پشاور روتا رہا


خود کش کے لفظی مطلب ہے خود کو مار دینا۔ لیکن یہ کیسے لوگ ہیں جو خود کو تو مار دیتے ہیں ساتھ ساتھ ہزاروں بے گناہوں کو بھی مار دیتے ہیں۔ کبھی کسی مجمع میں کبھی کسی شاہراہِ پر کبھی کسی سیاسی تقریب میں کہیں نا کہیں آے دن ایسا ہوتا رہتا ہے۔

اور میرے پیارے پشاور کا تو نصیب ہی ایسا ہے۔ آج سے دس سال قبل ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ تب یہ وقت تھا کے ہر جمعے کو خود کش حملہ ہوتا تھا۔ شروع شروع میں ہم سب جمعے کو چھٹی کرتے تھے۔ لیکن کب تک اور کہاں تک انسان چھٹیاں کرے۔ وقت کے ساتھ حملے نا بند ہوئے لوگوں نے اسے روٹین سمجھ لیا۔ اس زمانے سے ہی پولیس خاص ٹارگٹ ہوتی تھی۔ جب بھی ہماری یونیورسٹی کی وین کے ساتھ کوئی پولیس وین ٹریفک میں پھنس جاتی تو سب بے چین ہوجاتے کے ابھی دھماکہ ہوا کے ابھی۔ الغرض پشاور کے پی کے میں دھماکے ہونا ایک معمول جیسی بات ہے۔ لیکن مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کے آخر خود کش بمبار آتے کہاں سے ہیں۔ کہاں ٹریننگ ہوتی ہے، اور تو اور خود کش سے زیادہ ٹارگٹ کلر کہنا صحیح ہوگا۔ اب ٹارگٹ کوئی عام عوام ہو۔ اے پی ایس کے معصوم بچے یا کوئی سیاسی راہنما خسارہ پشاور کے حصے میں ہی آیا ہے۔

وہ شہر جسے کبھی پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا وہیں اے پی ایس کے معصوم پھولوں کو بےدردی سے کچلا گیا۔ وہاں کے باغوں سے زیادہ قبرستان آباد ہیں۔ وہاں شادی کےسہروں سے زیادہ قبروں کے سہرے بکتے ہیں۔ پشاور کے غیور عوام جو اپنی مہمان نوازی کے لیے مشہور تھے۔ ان پر دہشت گرد اور طالبان جیسے لیبل لگاے جاتے ہیں۔ پہلے کسی داڑھی والے، ٹخنوں سے اوپر شلوار کیے کاندھے پی صافا اور سَر پر ٹوپی رکھے ہوئے انسان کو دیکھ کے دِل میں احترام آتا تھا کے یہ تو سنت محمدی کا پیروکار ہے۔ اب ڈر لگتا ہے کے کہیں دہشتگرد تو نہیں۔ آخر یہ ہوا تو ہوا کیسے۔

میرا تو صرف یہ ماننا ہے کے جیسے ہمارا ایک گھر ہے۔ اس میں کون آتا ہے کون جاتا ہے۔ گھر کے سربراہ کو سب علم ہوتا ہے۔ گھر میں کیا ہو رہا ہے اِس سے کوئی کیسے لا علم رہ سکتا ہے۔ تو پاکستان بھی ہمارا گھر ہے کے پی کے بھی ہمارا گھر ہے۔

بڑے بڑے حکومتی نمایندے موجود ہیں تو کیوں آخر کیوں یہ سب ہو رہا ہے۔ ایک پروپر سسٹم ایک نیٹ ورک موجود ہوگا ہی جو خود کش بمبار آتا ہے اور دن دھاڑے لوگوں کے بیچ میں جا کے خود کو اڑا دیتا ہے۔ ہم کس کے ہاتھ پر جا کر اپنے پیاروں کا لہو تلاش کریں۔

اور اوپر سے میڈیا خبر چلا دیتا ہے اتنے شہید ہو گئے۔ ماؤں کو فخر ہے، پاکستان پر جان قربان ہے۔ بھائی ہمیں ایسی شہادتیں نہیں چاہیے، اب اے پی ایس کے بچوں کی ہی مثال لیں وہ اسکول گئے تھے پڑھ کر کچھ بننے، شہید ہونے نہیں، ان کاسفاک قتل ہوا ہے، پشاور آج تک رو رہا ہے، کبھی اتفاق ہو تو جائے اور ملیں ان کے ماں باپ سے وہ زندہ لاشیں ہیں جو 16دسمبر سے نکلے ہی نہیں، پشاور ہو کے پی کے یا پاکستان ہمیں ایسی قربانی نہیں چاہیے جو کسی بے گناہ کی موت سے منسلک ہو، نا حق کسی کے بھی خون بہے ہمیں نہیں چاہیے۔

ہم سب بس اب اِس عذاب سے نکلنا چاہتے ہیں، اللہ ہمیں بھی کوئی راہبر دے، کوئی ایسا مسیحا جو اِس عذاب سے نجات دے، جو خوف کی جگہ خوداعتمادی کی فضا بحال کری، اور جو پاکستان اور پشاور کو مثالی ملک اور امن کے گہوارہ بنا دے۔ خود کش بمباروں سے نجات دلا دے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).