محمد کاظم …. علم کی بات، کل کی بات، ہوئی


اس امتحان میں خوش قسمتی سے میری کارکردگی اچھی رہی اوراس پر میں انجینئرنگ کی کلاس میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گیا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ اگر ہم لوگ ان دنوں ماموں سے ملنے نہ جاتے اورمیٹرک میں اختیاری مضمون کے بارے میں ان کا حکم نہ سنتے تو یہی ہونا تھا کہ میں میٹرک اورایف اے اوراس کے بعد بی اے میں عربی پڑھتا چلا جاتا اورشاید بی اے یا ایم اے کے بعد کسی سکول کا ہیڈ ماسٹر یا کسی کالج میں لیکچرارکے عہدے پرتعینات ہو جاتا۔ اس ایک واقعہ نے میری زندگی کا دھارا ہی بدل دیا اور مجھے ایک ٹیچر کی بجائے انجینئر بنا دیا۔

ایک عجیب اتفاق ہے اور اتفاق سب عجیب ہی ہوتے ہیں۔ میرے عربی زبان سیکھنے کی ابتدا علی گڑھ سے ہوئی۔ یہ اتفاق یوں ہوا کہ ہمارے انجینئرنگ کورس کے دوسرے سیشن میں ہمیں موسم گرما کی صرف دس چھٹیاں دی گئیں۔ میں نے سوچا کہ اتنی محدود تعطیلات میں دور دراز کا سفر کر کے بہاولپور جانا اور واپس آنا، اس میں زحمت زیادہ ہو گی اور گھر والوں کے ساتھ چند ہی روز گزارنے میں کوئی زیادہ طمانیت حاصل نہیں ہوگی۔ چناں چہ میں نے ان چھٹیوں میں ہوسٹل ہی میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔

انہی دنوں میں نے کسی اخبار میں ندوة العلما لکھنو کے کسی ادارے کی طرف سے عربی سکھانے کے لیے ایک کتابچے کا اشتہار دیکھا۔ کتابچے کا نام تھا ”عربی زبان کے دس سبق“ میں فارغ تو تھا ہی، سوچا کہ لاؤ ان دنوں میں عربی کے یہ دس سبق ہی پڑھ لیتے ہیں۔ کتابچہ میں نے منگوا لیا، اور اس کے ہاتھ میں آتے ہی اسے تن دہی سے پڑھنا شروع کر دیا۔ میں نے دو دو سبق روزانہ پڑھ کے اور ان کی مشقیں حل کرکے اسے پانچ ہی روز میں ختم کردیا۔

یہ رسالہ ختم کرکے میں نے اپنے اندر ایک عجیب چیز محسوس کی۔ میں نے محسوس کیا کہ عربی زبان میرے لیے کسی طرح بھی اجنبی نہیں ہے۔ اس کے جراثیم میرے اندر کہیں موجود ہیں۔ چناں چہ اسے پڑھتے ہوئے مجھے لگتا ہے جیسے میں اپنی مقامی زبان میں سے کوئی زبان پڑھ رہا ہوں۔ اس رسالہ کی پشت پر چند دوسری کتابوں کا اشتہار تھا۔ قرآن مجید کی پہلی کتاب، قرآن مجید کی دوسری کتاب اور تسہیل العربیہ وغیرہ۔ میں نے یہ کتابیں بھی منگوالیں اور انہیں پڑھنا شروع کر دیا۔

یہ تین چار کتابیں پڑھنے کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں میرے اندر اتنی استعداد پیدا ہو گئی کہ میں یونیورسٹی لائبریری میں جا کر خلیجی ریاستوں کا ایک رسالہ ”العرب“ پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں اسے پوری طرح سمجھ تو نہیں پاتا تھا، لیکن اس میں سے بعض خبریں اور فیچر میں عربی اردو لغت کی مدد سے پڑھ کر سمجھ لیتا تھا، اور خوش ہوتا تھا کہ میں ایک عربی رسالہ پڑھنے کے قابل ہوگیا ہوں۔ انہی دنوں مولانا ابوالحسن علی ندوی کا ایک سلسلہ کتب ”قصص النبین الاطفال“ (بچوں کے لیے انبیاء کے قصے ) بہت ہی آسان زبان میں لکھا ہوا میرے ہاتھ لگا۔

میں نے یہ سلسلہ بھی بڑے شوق اور انہماک سے پڑھ ڈالا۔ اب عربی زبان میرے دل میں گھر کر گئی تھی اور میں اسے کسی حال میں نہ چھوڑ سکا۔ انجینئرنگ کے آخری امتحان کے دنوں میں بھی میرا دستور العمل یہ رہا کہ جب میں ایک پرچہ دے کر ہوسٹل آتا، تو سب سے پہلے ایک دو گھنٹے عربی پڑھتا اور اس کے بعد اگلے دن کے پرچے کی تیاری شروع کرتا۔ ایک دن میرے روم میٹ نے حیران ہوکر پوچھا کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے کے بارے میں آپ کا کیا ارادہ ہے؟

