کرپشن کا سوال


سوال یہ ہے کہ پاکستان کو لاحق کرپشن مالی ہے یا فکری؟ انتظامی ہے یا سیاسی؟ یہ امر تو طے ہے کہ اس ملک میں رہنے والوں کا حال اچھا نہیں۔ ان کی جیب میں اتنے پیسے نہیں کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کر سکیں۔ ہم ان کے ذہنوں کو تعلیم کی دولت نہیں دے سکے۔ انہیں روزگار کا تحفظ نہیں دے سکے۔ اس ملک کے قوانین اچھے نہیں۔ عورتوں کے لیے اور قانون ہے جب کہ مردوں کے لیے اور۔ کچھ قانون مسلم اور غیر مسلم شہریوں میں تمیز کرتے ہیں۔ بہت سے قوانین ناقابل عمل ہیں لیکن ہم ایک نظریاتی قوم ہیں جسے ناقابل عمل اور امتیازی قوانین سے بہت محبت ہے اگرچہ اس کے نتیجے میں شہریوں کو قانون کے تحفظ سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

ایک عام شہری سڑکوں پر چمک دار گاڑیاں دیکھتا ہے۔ دکانوں میں ایسی اشیا دیکھتا ہے جنہیں خریدنے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان حالات میں اس کا یہ سوچنا بالکل قدرتی ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ ایسی بدعنوانی ضرور ہو رہی ہے جس کے ہاتھوں اس کا جینا حرام ہو رہا ہے۔ اس ملک میں ”انصاف“ کے لیے ایک تحریک بھی قائم ہے۔ ایک آزاد، باکردار اور نہایت دیانت دار میڈیا بھی موجود ہے جو اسے بتاتا رہتا ہے کہ ’زید یہ کھا گیا ، بکر وہ پی گیا اور عمر وہ لے کے بھاگ گیا‘۔ چنانچہ عام شہری کی سوئی بدعنوانی پر آکر اٹک جاتی ہے۔ جسے وہ ہماری جدید لغت میں ’کرپشن‘ کہنا پسند کرتا ہے۔

یہ امر معنی خیز ہے کہ اردو اخبارات اور ٹی وی چینل ’بدعنوانی‘ کی بجائے ’کرپشن‘ کے انگریزی لفظ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان خواتین و حضرات کی انگریزی دانی میں تو کلام نہیں۔ تاہم جملہ ذرائع ابلاغ میں ’کرپشن‘ کی اصطلاح کو التزام سے بار بار دہرانے کا مقصد دراصل قوم کو ایک نیا نعرہ دینا ہے۔ قوم ’کرپشن‘ کے خلاف ہو جائے تاکہ جسے ہم ’کرپٹ‘ قرار دیں، اسے سنگسار کیا جا سکے۔

انگریزی لغت میں کرپشن کے معنی وسیع ہیں۔ کرپشن کا مطلب ہے ایسی خرابی جس سے پورا نظام اتھل پتھل ہو جائے۔ کمپیوٹر استعمال کرنے والے جانتے ہیں کہ ’سسٹم کرپٹ‘ ہونے سے کمپیوٹر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ تو صاحب ’کرپشن‘ کا مفہوم ناجائز ذرائع سے دولت کمانے تک محدود نہیں۔ اگر ’کرپشن‘ دور کرنا ہے تو سسٹم میں موجود ’کرپشن‘ کی درست نشاندہی کرنا ہو گی۔ آخر کوئی وجہ تو ہے کہ دوسری قومیں ترقی کر رہی ہیں اور ہمارے دھان سوکھے ہیں۔

ہمارے سسٹم کی کرپشن یہ ہے کہ ہم حقائق کی پیچیدگی کا ادراک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اور حقائق کی روشنی میں اپنے حالات پر غور و فکر سے قاصر ہیں کیونکہ ہم نے اس ملک کے رہنے والوں کو یہ نہیں بتایا کہ ہمارے ملک کا معاشی حجم کیا ہے؟ ہمارے ہمسایہ ممالک میں معاشی حقائق کیا ہیں؟ ہمارے کل وسائل کیا ہیں اور ہم وہ وسائل کہاں خرچ کرتے ہیں؟ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، اس کی تلخ سیاسی اور معاشی حقیقتیں کیا ہیں؟ سماجی نظام کا سیاسی نظام سے کیا تعلق ہوتا ہے؟

سیاسی نظام کا معاشی ڈھانچوں سے کیا رشتہ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے وسائل کتنی آبادی کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ یہ امر سمجھ سے بالا ہے کہ بچے ہم مولوی سے پوچھ کر پیدا کرتے ہیں اور روزگار حکومت سے مانگتے ہیں۔ اگر ہم بھیتر کی خرابی پکڑنے پر تیار ہی نہیں، اگر ہم ’تعمیر میں مضمر خرابی‘ کی نشاندہی نہیں کرنا چاہتے تو سسٹم کی کرپشن دور نہیں ہو سکتی۔ خالد احمد کی اصطلاح میں ہمارا مسئلہ سسٹم کی کرپشن نہیں، سرے سے سسٹم کا نہ ہونا ہے۔

مسئلہ یہ نہیں کہ پالیسی خراب ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نعرے کو پالیسی سمجھتے ہیں۔ نعرے سے ہنگامہ تو برپا کیا جا سکتا ہے مسائل حل نہیں ہوتے ۔ پالیسی دفاع، خارجہ امور، تعلیم، تجارت، زراعت اور صنعت وغیرہ سے تعلق رکھتی ہے جبکہ اس ملک میں ہم نے صرف حج پالیسی میں سنجیدگی اختیار کی ہے۔

ہمارے ملک کے ’انصاف پسند حلقے‘ بالکل درست کہتے ہیں کہ کرپشن دور ہونی چاہیے، تمام اداروں اور نظام مملکت میں شفافیت ہونی چاہیے، جنہیں اختیار سونپا جاتا ہے، انہیں جوابدہ بھی ہونا چاہیے۔ جوابدہ حکومت شفاف ہوتی ہے۔ لیکن اس ملک میں 33 برس تک فوجی آمریت مسلط رہی جو شفاف ہوتی ہے اور نہ جوابدہ ۔ جس ملک میں ہر دس سال بعد ایک فوجی ناقوس بجاتا ہوا نمودار ہو اور ہم شہنائیاں بجاتے اس کے استقبال کو نکل آئیں۔ نسیم حجازی کی اصطلاح میں ’شاعر چوراہوں میں اس کے قصیدے‘ پڑھیں۔ عدالتیں اس کے غیر آئینی (کرپٹ) اقدام کو جائز قرار دیں، اس ملک کا’سسٹم‘ شفاف نہیں ہو سکتا۔ شفافیت ایک مسلسل عمل کا نام ہے، بجلی کا بٹن نہیں جسے دبانے سے آن کی آن میں قمقمے جل اٹھیں۔

شفافیت، جوابدہ حکومت اور قانون کی بالادستی جدید تصورات ہیں۔ انسانی تاریخ کے کسی حصے اور دنیا کے کسی خطے میں جمہوریت سے زیادہ شفاف اور جوابدہ نظام کبھی دریافت نہیں کیا جا سکا۔ تو شفافیت کے طلب گاروں کو جمہوریت پسند بھی ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ شفافیت تو ہم مغرب کے معیار کی مانگیں اور نظام حکومت قرونِ وسطیٰ کا یعنی مطلق العنانیت اور امتیازی قوانین ۔جس میں ایک نیک انسان مسیحا بن کے نازل ہو اور اپنی خداداد بصیرت سے ہمارے مسائل حل کر دے۔

ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ شفافیت کا تعلق اخلاقیات (Ethics) سے ہے، اوامر و نواہی (Morality) سے نہیں۔ اخلاقیات کی بنیاد انسانی تجربے سے نچوڑے جانے والے قابلِ عمل اور قابل ترمیم اصول ہوتے ہیں۔ دوسری طرف اوامر و نواہی کی بنیاد ناقابل تبدیل اور حقانی احکامات ہوتے ہیں۔ ریاست کی بنیاد اوامر اور نواہی پر رکھنے سے منافقت، بدعنوانی اور مطلق العنانی پھیلتی ہے۔ یزید کا قاضی شریح یقیناً قانون جانتا تھانیز رشوت لیتا تھا۔ اکبر کے دربار میں لاہور کے دو علمائے کرام بھائیوں کو رسوخ حاصل تھا جن کی کرپشن ضرب المثل ہے۔

سلطنتِ عثمانیہ میں ملا کو اہم مقام حاصل تھا اور منافقت کا یہ عالم تھا کہ کرپٹ حکام کے ساتھ ایک ملازم ان کی جائے نماز لے کے چلتا تھا۔ امام احمد حنبل سے لے کر ابنِ رشد تک مسلم تاریخ کے روشن ستاروں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ اب سید ابو الاعلیٰ مودودی کے اتباع میں یہ نہ کہیے گا کہ وہ تو ملوکیت کی داستانیں ہیں۔ اوامر اور نواہی پر جو معاشرہ تعمیر کیا جائے اس کا ملوکیت کی طرف جانا ناگزیر ہوتا ہے۔

تاریخ یورپ میں گرجا کی بالادستی پر محیط صدیوں میں پادری ضمیر فروشی بھی کرتا تھا اور دین فروشی بھی۔ بخشش نامے بھی بیچتا تھا اور تبرکات کے نام پر مردہ جانوروں کی ہڈیاں بھی۔ اوامر اور نواہی پر مبنی معاشرہ انسانی تاریخ میں کبھی شفاف نہیں رہا۔ اوامر و نواہی کا تعلق انسانوں کے عقیدے سے ہے۔ عقیدہ اجتماعی مظہر نہیں، انفرادی ضمیر سے تعلق رکھتا ہے۔ عقیدے کو فرد کے لیے چھوڑ دینا چاہیے اور اجتماعی زندگی کی بنیاد اخلاقیات پر رکھنی چاہیے۔

بدعنوانی کا بھیڑیا عشروں سے سائے کی طرح ہمارے ساتھ چل رہا ہے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ’پروڈا‘ نامی ایک قانون بنایا جس کی مدد سے بدعنوان سیاست دانوں پر پابندیاں لگائی گئیں۔ ایوب خان نے ایبڈو نامی ایک قانون بنایا اور سیاست دانوں کی ایک بدعنوان نسل کو سیاست سے بے دخل کر دیا۔ اس کے بعد گندھارا انڈسٹریز کی بنیاد رکھی گئی۔ ایوب خان اور ان کے ساتھیوں کی دیانت داری کے باعث ہماری تاریخ میں گندھارا تہذیب کو بلند مقام حاصل ہے۔

یحییٰ خان چونکہ ایک نہایت بالغ الذہن اور سیدھے سادھے فوجی تھے انہوں نے 303 بدعنوان اہلکار نکال باہر کیے۔ بھٹو صاحب کی حکومت انقلابی تھی، انہوں نے 1300 بدعنوان پکڑ لیے۔ صاحب ہم نے اتنے بدعنوان نکالے لیکن ہمارا کنواں پاک نہیں ہوا۔ چنانچہ امیر المومنین ضیاالحق کے سریر آرائے مسند ہونے کے بعد ہم نے اخبارات میں اداریے لکھے کہ ’پہلے احتساب اور پھر انتخاب‘۔ تقریروں میں صدرِ محترم سے التجائیں کیں کہ ’جناب صدر احتساب شروع کریں‘۔ ضیاالحق صاحب گیارہ برس قوم کا احتساب کرتے رہے۔

ضیاالحق کے جانشینوں کو بھی احتساب کا شغل عزیز رہا۔ تاہم کسی سازش کے باعث احتساب کامیاب نہ ہو سکا۔ چنانچہ ایک نہایت درد مند عسکری سالار جنرل پرویز مشرف کو مداخلت کرنا پڑی۔ جنہوں نے نیب نامی ایک ادارہ قائم کیا۔ نازی جرمنی کے عقوبت خانوں کے دروازے پر لکھا ہوتا تھا۔ ”کام کرنے ہی میں آزادی ہے“۔ پرویز مشرف کے قائم کردہ نیب کے صدر دروازے پر کندہ تھا۔’آدمی ہے وہ بھلا، در پہ جو رہے پڑا‘۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2