ایک تو کراچی کے اوپر سے مڈل کلاس


پچھلے ایک بلاگ میں ہم نے مڈل کلاسیوں کے المیئے بیانکیے تھے اور اب پیش خدمت ہیں کراچی کے متوسط طبقے کے المیئے جن کا نام لیوا اور پانی دیوا کوئی نہیں۔

بچپن میں ریڈیو پر گانا سنتے تھے کہ ”بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر۔ “
ماضی کے حساب سے گانے کا یہ مکھڑا معقول لگتا تھا لیکن اگر آج سنو تو انوکھا معلوم ہوتا ہے۔

ارے بھائی فٹ پاتھ پر کچرے کا ڈھیر پڑا ہے ہم اس میں اپنی ٹانگ کیوں اڑائیں؟ اور تم اپنا گھوڑا لئے سڑک پر نکل آئے ہو جہاں آج کل چالیس پچاس لاکھ کی گاڑیاں تک رل جاتی ہیں اور اس وقت کو کوستی ہیں جب وہ کسی شو روم میں بڑی شان سے کھڑی تھیں کہ کسی ظالم نے ان کی شوکت کی قیمت ادا کرتے ہوئے بیچاریوں کو کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر گھسیٹنے کے لئے خرید لیا۔

خیر وہ مہنگی گاڑی تو امیروں کی ہوتی ہے جو کبھی کبھی چھوٹے موٹے علاقوں میں جا کر پھنس جاتی ہے ورنہ کراچی کے مڈل کلاسیے تو موٹر سائیکل، ایف ایکس اور مہران کی سواری کے ایسے عادی ہیں کہ کبھی ان کو بڑی گاڑی میسر آجائے تو دو چار دن تک تو اس میں ٹھیک سے تشریف ہی نہیں رکھ پاتے۔

کراچی کی مڈل کلاس عوام سب سے لو مینٹینینس ہے۔ یعنی محدود سے محدود ترین وسائل میں گزارا کیسے کرنا ہے یہ آپ ان سے سیکھ لیں۔ بھول پن اور معصومیت تو ان پر ختم ہے۔ اور ہر دوسرا بندہ صابر اور شاکر ہے۔ اس سے مراد صرف نام نہی ہے بلکہ یہ صفات بھی ان میں قدرے پائی جاتی ہیں۔

عورتیں بھی کم نہیں ہوتیں اس معاملے میں۔ رکشے میں کہیں جانا ہو تو یہ کراچی کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ رکشے والے نے جتنے پیسے مانگے ہیں انھیں بغیر حجت کے مل گئے ہوں۔ اور یہ پریکٹیس اتنی پرانی ہے کہ اب رکشے والے کچھ روپے بڑھا کر ہی بتاتے ہیں۔ رہی سہی کسر سی این جی کی عدم دستیابی نے پوری کر دی ہے کہ اب آمد و رفت تو سیاپا ہی بن گیا ہے۔

پانی نہیں آرہا حلقے میں تو آپ نے سن ہی لیا ہوگا کہ کراچی والے پانی تو کیسے ترس گئے ہیں۔ سونے پر سہاگہ کبھی بہت سارا پانی ایک ساتھ دیکھنے کا دل چاہے اور سی ویو کا رخ کریں تو ساحل پر پہنچنے کے بعد کالا پانی والی فیلنگز آتی ہیں۔ کچرا اور کراچی کا تو چولی دامن کا ساتھ ہو گیا ہے سمجھو۔ عوام کچرے کو دیکھ دیکھ غراتی ہے کہ

جہاں میں جاتی ہوں وہیں چلے آتے ہو
چوری چوری پورے شہر میں سماتے ہو
یہ تو بتاؤ کہ تم میرے کون ہو؟

تو کوڑے کے ڈھیر میں سے جوابی سر تال گونجتے ہیں کہ
مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو
مجھے تم کبھی بھی اٹھا نہ سکو گے
نہ جانے کیوں مجھ کو یقیں ہو چلا ہے
جلانا بھی چاہو جلا نہ سکو گے

دنیا کے دوسرے شہروں میں کوڑے کے ڈبے کے ساتھ ری سائیکلنگ کے ڈبے بھی نصب کیے جاتے ہیں ہمارے مڈل کلاس لوگوں کو اگر آپ ری سائیکل والے ڈبے لگا کر بھی دیں تو ان کو یہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ بھائی یہ کون سی سائیکل کا ڈبہ ہے۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا ہم صابر ہیں بلکہ قناعت پسند بھی ہیں۔ اس کی مثال یوں تو ہر طرف بکھری پڑی ہیں لیکن ہماری آپ بیتی سنیے کہ کچھ عرصہ پہلے میری ایک لوڈ شیدنگ کی ڈسی ہوئی سہیلی نے بتایا کہ آئے دن مینٹینینس کے بہانے دو سے تین گھنٹے بجلی معطل رہتی ہے۔ لیکن وہ اس پر بھی چین کی بانسری بجا رہی تھی کہ بجلی کی عدم موجودگی سے زیادہ اپنی ساس نندوں کی موجودگی سے تنگ تھی۔

میں نے صد شکر ادا کیا کہ بھئی ہماری تو صرف ایک گھنٹہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے روز۔ اب سادگی پہ کون نہ قربان جائے اور پوچھے کہ یہ اطاعت ہے قناعت ہے کہ چاہت ہے فراز، ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھیں۔

اور تو اور پچھلے دنوں میں نے اپنے میاں سے بیگم فرمائشی چپاتی منگوائی۔ آدھے گھنٹے بعد تھکے ہوئے لیکن چپاتی کے ساتھ ہی لوٹے۔ پوچھنے پر بتایا تندور تک پہنچتے ہی موٹر سائیکل میں پٹرول ختم ہو چکا تھا جبکہ کل ہی سو ڈیڑھ سو کا ڈلوایا تھا اور دن میں تو وہ استعمال نہیں ہوتی۔ بس گلی میں کھڑی دھوپ میں کوئلہ کباب بنتی رہتی ہے۔ میاں نے خدشہ ظاہر کیا کہ یقیناً کسی نے پیٹرول چوری کیا ہے۔ ہم نے صورتحال سننے کے بعد جھٹ سے کہا شکر کریں پیٹرول ہی چوری ہوا بائیک نہیں! اور فی البدیہہ یہ کہنے دینے کے بعد ہم اپنی ہی روشن خیالی کو اکیس 21 توپوں کی سلامی پیش کرتے رہ گئے۔

کراچی کے مڈل کلاسیوں کو اتنا ترسایا گیا ہے کہ ہم نے تو اب امید سے رہنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ہاں مگر ہماری عورتیں ان تلخ حقائق سے قطع نظر اکثر امید سے رہتی ہیں کہ یہ ان کا واحد مشغلہ ہوتا ہے یا اکثر عورتوں کو کوئی اور ڈھنگ کی مصروفیت نہیں ملتی تو وہ اس کار خیر کو انجام دیتی ہیں کہ ویسے تو ہمارا کچھ ہونا نہیں ہے تو اللہ کی رحمتوں اور نعمتوں پر بھروسا کرلیں

خیر ساری باتیں ایک طرف لیکن آج کے دن کا ہمارا المیہ تاریخ کا انوکھا ترین ہے پوچھیں کیسے؟ کیونکہ الیکشن میں کراچی کے مڈل کلاسیوں کا دل ہوا میں ڈولتی پتنگ جیسا ہو رہا ہے جو نہ کٹ رہی ہے اور نہ اڑان بھر رہی ہے۔ دل ڈگمگا رہا ہے اور دماغ تبدیلی کا خواہاں ہے۔ ایسے میں اگر آپ اپنا ووٹ اس بار تبدیل کر رہے ہیں تو ایک بار یہ بھی سوچئے گا کہ ووٹ تبدیل کرنے سے آپ کو اور شہر قائد کو کیا فرق پڑے گا؟ اور صرف ووٹ بدلنے سے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا یا آپ کو اپنا آپ بھی بدلنا ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).