’حاملہ ہونا چاہتی ہوں لیکن بچہ نہیں چاہتی‘


گذشتہ دس برس سے میں بچہ پیدا کرنے کا خواب دیکھ رہی ہوں۔ لیکن میں بچے کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتی اور نہ ہی ماں بننا چاہتی ہوں۔

اسی وجہ سے میں نے سروگیٹ بننے یعنی کسی اور کے لیے اپنی کوکھ سے بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں چاہتی ہوں کہ زچگی کے بعد مجھے بچہ اپنے پاس نہ رکھنا پڑے۔ میں صرف حاملہ ہونے کا تجربہ حاصل کرنا چاہتی ہوں۔

میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ میرے جسم کے اندر ایک جان کیسے بڑی ہوگی اور میں اسے اپنی کوکھ کے اندر کس طرح پالوں گی۔

میں حمل کے دوران اپنے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں کو محسوس کرنا چاہتی ہوں۔ میں اپنے جسم کے اندر بچے کی ہلچل کو محسوس کرنا چاہتی ہوں۔

سروگیٹ بننے یا اپنی کوکھ کو کسی اور کے بچے کے لیے استعمال کرنے کا خیال مجھے اکیس برس کی عمر میں آیا تھا۔ میں نے سروگیسی کے بارے میں ایک فلم دیکھی تھی۔ اس کے بعد میں نے انٹرنیٹ پر اس موضوع پر مزید معلومات حاصل کیں۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔

میرا لمبے عرصے تک ایک بوائے فرینڈ رہا ہے۔ وہ بھی بچے نہیں چاہتا تھا، لیکن اس کو سروگیسی میں بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

وہ یہ کبھی نہیں سمجھ پایا کہ میں اپنی صحت کو خطرے میں ڈال کر حاملہ کیوں ہونا چاہتی ہوں وہ بھی اُس بچے کے لیے جو میرا ہوگا بھی نہیں۔

بچہ نہ چاہنے کی وجہ کیا ہے

آپ جاننا چاہیں گے کہ میں بچہ کیوں نہیں چاہتی ہوں۔ بچے کو پالنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ میں ایسی ذمہ داری کے لیے ذہی طور پر تیار ہوں۔

میں ایک ایوینٹ کمپنی کے لیے کام کرتی ہوں۔ مجھے ہر روز کئی گھنٹے کام کرنا ہوتا ہے اور کام کے سلسلے میں مختلف ممالک بھی جانا پڑتا ہے. اس طرح کے کام کے ساتھ چھوٹے بچے کی پرورش کرنا بہت مشکل ہوگا۔

حاملہ ہونا بھی بہت مشکل ہوگا لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہ ایک معینہ مدت کے لیے ہی ہوگا۔ مجھے اس کے لیے میٹرنٹی کی چھٹی ملے گی جس کے بعد میں کام پر واپس لوٹ جاؤں گی۔ مجھے معلوم ہے کہ متعدد دشواریاں بھی ہوں گی، جیسے کمر درد، تھکن، بیماریاں۔ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ زچگی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن میں اس درد سے گزر کر دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہ کیسا ہوتا ہے۔

مجھے اس بات کا بھی ڈر ہے کہ نو مہینے بچے کو اپنے پیٹ میں رکھنے کے بعد مجھے اس سے محبت ہو جائے گی۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ میں اپنے بچے کے بجائے سروگیٹ ماں بننا چاہتی ہوں جس پر کسی اور کا حق ہوگا۔ جب مجھے پتا ہوگا کہ یہ کسی اور کا بچہ ہے تو شاید اس سے جدا ہونے میں اتنی مشکل نہ ہو۔

میری عمر تقریباً 30 برس ہے۔ میں عمر کے اس حصے میں ہوں جب زیادہ تر لوگ بچے کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔

میری ایک قریبی دوست حال ہی میں ماں بنی ہے۔ حمل کے دوران جس اتار چڑھاؤ سے اس کی زندگی گزری ہے میں بھی اسے محسوس کرنا چاہتی ہوں۔

میرے ایک ہم جنس دوست سے میں نے کہا کہ اگر وہ بچے کا خواہش مند ہے تو میں اس کے لیے سروگیٹ کا کام کر سکتی ہوں۔

میں اکیلی ایسی نہیں ہوں

میں اس طرح کے خیالات رکھنے والی اکیلی خاتون نہیں ہوں۔ انگلینڈ اور ویلز میں سروگیسی بڑھ رہی ہے۔

برطانیہ میں ہر سال تین سو جوڑوں کو ایسا کرنے کی اجازت مل رہی ہے۔ حالانکہ دس برس قبل ایسے پچاس ہی معاملے ہوا کرتے تھے۔

میں ایسا کر کے کسی پر احسان بھی نہیں کر رہی ہوں۔ یہ دو طرفہ مفاد کی بات ہے۔ میں سروگیسی کے لیے پیسے بھی نہیں لوں گی۔ برطانیہ میں سروگیسی کے لیے پیسے لینا غیر قانونی ہے۔

تاہم یہ ضرور ہے کہ سروگیٹ بننے پر مجھے معاشی مدد دی جائے گی۔ میرے لیے اصل فائدہ وہ تجربہ ہوگا جو مجھے ایسا کر کے حاصل ہونے والا ہے۔

٭٭٭یہ برطانیہ میں مقیم ایک خاتون کی کہانی ہے جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp