سپریم کورٹ دیامیر بھاشا ، مہمند ڈیم فنڈ اور فنڈز کا شفاف استعمال


سوموار کو فیسبک کے ایک گروپ میں ایک پوسٹ پڑھی جس میں کہا گیا تھا کہ اپنے موبائل فون سے 8000 پر خالی ایس ایم ایس کریں اور 1500 ایم بی موبائل ڈیٹا مفت حاصل کریں ۔ یہی میسج چند دن قبل انڑنیٹ پر کچھ یوں گردش کر رہا تھا کہ اپنے موبائل فون سے ” ڈیم ” لکھ کر 8000 پر ایس ایم ایس کریں اور سپریم کورٹ کے دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم فنڈ میں دس روپے کا عطیہ دیجیے جو کہ گزشتہ دو دن سے الفاظ کی تبدیلی سے ‘ مفت ڈیٹا ‘ کا ‘ جھانسہ ‘ دے کر ‘ زبردستی عطیہ ‘ بٹور رہا ہے ۔

چونکہ مجھے روز اول سے معلوم تھا کہ یہ نمبر سپریم کورٹ کے دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم فنڈ کے لیے مختص ہے اور مفت ڈیٹا محض لالچ کے لیے لکھ کر وصولی کی جا رہی ہے اور اگر مجھے اس ڈیم کے لیے عطیہ دینا ہو تو براہِ راست سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ہی دوں گی ، میں اس جھانسے کو نظر انداز کرتی رہی لیکن اس صبح اس میسج کو دیکھ کر میرا صبر تمام ہو گیا اور میں نے فوراً گروپ ایڈمن سے کہہ کر ‘ دھوکہ دہی ‘ پر مبنی اس پوسٹ کو گروپ سے ریموو کروا دیا ۔

پوسٹ گروپ سے ریموو کروانے کے بعد مجھے بے فکر ہو کر آگے بڑھ جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ مجھے رہ رہ کر اس بات پر غصہ آتا رہا کہ کیوں کچھ لوگ خوامخواہ کے ” رابن ہڈ ” بن رہے ہیں ۔ چیریٹی دینا یا نہ دینا کسی بھی شخص کا ذاتی فیصلہ ہے ۔ اس طرح اپنی دانست میں محب وطن بننے کی سوچ جانے کتنے ہی سفید پوشوں سے ان کا بھرم چھین لے گی ۔ بے شک کہ وہ سفید پوش اپنے ہی لالچ کے ہاتھوں اس فنڈ میں نادانستہ طور پر حصہ ڈال دیں گے لیکن بہرحال ہمیں اس طرح زبردستی کسی سے عطیہ لینے کا کوئی حق نہیں ۔

دوسری سوچ میرے ذہن میں یہ آئی کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی منظوری اور تو مشرف دور میں ہوئی تھی تو اس کے فنڈز کی کال کیوں دی جا رہی ہے ۔ شاید مجھے یہ یاد نہ بھی ہوتا کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی منظوری کب اور کس کے دور میں ہوئی تھی مگر اس ڈیم کا نام اتنا منفرد تھا کہ بھولا نہیں تھا ۔ پھر میں نے اس پر تازہ ریسرچ کی جس نے میری سوچ کی توثیق کر دی ۔

اوریجنل پلان کی رو سے ڈیم کی تعمیر کا آغاز جولائی دو ہزار نو میں شروع ہونا تھا اور جولائی دو ہزار بیس میں پایہ تکمیل تک پہنچنا تھا ۔ جبکہ جولائی دو ہزار اٹھارہ تک ڈیم کی کور کنسٹرکشن کے لیے کسی بھی کنٹریکٹر کو منتخب نہیں کیا گیا ۔ اوریجنل پلان کے تحت ڈیم کی کل لاگت 894,257 ملین روپے تھی ۔ جس میں سے زمین کی خریداری اور لوکل آبادیوں کی منتقلی کے اخراجات حکومت پاکستان نے ادا کرنے تھے جبکہ ابتدائی کاموں کے اخراجات واپڈا نے سیلف فنانسنگ سے پورا کرنے تھے اور 312,943 ملین روپے فارن ایکسچینج کنٹریکٹ (ایف ای سی) سے فراہم کیے جانے تھے ۔

اسی طرح مہمند ڈیم کی تعمیر جون دو ہزار بارہ میں شروع ہو کر ستمبر دو ہزار سولہ میں مکمل ہونی تھی ۔ اوریجنل پلان کے مطابق اس ڈیم کی کل لاگت 937.960 ملین روپے تھی ۔ جس میں سے 122.860 ملین روپے حکومت پاکستان جبکہ 815 ملین روپے فارن ایکسچینج کنٹریکٹ (ایف ای سی) سے فراہم کیے جانے تھے ۔

تین مارچ دو ہزار سترہ کو کرم تنگی ڈیم (شمالی وزیرستان) کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ دو ہزار سترہ میں ہی بھاشا ڈیم کی تعمیر پر بھی کام شروع ہو جائے گا اور دو ہزار اٹھارہ میں لوڈ شیڈنگ ماضی کا قصہ بن جائے گی ۔ اسی سلسلے میں بیس مارچ دو ہزار اٹھارہ کو ایکسپریس ٹریبیون کی ایک خبر کے مطابق بھاشا ڈیم کی تعمیر کی منظوری دے دی گئی تھی ۔ اس ڈیم کی کل لاگت کا تخمینہ 1.4 ٹریلین روپے لگایا گیا تھا جس میں وفاقی حکومت نے لاگت کا 57 فیصد یعنی کہ 370.2 ملین روپے بجٹ سے مہیا کرنے کا اعادہ کیا تھا ۔ اسی طرح واپڈا نے ایکوئٹی انویسٹمنٹ سے حاصل شدہ 115.9 ملین روپے فراہم کرنے تھے جبکہ بقایا 163.3 ملین روپے بنکوں سے قرضہ حاصل کر کے منصوبے کو فائنانس کرنا تھا ۔

تو ، بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی اس کاوش کی نیک نیتی پر شک نہ کیا جائے تو بھی بحیثیت پاکستان کے ایک معزز اور ٹیکس دینے والے زمہ دار شہری ہونے کے ہمیں اتنا حق تو ہو گا (یا ہونا چاہیے) کہ ہم اس فنڈ کے شفاف استعمال کی بابت بات کر سکیں ۔

نمبر ایک ، ان دو ڈیمز کی تعمیر کی کل لاگت 1.4 ٹریلین روپے بتائی جا رہی ہے ۔ اس میں وہ اخراجات بھی شامل جن کے لیے وسائل کی فراہمی کی زمہ داری حکومت پاکستان (یا وفاقی حکومت) نے اپنے سر لی تھی ۔ کچھ وسائل واپڈا نے فراہم کرنے تھے ۔ کیوں نہیں حکومت اور واپڈا کے وعدہ کردہ وسائل اس کل لاگت میں سے منہا کیے جا رہے ؟ یا آیا اس فنڈ کے بنانے کے بعد حکومت اور واپڈا ان وسائل کی فراہمی سے مبرا ہو جائیں گے ؟

نمبر دو ، جن وسائل کی فراہمی کا اعادہ کیا گیا تھا اگر وہ اب بھی حکومت اور واپڈا کی زمہ داری ہی ہوں گے تو ان کی فراہمی کا کیا فریم ورک ہو گا اور کیا عوام کو وسائل کی فراہمی سے ‘ریئل ٹائم ٹیکنیک’ کے تحت آگاہ رکھا جائے گا ؟ اور اگر حکومت اور واپڈا کو ان وسائل کی فراہمی سے مبرا قرار دیا جائے گا تو ان وسائل کو کس مد میں استعمال کیا جائے گا ۔۔۔ عوامی فلاح کے کاموں کے لیے یا کہیں اور ؟

نمبر تین ، عوام عطیات کے ذریعے ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ اٹھائیں گے تو کیا وہ اس ڈیم کی تعمیر پر اپ ڈیٹس جاننے کا حق رکھتے ہوں گے ؟ اگر ہاں ، تو وہ اپ ڈیٹس کون دے گا ۔۔۔ واپڈا ، حکومت یا سپریم کورٹ ؟

نمبر چار ، سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق بیس جولائی دو ہزار اٹھارہ تک فنڈ میں ستائیس کروڑ سڑسٹھ لاکھ انچاس ہزار چار سو بارہ روپے جمع کرائے جا چکے ہیں ۔ یہ رقوم مختلف اداروں اور افراد بشمول چیف جسٹس صاحب کے دے گئے عطیے پر مشتمل ہے ، جو کہ مختلف بینکوں سے روزانہ کی بنیادوں پر سٹیٹ بینک آف پاکستان منتقل کر دی جاتی ہے اور اس پر روزانہ کی بنیادوں پر منافع بھی دیا جاتا ہے ۔ گویا اس رقم پر (پانچ فیصد شرح منافع یا شرحِ سود کے حساب سے) ماہانہ اور سالانہ منافع کا تخمینہ درج ذیل ہوا :

276,749,412 * 0.05 = 13,837,470.6
276,749,412 * 0.05 * 12 = 166,049,647.2

اس سولہ کروڑ ساٹھ لاکھ انچاس لاکھ چھ سو سینتالیس روپے سالانہ منافع کا مصرف کیا ہو گا ؟ کیا یہ اس 1.4 ٹریلین روپے کا ٹارگٹ پورا کرنے میں کام آئیں گے یا کسی گنتی میں نہیں آئیں گے ؟

نمبر پانچ ، ڈالر کے ایکسچینج ریٹ میں کمی بیشی سے کیسے نمٹا جائے گا ؟ مذید فنڈز درکار ہوئے تو کیا وہ بھی عوام عطیات سے ہی پورا کرے گی ؟

نمبر چھ ، کیا عوام کو فنڈ سے تعمیر شدہ ڈیم کی بجلی پر ٹیکس چارجز بشمول نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ چارج کی طرز کے چارجز بھی دینا ہوں گے ؟

نمبر سات ، سب سے اہم بات ، فنڈز میں خوردبرد کرنے والوں اور فنڈ کے ‘ جماعت علی شاہ ‘ جیسے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟

ان اور ان جیسے دیگر سوالات کے تسلی بخش جواب عوام کا حق ہے ۔ پھر عوام چاہے تو دس روپے دے ، سو روپے دے ، ہزار روپے دے یا ملین اور بلین روپے ۔۔۔ دل سے لگائے جانے والے درخت ہی پھل دار ہوتے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).