رحمان کا کہنا ہے کہ سنہ 2019 کی ابتدا میں عاطف زمان نے منافع دینا کم کر دیا اور رمضان کے دوران منافع دینا بند ہی کر دیا اور تقاضے پر تسلی دیتا رہتا۔

ان کے مطابق اسی سال جولائی کے پہلے ہفتے میں ان کی مرید عباس، ایاز شوکت، صدف ایاز، خضر حیات اور عاطف زمان کے ساتھ عاطف کے کمرے میں ملاقات ہوئی تھی۔

’میٹنگ میں عاطف نے بتایا کہ وہ حب چوکی جا رہا ہے۔ اس کو 20 کروڑ ملیں گے اور وہ ہم کو دے گا۔ وہ چار جولائی کو گیا اور چھ جولائی کو واپس آگیا۔ ہم دوپہر کے وقت اس کے دفتر پہنچ گئے۔ عاطف زمان نے بتایا کہ میرے پیسے ایف آئی اے والوں نے پکڑ لیے ہیں، وہ منگل یا بدھ کو ہمیں پیسوں کا بندوبست کردے گا، جس پر خضر حیات اور عاطف زمان کی تلخ کلامی بھی ہوئی۔‘

’دفتر کھلا رکھنا، پیمنٹ آنی ہے‘

عاطف زمان کے دفتر کے آفس بوائے اسامہ احمد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نو جولائی کو وہ معمول کے مطابق کام پر آئے اور دفتر کھولا۔ اس روز سب لوگ وقت پر آ گئے تھے اور عمر رحمان ایک بجے آئے تھے۔

اسامہ نے اپنے بیان میں کہا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد تین سے چار بجے عاطف زمان جانے لگے تو مجھے کہا کہ آج آفس بند نہیں کرنا، نو بجے پیمنٹ آنی ہے، اور وہ چلے گئے۔

’باری باری سب لوگ چلے گئے اور آخر میں صرف عمر رحمان دفتر میں موجود تھے۔ ایاز اور صدف ایاز ساڑھے چھ بجے واپس آئے۔ کچھ دیر کے بعد یہ لوگ بھی چلے گئے۔ میں اور عمر بھائی ساڑھے سات بجے تک دفتر میں موجود تھے۔ عمر نے کہا کہ عاطف کو کال کر کے پوچھو کہ واپس آ رہے ہیں یا نہیں۔ میں نے اپنے نمبر سے عاطف کو کال کی لیکن انھوں نے اٹینڈ نہیں کی۔ اس کے بعد عمر بھائی بھی چلے گئے اور میں دفتر میں اکیلا عاطف بھائی کا انتظار کرتا رہا۔‘

عمر رحمان نے اپنے بیان میں پولیس کو بتایا ہے کہ واقعے والے دن نو جولائی کو تقریباً چار بجے عاطف زمان آیا اور اس نے کہا کہ ‘آج سب کو پیسے دے دوں گا اور آپ لوگوں کی ٹینشن دور کر دوں گا۔ آپ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔‘

یوں چار پانچ بجے وہ آفس سے چلے گئے اور اس کے بعد باری باری دیگر لوگ بھی چلے گئے۔ اسی دوران ان کی مرید عباس کے ساتھ واٹس ایپ پر بات ہوئی۔ مرید عباس نے بتایا کہ وہ اور علی (مشترکہ دوست) بسم اللہ ہوٹل پر چائے پی رہے ہیں اور مرید عباس نے چائے کے لیے بلایا۔

’میں پانچ سے 10 منٹ میں ہوٹل پہنچ گیا۔ میرے پہنچنے کے 10 سے 15 منٹ کے بعد عاطف زمان نے مجھے کال کی اور کہا کہ تم اور مرید عباس آفس آ جاؤ تاکہ تمہیں پیسے دوں۔ میں نے عاطف کو بتایا کہ میرے ساتھ علی بھی ہے، جس پر عاطف نے ان کو لانے سے منع کر دیا۔ اسی وقت عاطف نے مرید عباس کو بھی کال کی اور کہا کہ عمر کے ساتھ آفس آ جاؤ، تمھیں پیسے دینے ہیں۔‘

مرید

’مرید عباس کہاں ہے؟‘

عمر رحمان کا کہنا ہے کہ وہ ہوٹل سے آفس کے لیے نکل گئے اور ان کے دوست علی نے انھیں عمارت کے باہر اتار دیا۔

’ہم نے اسے کہا کہ ہمارا انتظار کرو جب تک ہم پیسے لے کر آتے ہیں۔ میں اور مرید عباس دفتر کے اندر گئے جہاں اسامہ احمد آفس بوائے موجود تھا۔ میں اور مرید عباس آفس میں بیٹھ گئے۔‘

آفس بوائے اسامہ احمد کے مطابق وہ چائے بنا رہے تھے جب چار، پانچ منٹ کے بعد دروازے کی گھنٹی بجی اور دروازے پر عاطف زمان اور ان کا بھائی عادل زمان موجود تھے۔

’میں نے دیکھا کہ عاطف زمان کے سیدھے ہاتھ میں پستول تھی اور وہ سیدھے عمر رحمان کے کمرے کی طرف گئے۔ انھوں نے اندر جھانکا اور اپنے دفتر میں چلے گئے، جبکہ عادل زمان باہر کھڑے رہے۔ میں نے عاطف سے چائے کا پوچھا لیکن انھوں نے منع کر دیا۔ میں کچن میں چائے لینے چلا گیا۔‘

عمر رحمان کے مطابق مرید عباس نے کہا کہ میں واش روم سے ہو کر آتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد عاطف اور ان کے بھائی آگئے۔ مجھ سے آفس کا دروازہ کھول کر پوچھا کہ مرید عباس کہاں ہے؟

’میں نے کہا کہ واش روم میں گیا ہے۔ ایک منٹ بعد میری بیگم کی کال آئی۔ میں کمرے سے باہر گیا تو دیکھا کہ عاطف اور اس کا بھائی عادل کھڑے ہیں اور عاطف نے پستول پکڑی ہوئی تھی، جس پر میں نے کہا کہ پستول کیوں پکڑی ہے، اس کو اندر رکھو، ٹھیک نہیں لگ رہا، تو اس نے کہا کہ بڑی پیمنٹ ہے اس لیے رکھی ہے۔‘

’آپ کو پیسے چاہییں، کہہ کر فائرنگ شروع کر دی‘

عمر رحمان کے مطابق واش روم سے مرید عباس باہر آئے اور ٹشو سے اپنا چہرہ صاف کر رہے تھے کہ عاطف نے پستول ان کی طرف کر کے کہا کہ آپ کو پیسے چاہییں؟ انھوں نے یہ الفاظ دو مرتبہ کہے اور فائرنگ شروع کر دی۔ انھوں نے تین یا چار فائر کیے اور گولیاں لگنے سے مرید عباس گر گئے۔

دوسرے چشم دید گواہ اسامہ احمد کے بیان کے مطابق عاطف زمان نے عمر رحمان کے دفتر کا دروازہ کھولا اور فائرنگ شروع کر دی۔ وہ یہ منظر دیکھ کر بہت گھبرا گئے۔ مرید عباس کرسی پر گر گئے۔

وہ خوف میں صدف ایاز کے گھر کی طرف بھاگے اور صدف ایاز کو واقعے سے آگاہ کیا، لیکن انھوں نے کہا کہ آپ کو شاید غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

’پستول سے ٹک ٹک کی آواز آئی، میں بچ گیا‘

پاکستان

عمر رحمان کا کہنا ہے کہ عاطف زمان اس کو بھی مارنا چاہتا تھا لیکن گولی پستول میں پھنس گئی۔

پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق انھوں نے عاطف زمان کا پستول والا ہاتھ پکڑ لیا تو عاطف اور عادل زمان پستول چھڑوانے لگے۔

عمر نے عاطف زمان کو کہا کہ مجھے مت مارو تو عاطف نے کہا کہ میرے ہاتھ کو چھوڑ دو میں، آپ کو نہیں ماروں گا۔

’میں عاطف کا ہاتھ چھوڑ کر لفٹ کی طرف بھاگا تو پیچھے پستول کی ٹک ٹک کی آواز سنی۔ شاید گولی پھنس گئی تھی یا نہیں چلی، میں گھبراہٹ اور خوف سے سیڑھیوں سے گر گیا۔ میں آفس سے باہر علی کی طرف بھاگا جو ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے علی کوبتایا کہ عاطف نے مرید عباس کو گولیاں مار دی ہیں میں جان بچا کر بھاگا ہوں تم مدثر اقبال، اور عرفان کو کال کرو، بولو ہم بھاگ رہے ہیں۔ ہم رکشہ کروا کہ علی کے دفتر پہنچے جو کہ ڈیفنس میں ہے۔ علی کے پاس موبائل تھا۔ اس نے رکشہ میں میرے بھائی ثاقب، مدثر اقبال اور عرفان کو کال کی اور مرید کے سسر کو اطلاع دی۔‘

آفس بوائے اسامہ احمد کا کہنا ہے کہ وہ صدف ایاز کے گھر سے واپس آفس آ گئے اور مین گیٹ تک ہی رہا کیونکہ اس میں آفس کے اندر جانے کی ہمت نہیں تھی۔

اسی دوران مرید عباس کی اہلیہ اور ان کے سسر دفتر پہنچ گئے اور وہ ان کو لے کر آفس میں داخل ہوئے جہاں مرید خون میں لت پت پڑے تھے۔

اسامہ نے بتایا کہ مرید عباس کی اہلیہ رونے لگیں اور مجھے مرید کے سسر نے کس بھی چیز کو ہاتھ لگانے سے منع کیا۔ مرید عباس کے دیگر رشتے دار بھی آ گئے جس کے بعد ان کی میت کو تین، چار لوگوں نے نیچے اتارا۔ اتنی دیر میں پولیس اور ایمبولینس بھی پہنچ گئی تھی۔

خضر حیات کا قتل

خضر حیات نے بھی عاطف زمان کے پاس سرمایہ کاری کی تھی۔ چشم دید گواہوں کے مطابق خضر کی عاطف سے تلخ کلامی بھی ہوئی تھی۔

خضر حیات کے مینیجر امتیاز احمد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نو جولائی کو خضر حیات نے بتایا کہ عاطف نے پیسے دینے کے لیے ڈیفنس بلایا ہے۔ اس وقت ساڑھے چھ بجے تھے اور خضر نے کہا کہ رقم زیادہ ہے تو آپ اور الیاس میرے ساتھ چلیں۔

’تقریباً سوا آٹھ بجے خالی پلاٹ میں خضر نے گاڑی پارک کی۔ کچھ دیر بعد ہم گاڑی میں بیٹھے رہے۔ اسی دوران خضر کو کال آئی اور وہ بات کرتا ہوا گاڑی سے نکل گیا۔ اُس وقت عاطف زمان سفید رنگ کی گاڑی میں آئے اور ان کے پیچھے موٹرسائیکل تھی جس پر دو افراد سوار تھے۔‘

’عاطف زمان نے گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے خضر حیات کو اپنے پاس بلایا وہ جیسے قریب پہنچا تو عاطف زمان نے فائرنگ شروع کر دی جس سے خضر شدید زخمی ہو گیا۔ اسی دوران ایک بندہ موٹر سائیکل سے اترا اور عاطف کی گاڑی میں سوار ہو گیا۔ ہم نے لوگوں کی مدد سے خضر کو اٹھایا اور ہسپتال پہنچایا جہاں دو گھنٹے زیر علاج رہنے کے بعد وہ انتقال کر گئے۔ ہم اس کی لاش جناح ہسپتال لائے جہاں پوسٹ مارٹم کے بعد لاش اس کے آبائی علاقے جھنگ لے گئے۔‘

دفتر آ جاؤ، 50 لاکھ روپے دینے ہیں

سدرہ عرف زارا عباس نے پولیس ایف آئی آر میں بتایا ہے کہ ان کے شوہر اور خضر حیات کا عاطف زمان سے پیسوں کا لین دین کچھ عرصے سے چل رہا تھا۔

واقعے والے دن آٹھ بجکر پانچ منٹ پر انھیں شوہر مرید عباس نے ٹیلیفون کر کے بتایا کہ اسے عاطف زمان نے فون کر کے دفتر بلایا ہے اور کہا کہ آ جاؤ تمہیں پچاس لاکھ روپے دینے ہیں۔

’میرے شوہر وہاں چلا گئے۔ آٹھ بج کر 48 منٹ پر میرے شوہر کے دوسرے دوست عمر رحمان کی بیوی نے ٹیلیفون کیا کہ میں اپنے شوہر سے بات کر رہی تھی تو اس نے بتایا کہ عاطف نے فائرنگ کر کے مرید عباس کو زخمی کر دیا ہے۔ اس اطلاع پر میں اپنے والد کے ساتھ عاطف زمان کے دفتر گئی تو وہاں ایک کمرے میں میرے شوہر خون میں لت پت پڑے تھے۔‘

مرید

عاطف زمان کی جانب سے خود کشی کی کوشش

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم عاطف زمان نے دوہرے قتل کے بعد پستول سے فائر کر کے خودکشی کی کوشش کی۔

پولیس چالان میں کہا گیا ہے کہ نو جولائی کو شام 8.45 کے قریب ملزم عاطف زمان نے اپنے بھائی عادل زمان کے ہمراہ فائرنگ کر کے دو اشخاص خضر حیات اور مرید عباس کو قتل کر دیا تھا۔

بعد ازاں عاطف زمان نے خود کو بھی گولی مار کر خودکشی کی کوشش کی تھی۔ گرفتاری کے بعد عاطف زمان سے پستول اور گولیاں برآمد ہوئیں۔

دوران تفتیش انکشاف ہوا کہ جس پستول سے اس نے دونوں قتل کیے، یہ اس کے بھائی عادل زمان کا لائسنس یافتہ پستول ہے، جبکہ عادل زمان کی نشاندہی پر اسلحہ کا لائسنس برآمد کیا گیا جو جعفرآباد بلوچستان سے جاری کیا گیا تھا۔

’دوستوں نے سنگین نتائج کی دھمکی دی‘

ابتدائی دنوں میں مرید عباس کے قتل کیس کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر ایس ایس پی جنوبی طارق دھاریجو کا کہنا تھا کہ ملزم عاطف زمان جب کاروبار میں بُری طرح پھنس گئے تو انھوں نے پانچ افراد کے قتل کا منصوبہ بنایا۔

طارق دھاریجو کے مطابق ملزم نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ قتل کے واقعہ سے ایک ہفتہ قبل وہ اپنے دفتر میں موجود تھے کہ اس کی اہلیہ کمسن بچے کے ساتھ دفتر آئے تو خضر حیات اور مرید عباس بھی وہاں موجود تھے جو اپنی سرمایہ کاری واپس لینے پر تکرار کر رہے تھے۔

ملزم عاطف کے مطابق اس دوران دونوں میں گرما گرمی ہوئی تو دونوں دوستوں نے ان کی بیوی اور بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دھمکی دی کے ہمارے بہت سے لوگوں سے تعلقات ہیں اور اگر رقوم کی ادائیگی فوری طور پر نہیں کی گئی تو بیوی بچے ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گے۔

ملزم کے مطابق دوستوں کی دھمکی کا سن کر وہ سکتے میں آ گئے اور فوری طور پر اپنی اہلیہ اور بچے کو اپنے آبائی شہر بالاکوٹ جانے کے لیے اسلام آباد روانہ کر دیا۔

’ٹائروں کا کاروبار یا منی لانڈرنگ؟‘

ایس ایس پی طارق دھاریجو کے مطابق ملزم عاطف زمان چند سال پہلے تک ایک ٹائر کمپنی میں ملازم تھا جو مبینہ طور پر ٹائروں کی سمگلنگ کے دھندے سمیت منی لانڈرنگ میں بھی ملوث ہیں اور اس کے شواہد بھی موجود ہیں۔

ایس ایس پی طارق کے مطابق کے اینکر پرسنز سمیت 80 سے زائد افراد نے ملزم عاطف کے پاس کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی جس میں مرید عباس کی سات کروڑ کی سرمایہ کاری ہے۔

پولیس نے مزید بتایا کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے 42 افراد سمیت مرید عباس کے دوستوں نے بھی منافع پر پیسہ دے رکھا تھا۔

عادل زمان کی درخواست ضمانت

مرکزی ملزم عاطف زمان کی درخواست ضمانت ایڈیشنل سیشن جج نے مسترد کر دی جس کے بعد انھوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور ضمانت حاصل کر لی۔

ضمانت کے لیے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آیف آئی آر میں درخواست گزار کا نام شامل نہیں تھا اور پراسکیوشن گواہوں کے بیان کے مطابق وہ جائے وقوع پر خالی ہاتھوں موجود تھے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ مدعی زارا عباس چشم دید گواہ نہیں، انھیں فون پر عمر رحمان کی اہلیہ کی جانب سے آگاہ کیا گیا تھا جبکہ خضر حیات کے قتل کے گواہوں کے مطابق عاطف زمان فائرنگ کے بعد نامعلوم شخص سے ملے تھے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پراسیکویشن کے گواہ عمر رحمان کے مدعی کے ساتھ تعلقات ہیں چناچہ ان کے الزام بدنیتی پر مبنی ہونے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

عدالت کی جانب سے ضمانت کی درخواست منظور کر لی گئی جس کے بعد عادل زمان نے ماتحت عدالت سے بھی ضمانت حاصل کر لی ہے۔

مرید عباس کی اہلیہ زارا عباس نے اپنے وکیل اور سماجی کارکن جبران ناصر کے ذریعے ضمانت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلینج کر رکھا ہے۔

زارا عباس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس عرصے میں انصاف تو نہیں ہوا الٹا ناانصافی یہ ہوئی کہ ایک شریک مجرم کو ضمانت دے دی گئی۔

’میں کوشش کر رہی ہوں کہ میرا بھروسہ عدلیہ پر قائم رہے۔ پاکستان میں انصاف کا حصول بالکل آسان نہیں ہے۔ سالوں گزر جاتے ہیں فیصلہ آنے تک اور اتنا عرصہ گزرنے کے بعد جو فیصلہ آ رہا ہے تو وہ بھی ٹھیک نہیں آ رہا۔‘

’واقعے میں ملوث بہت سے لوگوں سے تفتیش نہیں کی گئی‘

زارا عباس کا کہنا ہے کہ قتل کے اس واقعے میں بہت سے لوگ ملوث یا ساتھ تھے لیکن ان سے تفتیش نہیں کی گئی۔

زارا عباس نے کہا کہ عاطف زمان کے ڈرائیور ندیم نے خودکشی کر لی لیکن انھیں شک ہے کہ اس کا قتل کیا گیا ہے اور کیونکہ وہ عاطف زمان کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا، اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے تفتیش ناقص ہے۔

پولیس کے مطابق ندیم نے فنائل پی کر خودکشی کی لیکن اس کا پوسٹ مارٹم نہیں کرایا گیا۔

یاد رہے کہ سابق تفتیشی افسر نے کہا تھا کہ اگر ضرورت پیش آئی تو فیملی کو شامل تفتیش کیا جائے گا۔

قتل کی تفتیش کے دوران کئی کروڑ روپے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد قومی احتساب بیورو نے بھی اپنے طور پر تفتیش شروع کی اور عاطف زمان کے گھر اور دفتر پر بھی چھاپا مارا گیا لیکن اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔

زارا عباس کا کہنا ہے کہ ابھی تک معلوم نہیں ہوا کہ لوگوں کے کروڑوں رپے کہاں گئے۔

’میرا تو جیون ساتھی، میرے بچے کا باپ، میری زندگی کا سرمایہ چلا گیا۔ باقی لوگوں کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے لیکن اکیلے میں لڑ رہی ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp