میاں نواز شریف کا برساتی نظریۂ انقلاب


آخرکار میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی پاکستان تشریف لے ہی آئے۔ یہ ”آنی“ بڑی بامعنی تھی/ہے۔ سیاست سے دلچسپی رکھنے والا ایک طبقہ انہیں، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بےنظیر ثانی ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔ اس حوالے سے وجاہت خان نے جب آصف علی زرداری سے سوال پوچھا کہ کچھ لوگ نواز شریف اور مریم نواز میں بھٹوشہد اور بی بی شہید سے مسابقت اور مطابقت تلاش کر رہے ہیں تو ان کا معنی خیز جواب مندرجہ ذیل شعر تھا:

مئے خانے کی توہین ہے، رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

کچھ نون لیگی دانشوروں کا خیال تھا کہ اس استقبال سے لوگ بی بی صاحبہ کے 1986 کے فقیدالمثال استقبال کو بھول جائیں گے مگرعوامی طاقت کے اس ماڑے مظاہرے پر جہاں مسلم لیگ نون کے لوگ اپنی جھینپ مٹاتے طرح طرح کی مثالوں کے ذریعے میاں صاحب اور ان کی بیٹی کو ہیرو ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے پیپلز پارٹی کے فاؤنڈرممبر جناب سعید خان (خہ پوہیگم) نے فیس بک پر اس صورتحال کو یوں بیان کیا۔ ”مستقبل کا مؤرخ لکھے گا کہ جولائی کی شدید گرمیوں کے باعث مسلم لیگیوں نے نواز شریف اور ان کی بیٹی کی آمد پر کیا جانے والا احتجاج ملتوی کر دیا تھا۔ “ پروفیسر شاہد اقبال کامران نے صرف ایک جملہ لکھا، ”میاں تیرے جانثار۔ پورے لاہور میں چند ہزار؟ “ اس اسٹیٹس پر آنے والے دلچسپ کمنٹس کی ترتیب کچھ یوں بنی:

میاں تیرے جانثار
دیگاں پچھے کھجل خوار
کچھ بیمار، کچھ نزار
مشکل وقت میں سب فرار

مگر سب سے زیادہ دلچسپ سچویشن وہ ہے، جہاں منرل واٹر کی بوتلیں ہاتھ میں پکڑے، مسلم لیگی کارکن، میاں صاحب کے پاکستان آنے پر انقلاب نہ برپا کرسکنے کی وجوہات بیان کررہے ہیں۔ ان وجوہات میں، رینجرز کا گاڑیوں کو روکنا، کنٹینرز سے راستے بلاک کرنا، پولیس کا جابجا موجود ہونا، شامل ہیں۔ یہ معصومانہ اسباب اور ان سے جڑے خیالات پاکستان میں جمہوریت کی تاریخ سے ناواقفیت کا کھلم کھلا اظہار ہیں۔

پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی جو خود کو جمہوری بھی کہتی ہو، اس کے کارکنوں کی ان باتوں کو سن کرافسوس یوں ہوتا ہے کہ جمہوریت کے قیام اور جمہوریت کی بقا کے لئے اس ملک کے غیورعوام اور پیپلز پارٹی کے رہبروں نے بڑی بھاری قیمت چکائی ہے۔ مگر جن کارکنوں کے فکری بصارت سے محروم قائدین نے بھی شاید کبھی کوئی ایسی کتاب پڑھنے کا تکلف گوارا نہ کیا ہو، جس سے انہیں اندازہ ہو کہ آج وہ جس جمہوریت کی بات کرتے ہیں، اس جمہوریت کو عوام تک پہنچانے میں جمہور کے کن قافلوں نے اپنے لہو کے چراغ جلائے ہیں، ان کے کارکنوں کے حوالے سےسٹڈی سرکل یا فکری تربیت کا سوچنا بھی خام خیالی ہو گی۔ لیگی کارکنوں کے ان تاویلوں کو سن کر تحریک انصاف کے اس پریشان حال نوجوان کی فکرمندی سے کی گئی گفتگو یاد آگئی کہ، ”ہمیں ہماری پولیس مار رہی ہے، ہم انقلاب کیسے لائیں گے؟ “

دنیا کی تاریخ میں بہت سے قابل قدر انقلابات آئے ہیں اور انقلابیوں نے اپنےسماج اور دنیا کو جوانمردی سے جینے کا ڈھنگ بھی سکھایا ہے۔ ان انقلابات کے اسباب، مقاصد، عوامل اور تاریخی جدوجہد کا مطالعہ کرنے والے طالب علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ چی گویرا بننا آسان نہیں ہوتا۔ ایک عظیم نصب العین کے لئے زندگی کی بازی لگا دینا اور جیون کے آخری لمحے تک اپنے مقصد کے ساتھ کمٹمنٹ نبھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ راتوں رات نظریاتی اور انقلابی نہیں بنا جاتا۔ یہ راستہ ایک طویل مسافت کا متقاضی ہے۔ یکایک نظریاتی اور انقلابی بن جانے والے مشکوک ہوتے ہیں۔

دوران تقریر مائک گرانے سے اگر ذوالفقار علی بھٹو بنا جا سکتا تو آج شہباز شریف کا نام کچھ اور ہوتا۔ یوٹیوب پر میاں نواز شریف کی ایک وڈیو موجود ہے، جس میں وہ زیرلب مسکراتے ہوئے کچھ سوچنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں، ” اب میں، وہ۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ہو گیا ہوں۔ “ پیچھے سے لقمہ آتا ہے، ” نظریاتی“۔ میاں صاحب خالی جگہ پر کر کے کہتے ہیں، ”ہاں اب میں نظریاتی ہو گیا ہوں۔ “ پوری زندگی دائیں بازو کی سیاست سے استفادہ کرنے کے بعد اچانک خود کو بائیں بازو کی سیاست کا علمبردار کہلوانے کے لئے اصرار کرنا ایک خاص سیاسی پلان کا حصہ ہے۔

کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ اگر میاں صاحب ان کتابوں کے نام بیان کر سکیں جنہوں نے انہیں نظریاتی بننے اور کہلوانے کے لئے اکسایا تو اس راتوں رات تبدیلی کے محرکات سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ مگر پاکستانی سیاست کے منظرنامے سے گہرا شغف رکھنے والے ایک دوست کی ضد ہے کہ میاں صاحب سے کہو نظریاتی لکھ کر دکھائیں، شرط لگا لو اگر”ض“ کی جگہ ”ظ“ نہ لکھیں تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔

یہ وہی نواز شریف ہیں جو بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد تک کہتے سنے گئے کہ بھٹو کا نام سن کر ان کا خون کھولنے لگتا ہے۔ بھٹو صاحب کے قاتلوں کے دست راست رہنے والے میاں صاحب کی ان تقریروں کو کون بھلا پایا ہے، جس میں انتہائی تحقیر آمیز انداز میں شہید محترمہ کے لئے سوقیانہ زبان استعمال کی جاتی تھی اور بیگم نصرت بھٹو اور بی بی شہید کی کردار کشی پر مبنی پمفلٹ چھپوا کر ہیلی کاپٹرز سے نیچے پھینکے جاتے تھے۔

بہت زیادہ گہرائی میں نہ جاتے ہوئے اگر میاں نوازشریف کے سیاسی سفر کےچند چیدہ اقدامات کی ایک جھلک دیکھیں توان کا نظریہ حکومت واضح ہوتا ہے۔ جب بی بی شہید ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی تحریک چلا رہی تھیں توخواتین کی حکمرانی کے مخالف نواز شریف ضیاء الحق کے منظور نظر تھے۔ اسی طرح جب اسلم بیگ پیپلزپارٹی کی حکومت اور جمہوریت کے خلاف سازشیں کر رہے تھے تو نواز شریف اس وقت ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ مشرف کی آمریت کے دوران بھی موصوف پرویز مشرف سے معاہدہ کر کے جدہ چلے گئے تھے۔ جب زرداری صاحب جمہوریت کے استحکام کی لڑائی لڑ رہے تھے تو نواز شریف چوھدری افتخار سے ملکر جمہوریت کے خلاف سازشیں کر رہے تھے۔

مبینہ طور پر پاکستانی طالبان کے سرپرست کی حیثیت سے اسامہ بن لادن سے پیسے لے کر محترمہ کی حکومت ختم کرنے میں ملوث، میمو گیٹ کی سازش کا حصہ، ججوں کے ساتھ مل کر آصف علی زرداری پر جھوٹے مقدمات بنوانے اور ججوں کواپنے سہولت کاروں کے ذریعہ فون کروا کے محترمہ اور زرداری صاحب کوزیادہ سے زیادہ سزا دلانے پر اصرار، میثاق جمہوریت کے خلاف گھناؤنا کردار اور اصغر خان کیس میں میاں صاحب کا سیاسی کرداران کی جمہور نوازی اورنظریے کی داستان بیان کرتا ہے۔

دراصل 35 سالہ حکمرانی سے دستبرداری اتنی آسان نہیں۔

نواز شریف اور ان کے آقاؤں کے لئے یہ ایک سوالیہ نشان بن گیا تھا کہ مسلم لیگ نون کا اگلا وزیراعظم کون ہو گا۔ خیال رہے کہ ووٹ بنک صرف نواز شریف کا ہے، کیونکہ وہ سب سے اہم ضیائی باقیات ثابت ہوئے ہیں۔ نون لیگ کی موجودہ قیادت کسی بھی صورت، شہباز شریف یا حمزہ شریف کو ”شریف پولیٹیکل ڈائینسٹی“ کی باگ دوڑ سنبھالنے نہیں دے سکتی۔ ایسی صورت میں مسلم لیگ کو پرائم منسٹر شپ کے لئے ایک مضبوط امیدوار کی ضرورت تھی۔ نواز شریف کے بیٹے سیاسی شعور سے قطعی نابلد ہونے کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ اور عوام دونوں کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ لہاذا مریم نواز کو سیاسی منظر نامے پر بحیثیت سیاستدان لانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ مریم کی ذاتی شہرت، سوائے نواز شریف کی بیٹی اور کیپٹن صفدر کی بیوی کے کچھ نہیں تھی۔ اسے سیاست دان اور ہیرو بنانے کے لئے ایک سکرپٹڈ پلان تیار کیا گیا۔ تاکہ اسے قیادت کا اہل ثابت کر کے اگلا وزیراعظم بنایا جا سکے۔ اگر آپ نواز شریف کے نا اہل ہونے سے لے کر، آج تک کے منظر نامے پر غور کریں تو تمام باتیں سمجھ میں آ جائیں گی۔ سوچیے اگر یہی پانامہ لیکس آصف علی زرداری کے خلاف ہوتے تو پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب کا کیا حشر کیا جاتا؟ جو زبان نواز اینڈ کمپنی عدلیہ کے خلاف استعمال کررہے ہیں اگر یہی زبان آصف علی زرداری استعمال کرتے تو کہاں ہوتے؟ اگر پیپلز پارٹی کا وزیر اعظم نا اہل قراردیا جاتا تو کیا وہ اسی طرح ریاستی مشینری کا استعمال کرتا اور آزادی کے ساتھ ہر جگہ جلسے جلوس کر سکتا تھا؟ اگلے چند ہفتوں میں کہانی کے تانے بانے مزید واضح ہو جائیں گے۔

میاں نواز شریف پر کورٹ کی طرف سے کوئی ایسا فیصلہ نہیں آیا، جس کے کوئی سیاسی نقصانات ہوں۔ پانامہ اور کرپشن کے حوالے سے میاں صاحب قانون کی نظر میں صاف شفاف ہیں۔ یاد رہے یہ وہی نواز شریف ہیں، جنہیں عدالتی فیصلے کے ذریعے، 2000 میں طیارہ سازش کیس میں 14 سال قید، دو کروڑ جرمانہ کی سزا اور اکیس سال کے لئے نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ مگر مریم نواز کو بے نظیر ثانی بنوانے کی کوشش کرنے والوں کو فاضل جمیلی صاحب کے ان اشعار کو ذرا غور سے سمجھنا ہو گا۔

ذوالفقار ایسا کوئی مردِ جری ہو گا نہیں
بےنظیر ایسی کہاں کوئی قیادت ہوئی ہے

یہ شہیدوں کی وراثت ہے، غنیموں کی نہیں
کیا وراثت بھی کبھی مالِ غنیمت ہوئی ہے

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).