کراچی کا مظلوم گدھا


یہ شہر کراچی ہے روشنیوں کا شہر۔ شہر کے جس میں لوگ رہتے ہیں۔ بولتے ہیں لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا۔ کچھ بے زبان بھی رہتے ہیں۔ بے زبان نا بول پاتے ہیں ناسمجھ پاتے ہیں۔ گدھا کہ جس پر ”نواز“ لکھا وہ یہ لفظ کیسے پڑھے؟ کہ وہ تو کبھی اسکول نہیں گیا کے جانے والوں نے کیا سیکھا؟ نواز لکھنا؟ اسکول جا کر کوئی سیکھے گا بھی کیاکہ معاشرہ سکھائے گا اور معاشرہ کیا سکھائے گا وہی جو اس کا اصل ہے۔

گدھے او پیارے گدھے اگر تو تو امریکہ میں پیدا ہو جاتا تو عقل کی علامت مانا جاتا۔ لیکن چونکہ تو ایسے معاشرے میں پیدا ہوا کہ جہاں عقل کی بجائے طاقت کو پوجا جاتا ہے۔ سو یہاں کسی کا انتخابی نشان گدھا تو ہو نہیں سکتا ہاں خونخواری کی علامت شیر ہو سکتا ہے۔ اب دیکھ یہی دیکھ کہ جنہوں نے بلے سے شیر کو مارنا تھا تجھ پر ہی غصہ نکال گئے۔ ہیں نا بہادر سپاہی!

کمہار کی گدھی نے تجھے جنا ہو گا۔ ابھی تیری ہڈیاں پختہ نہیں ہوئی ہوں گی کہ تجھے بدھ کے روز کسی میلہ مویشیاں میں بیچا گیا ہو گا۔ جب پہلے دن تجھے گدھا گاڑی پر جوتا گیا ہو گا۔ تیری آنکھوں کے گرد چمڑے کے کالے ٹکرے لگائے گئے ہوں گے۔ تیرے نتھوں میں سے تیرے جبڑے کہ عین درمیان میں سے چمڑے کہ پٹے گزارے گئے ہوں گے۔ پھر توں کچھ پریشان پریشان سا فرنیچر مارکیٹ میں پہنچا ہو گا۔ اچانک تجھ پر وزن لاد دیا گیا ہو گا ارے پیارے توں تو گرتا گرتا بچا ہو گا کہ ایک زور دار ڈنڈا پڑا ہو گا بس وہی پہلا نشان ہو گا جس پر آنے والے سالوں میں نا جانے کتنے نشان پڑے ہوں گے۔

ایک منٹ پیارے کہیں توں یہ تو نہیں سمجھ رہا کہ تیرے پر ظلم ہو رہا ہے۔ نا نا یہ نہ سوچیں ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر شے ہم اشرف المخلوقات کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ تو بھی سوچ سکتا ہے، یہ ہم نہیں سوچ سکتے۔

خیر تو نے ساری زندگی جس مالک کے لئے وزن اٹھایا جس نے تجھے چارہ بھی کم ڈالا جس نے اپنی معاشی تنگ دستی سے تنگ آ کر روز تازیانے پر تازیانہ تیرے جسم پر مارا۔ اس نے تجھ سڑک پر چھوڑ دیا کہ اب تیرے پٹھوں کا گوشت تیری ہڈیوں کے ساتھ جڑا نہیں رہ سکتا وزن کیا خاک اٹھائے گا۔ تجھے گلیوں میں کئی بار پتھر پڑے ہوں گے۔

قریب تھا کہ تیرا گوشت کہیں پر ٹانگ دیا جاتا کہ مبارک ہو تجھے تو نئے پاکستان کی بنیاد اٹھانے والے ماؤف دماغوں کہ ہاتھ لگ گیا۔ یہ تیری مظلومیت کو کیا سمجھتے کہ مظلومیت ان کی اپنی نسوں میں ایسی اتری ہے کہ اب ان کے دماغوں میں انتقام کے سوا کچھ نہیں۔ ان کو روٹی چاہیے تھی لیکن انہیں نسل پرستی کا چورن دیا گیا۔ انہیں سوچ چاہیے تھی لیکن ان کو تزویراتی گہرائی کے نتیجے میں پیدا شدہ سیاسی عقیدہ رٹوایا گیا اور اب تو یہ عالم ہے کہ اپنی ہی نرسری کہ پیدا شدہ ایک کیمیا کو قابو کرنے کے لئے شہر شہر رنگ برنگے ڈب کھڑبے نمونے ذہر اگلتے ہیں۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا سمجھ آجائے تو کچھ کہا نہیں جاتا۔

ان اصل ناسمجھوں کے ہاتھوں ساری زندگی کی ذلت اٹھانے والے دوست تصویر میں تیری آنکھوں کا کرب بیان سے باہر ہے۔ قدرت نے تجھے زبان دی ہوتی تو شاید تو کسی کو کچھ سمجھا پاتا ورنہ یہاں تو ہماری زبانوں سے ایک چیخ کے بعد دوسری چیخ آتی رہتی ہے گزرتی رہتی ہے۔ انسان سہمے پھرتے ہیں۔

(بس انہیں سہمے انسانوں سے میں سے چند انسانوں سے جو ابھی تک سوچ سکتے ہیں درخواست ہے کہ ان اداروں کو جن میں ان پیارے مظلوم جانوروں کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا ہے کچھ عطیہ ضرور کیجیے گا۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).