بابا رحمت کے نام خصوصی مراسلہ


بنام محترم جناب عالی قدر چیف جسٹس آف پاکستان،

بعد از سلام مسنونہ، عرض یہ ہے کہ میں آپ کو آج اپنے پرنانا کی کہانی سنانا چاہتی ہوں۔ سرکار چھوٹا منہ اور بڑی بات والا معاملہ ہے، لیکن بچپن سے ہی کہانی بنانا اور سنانا میرا مشغلہ ہے۔ اس لیے جسارت کر رہی ہوں۔

انیسویں صدی کے اواخر میں ایک بچےسید  ولی اللہ نے صوبہ بہار کے چھوٹے سے قصبے”گیا” میں جنم لیا، جی یہ وہی گیا ہے جہا ں مہاتما بدھ کو گیان حاصل ہوا، ان کے گیان کی وجہ سے ہی یہ قصبہ  گیا کہلاتا ہے۔ پچے کے والد چھوٹے درجے کے زمیندار تھے، اچھا کھاتا پیتا گھرانہ تھا۔ زمین داری سے متعلق چھوٹے چھوٹے مسائل پر مقدمہ بازی بھی ان کا خاندانی مشغلہ تھا، انگریزی راج کا زمانہ تھا۔

ولی اللہ اور انکے چھوٹے بھائی جیسے جیسے جوان ہوئے دیوانی اور فوجداری مقدمات دیکھنا ان دونوں کی ذمہ داری میں شامل ہو گیا، چونکہ مقدمات دیکھنے پٹنہ شہر جانا پڑتا اور تاریخیں نزدیک کی لگ جایا کرتیں تو دونوں بھائیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ  چھوٹا بھائی کثیرالعیال ہے اس لیے وہ گیا میں اپنے اور بھائی کے خاندان کو دیکھے گا اور زمینداری بھی۔  بڑے بھائی پٹنہ میں رہے گا اور مقدمات ریکھے گا۔

تاریخ پہ تاریخ لگتی، ولی اللہ کا گاؤں آنا مہینوں بعد ہوتا۔ لیکن مسلسل کورٹ میں حاضری لگانے کی وجہ سے انہیں کورٹ میں ہی پیشکار کی نوکری مل گئی، چند برس بعد جب وہ ایک روز اچانک اپنے کھیتوں کی طرف گئے تو کھیت کی حالت دیکھ کہ دل برداشتہ ہو گئے، چھوٹے بھائی سے بازپرس کی تو پتہ چلا کہ کہ اس برس کل فصل ڈھائی کلو ارہر کی ہوئ تھی۔ ولی اللہ نے جب اپنے گھر اور کھیت کی ابتر حالت دیکھی تو اپنے بال بچوں کو ساتھ پٹنہ لے آئے ، اور یوں اس خاندان کا کھیت کھلیان سے رشتہ ٹوٹنے کی وجہ مقدس عدالت ٹھہری۔

پھر کوئی سو برس بعد ہمارے خاندان کو مقدس عدالت کا منہ دیکھنا پڑا۔ پھر پتا لگا لوگ کورٹ کچہری کے نام سے باپ باپ کیوں کرتے ہیں۔ ایک صدی گزرنے کے بعد بھی سسٹم ویسا ہی ہے، کورٹ  میں جج صاحب کا کام محض تاریخ لگانا ہی ہے۔  میری معلومات بھی میری عقل کی طرح کم اور ناقص ہے، لیکن آپ کو تو یاد ہو گا کہ میجسٹریٹ ہو یا ڈی جے سب ہی صرف تاریخ لگانے ہی آتے ہیں، آپ بھی تو وہی سیڑھیاں چڑھتے یہاں تک آئے ہیں، اب آپ کو کورٹ کی باتیں بتانا تو جیسے سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے۔ لیکن کیا کریں کہ این جی او کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے مفت میں کام کرنے یعنی والینٹر بننے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ عالی مقام میں صرف ایک دن آپ سے مانگنا چاہتی ہوں جیل کی حالت جہاں تین ہزار کی جگہ سات ہزار لوگ ہیں، تمام قانون نافذ کرنے کے ادارے جیل پہنچانے تک ہی فعال ہوتے ہیں، پھر سب ہی چین سے سو جاتے ہیں، اور کورٹ روم میں جونیئر جج ملزم سے خود ہی پوچھ لیتے ہیں اگلی تاریخ جلدی کی چاہیے یا آگے کی؟ ڈی جے صاحب خود ہی دو ہفتے پہ ٹھپا لگا دیا کرتے ہیں۔

سرکارچھوٹا منہ بڑی بات، لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کراچی سینٹرل جیل کو ایک گھنٹہ اور سرکاری ہسپتال کو پانچ گھنٹے؟

میں اس روز سینٹرل جیل میں ہی تھی، جس وقت آپ کی آمد متوقع تھی۔ آپ کے خوف سے سب لرز رہے تھے۔ پاخانے اور غسل خانے کی دھلائی کی گئی، اچھا کھانا بھی بنا۔ لیکن سات ہزار لوگوں کے لیے صرف ایک “گھنٹہ” اور انڈر ٹرائل قیدیوں کے لیے ایک منٹ بھی نہیں؟

سرکار یہ تو ناانصافی ہے نا؟

اب کیا سول ہسپتال کے سربراہ جیل اور کورٹ کا دورہ کریں گے؟

سرکار اس مٹر گشت سے تو فقط مٹر وٹر ہی مل سکتے ہیں، اور فیصلوں میں اگر محترم جناب شاعری فرمائیں گے تو شاعر کیا اب فیصلہ سنائیں گے؟

 میرا آپ سے وعدہ ہے میرے ساتھ جیل اور کورٹ کے تفصیلی دورے کے بعد آپ کو نئے اشعار اور کچھ معیاری ناول بھی ملیں گے جو یقیناً گاڈ فادر سے بھی زیادہ گہرائی رکھتے ہوں گے اور  اگلے سیاسی فیصلوں میں آپ کے کام آئیں گے۔

                         آپ کی توجہ کا شکریہ،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).