میں نے کہا جب تک واپس آ کر میں کچھ دیر کے لیے عربی نہ پڑھوں اگلے مطالعے کے لیے میرا ذہن ہی نہیں کھلتا۔ وہ میری عجیب سی منطق سن کر حیران ہوا اور خاموش ہوگیا۔ میں اگر چھٹیوں میں علی گڑھ یونیورسٹی سے گھر چلا جاتا تو نہ تو عربی سیکھنے سے متعلق اشتہار میری نظر سے گزرتا اور نہ ہی شاید عربی زبان میں میری دلچسپی قائم ہوتی۔ ”

کاظم صاحب کے تبصروں پرمشتمل کتاب ”کل کی بات“ کی اشاعت میں میرا بھی کردار رہا۔ ان سے ایک دن پوچھا ”آپ کو فنون میں چھپے تبصروں کو کتابی صورت

میں چھپوانے کا خیال نہیں آیا؟ ”کہنے لگے“ پبلشر سے ایک بار کہا تو اس نے جواب دیا، کاظم صاحب! تبصرے کون پڑھتا ہے۔ ”تقاضے پر اپنے تبصرے پڑھنے کے واسطے دیے جو میری وساطت سے محمد سلیم الرحمن صاحب کی نظرسے گزرے تو انھیں پسند آئے اور انھوں نے القا پبلیکشنزسے انھیں کتابی صورت میں شائع کرنے کی سفارش کر دی اور“ کل کی بات ”سامنے آ گئی۔ احمد ندیم قاسمی سے ان کو گہرا تعلق خاطر تھا۔ وہ اگر اردو کے صاحب طرز ادیب بنے تواس میں احمد ندیم قاسمی اور“ فنون ”کا بنیادی کردارتھا۔ اردو میں ان کا جو کام کتابی صورت میں سامنے آیا ہے، اس میں سے بیش تر“ فنون ”میں چھپا۔ احمد ندیم قاسمی کے بارے میں وہ خاصے حساس تھے، فتح محمد ملک نے جب ان کے، اپنے نام وہ خطوط شائع کردیے جن میں نجی معاملات کا ذکرتھا اور کچھ ناگفتنی باتیں بھی توکاظم صاحب بڑے مضطرب اور خفا نظر آئے۔

محمد خالد اختر کے ساتھ ان کا گہرا یارانہ رہا، انھیں کے زیراثر انگریزی ادب کی طرف راغب ہوئے۔ محمد خالد اختر میرے بھی پسندیدہ ادیب ہیں، اس لیے اکثرگفتگو میں ان کا ذکر آتا۔ کاظم صاحب کی لاہور میں کار چوری ہوئی اور اس کی تلاش کے لیے پشاور کے کئی چکر انھوں نے لگائے جو بے سود رہے۔ اس کار میں محمد خالد اخترکی ایک کتاب کا مسودہ بھی تھا جس کی نقل بھی نہیں تھی۔ کاظم صاحب بتایا کرتے کہ آفرین ہے ان کے دوست پر جس نے کبھی اشارتاً بھی مسودے کی گمشدگی پر تاسف ظاہر نہیں کیا اورہمیشہ گاڑی کے بارے میں پوچھا۔

ایک بار بتایا کہ خالد اختر نے یادداشتیں لکھنا شروع کیں اور ابھی اپنے والد صاحب کے بارے میں ہی اپنے خاص اسلوب میں لکھا تھا کہ وہ تحریر ان کی بہنوں کے ہاتھ لگ گئی تو انھوں نے خفا ہو کر ان سے کہا کہ تم کو پڑھا لکھا کراس دن کے لیے بڑا کیا تھا کہ باپ کی بے عزتی کرتے پھرو؟ یہ بات بتاتے ہوئے کاظم صاحب نے تبصرہ کیا کہ ہمارے ہاں سچی آپ بیتی لکھنے کے ضمن میں معاشرتی دباؤ لکھنے والے پر اس طریقے سے بھی رہتا ہے۔

ایک بار بڑے مزے سے سنایا کہ ایک بارمحمد خالد اختر نے جب انھیں بتایا کہ وہ نماز پڑھ کر آ رہے ہیں تو کاظم صاحب نے ہنستے ہوئے ان سے کہا کہ تم کو آج نماز کا خیال کیسے آ گیا، تو معلوم ہوا بیمار بیٹے کی صحت یابی کی دعا کے لیے نماز پڑھی ہے۔ محمد خالد اختر کے نماز پڑھنے نے جس طرح کاظم صاحب کو حیران کیا، اس طرح ’اجمل کمال، مولانا روم کے مزار پر ان کو روتا دیکھ کرحیران ہوئے اور پوچھا کہ یہ ایک دم سے آپ کو کیا ہو گیا؟

تو اس کا جواب جن کو ایک دم سے کچھ ہو جاتا ہے، ظاہر ہے کہ ان کے پاس نہیں ہوتا اور جن کو زندگی بھر ایک دم کچھ نہیں ہوتا، ان کے لیے اس کیفیت کو سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک بارمحمد خالد اختر کا بیٹا گاڑی کے ٹائی راڈ کھل جانے کے باعث حادثے سے بال بال بچا تو اس واقعہ کے بارے میں کاظم صاحب کو بتاتے ہوئے، انھوں نے لکھا ”منصوراب میرے کہنے پر شکرانے کے نفل پڑھ رہا ہے (اور اپنے Paganism کے باوجود میں بھی پڑھوں گا) زندگی جس پرہم اتنا بھرم رکھتے ہیں، بالکل غیر یقینی (Uncertain) ہے۔ “

2011 ء میں میرا ارادہ بنا کہ اردو میں تبصروں پرمشتمل رسالہ جاری کیا جائے۔ اس ضمن میں جن احباب سے تبصرے کے لیے درخواست کی ان میں سے اکثر نے لیت ولعل سے کام لیا۔ صرف چند ایک ہی ایسے نکلے جنھوں نے تبصرے کی ہامی بھری اور پھروعدہ نبھایا بھی۔ کاظم صاحب اس معاملے میں سب سے کھرے ثابت ہوئے۔ انھوں نے میری تجویز کردہ کتاب پر بہت جلد تبصرہ کر کے میرے حوالے کر دیا۔ کمپوزنگ کے بعد پروف بھی خود دیکھے۔ رسالہ بوجوہ نکل نہیں سکا، اس لیے ان کا نیر مسعود کے مضامین پر تبصرہ ایک امانت کی صورت میرے پاس محفوظ ہے۔

نیرمسعود نے کتاب میں شامل ایک مضمون میں اپنے عزیز دوست اور ممتازمحقق رشید حسن خان کی تدوین کردہ مثنویات شوق پر ’خواہش زدہ تحقیق‘ کے عنوان سے مضمون میں کڑی تنقید کی ہے۔ نیرمسعود نے رشید حسن خان کی تحقیق میں جن کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی ان کی کاظم صاحب کو، ان جیسے پائے کے محقق سے توقع نہیں تھی، اس لیے وہ انھیں شک کا فائدہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ”جہاں تک میں نے اس معاملے پر غور کیاہے مجھے لگتا ہے کہ یہ مضمون رشید حسن خان نے اپنی بڑھتی ہوئی عمرکے اس زمانے میں لکھا ہے جب ان میں زیادہ تحقیق وتدقیق کی مشقت جھیلنے کی طاقت نہیں رہی ہو گی۔

بڑھاپے کی کمزوری کیا ہوتی ہے، یہ کوئی مجھ سے پوچھے کہ آج کل میں خود اس منزل سے گزر رہا ہوں، اور حالت یہ ہے کہ ایک دن جو پڑھتا ہوں دوسرے دن وہ لوح ذہن سے مٹ جاتا ہے اور لوگوں اور کتابوں کے نام تک یاد نہیں رہتے۔ “ بڑھتی عمر، بیماری اورقریبی دوستوں کے رفتہ رفتہ گزر جانے سے کاظم صاحب کبھی کبھی کچھ ایسی باتیں بھی کرتے، جن سے مایوسی جھلکتی اورلگتا کہ ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ اب ان کی عمرکا سفینہ کنارے پر آ لگا ہے۔ زندگی کے آخری برسوں میں قرآن مجید کے ترجمے میں منہمک رہے، جس کی اشاعت میں تاخیرنے انھیں خاصا بے چین کیے رکھا۔ صد شکرکہ قرآن پاک کا ان کے قلم سے ہونے والا سلیس اور رواں ترجمہ ان کی زندگی میں ہی چھپ کرسامنے آ گیا۔

ایک باران کے ہاں جانا ہوا توبتایا کہ کچھ ہی دیرقبل وہ کسی طالب علم کے، جو ان پرمقالہ لکھ رہا ہے، بیس سوالوں کا جواب لکھ کرفارغ ہوئے ہیں۔ یہ جوابات دکھائے اور ان کی نقل مجھے بھی دی۔ ان میں سے دوجوابات کے ذریعے سے ان کا ادبی نقطہ نظرواضح ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں ”میں کسی خاص نظریاتی تحریک سے متفق اورمتاثرنہیں ہوں۔ ہرنظریاتی تحریک میں مجھے جو باتیں اچھی لگتی ہیں انھیں قبول کر لیتا ہوں اوران کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہوں ٭ میرانظریہ فن کچھ نہیں ہے، فن تو فن ہوتا ہے جس کی بنیاد ذوق جمال (aesthetic sense) ہے۔ وہ کسی نظریے کے تحت تخلیق نہیں کیا جاتا۔ فن کا مقصد پڑھنے والوں کو مسرت پہنچانا ہوتا ہے۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments