گدھے اور گائے کی سیاست


کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ ہمارے ملک کی سیاست کے بدخواہوں کو کرارا جواب دے، جو ایک گدھے کی موت کو ایشو بناکر ہمارے سیاسی جوش جنوں پر انگلیاں اٹھارہے ہیں۔ کوئی نہیں ہے جو اُنہیں ہندوستان کی گلیوں میں پڑی ہوئی وہ لاشیں دکھائے جو آئے دن گائے کے نام پہ گرائی جارہی ہیں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ دونوں واقعات کم و بیش ایک ہی وقت میں ہوئے۔ پاکستان میں ایک انسان کی وجہ سے ایک گدھا مارا گیا اور ہندوستان میں ایک گائے کی وجہ سے ایک انسان کو قتل کردیا گیا۔ ہمارے یہاں کونسا گدھا کیسے، کہاں اور کس وجہ سے مارا گیا اور کن لوگوں نے مارا۔ اس کی تفصیل آپ میں سے ہر کسی کو یقینا معلوم ہوگی۔ اور اگر نہیں معلوم تو رہنے دیجئے، کہ آپ کو نہ تو گدھوں میں دلچسپی ہے نہ ہی سیاست میں۔ دوسری جانب ہندوستانی واقعے کا بیان کچھ یوں ہے، کہ ہریانہ کا ایک مسلمان رگبیر اُس وقت کچھ ہندو شدت پسندوں کے نرغے میں آگیا، جب وہ مبینہ طور پر اسمگلنگ کے غرض سے ایک گائے کو ہنکارتے ہوئے راجستھان سے گزر رہا تھا۔ سنا ہے کہ شدت پسندوں کی فائرنگ کے بعد جب پولیس وہاں پہنچی تو خون میں لت پت رگبیر کو ہسپتال پہنچانے کے بجائے پہلے گائے کی ”رکشا“ کی گئی۔ اُسے گاﺅ شالا پہنچایا گیا۔ راستے میں دم سادھنے کے لئے سپاہیوں کو چائے کی ایک ایک پیالی بھی پلائی گئی پھر کہیں جاکر رگبیر کی باری آئی۔ جس نے تین گھنٹے بعد پولیس اسٹیشن پہنچ کر جان دیدی۔ اور پیچھے ایک بیوہ کی رکشا کے لئے 7 یتیم بچے چھوڑ گیا۔

ان دونوں واقعات کا ایک ساتھ چپکانے کا مقصد اپنے لوگوں کو تسلی دینا اور باہر کے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ بتانا ہے کہ ہمارا پاکستان ابھی تک مودی کا بے رحم ہندوستان نہیں بنا ہے، جہاں جانور کے لئے انسان کی جان لی جاتی ہے۔ یہاں کی سیاسی شدت پسندی ابھی تک جانوروں پہ ہی ہاتھ صاف کر رہی ہے۔ یہاں کی انسانیت نے گدھے کو اسپتال پہنچانے کے بجائے پہلے اُن انسانوں کی خاطر مدارت کی، اُن نوجوانوں کی تھکن مٹائی، پیاس بجھائی، غصے سے نکلنے والی وہ جذباتی جھاگ صاف کی، جو اس اشتعال کے دوران اُن کے منہ سے نکلی تھی۔ البتہ گدھے کی ناک سے نکلنے والے خون کو کافی دیر بعد کچھ ڈرے سہمے جانور دوست نوجوان صاف کرنے کے لئے پہنچے، جو تادم مرگ اُس گدھے کی ناک سے جاری رہا۔

یقینا اُن نوجوانوں نے اپنے تئیں قیام پاکستان کے اس جواز میں اپنا حصہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی کہ ہندو اور مسلمان دو جداگانہ قومیں ہیں، جن کی بودوباش، رہن سہن اور تہذیبی اقدار الگ ہیں۔ 70سال بعد بھی ان نوجوانوں کی جانب سے دوسری جانب اس جداگانہ قوم کو ایک اور پیغام گیا ہوگا کہ ہم ایک جیسے نہیں ہیں۔ تم جانور پرست ہو اور ہم خدا پرست۔

باقی رہا مغربی عوام کا تعلق، تو اُنہیں چپ کروانے کے لئے اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ تم جس طرح ” بُل فائٹنگ “ کے مزے لیتے ہو، ہم تیسری دنیا کے غریب ملکوں کے نوجوان گدھوں سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ پہلی بار ایک میٹروپولیٹن شہر کی سڑکوں پر کچھ بچوں نے دل بہلا لیا تو تمہیں نظر آگیا۔ ورنہ ہمارے گاﺅں دیہاتوں میں تو یہ دل لگی روز مرہ کا معمول ہے۔ فٹبال، کرکٹ اور دوسرے کھیلوں کے گراﺅنڈ تو ہم غریبوں کے پاس ہوتے نہیں، کیونکہ اُن کا پیسہ یا تو ہمارے کچھ لوگوں نے تمہارے بینکوں میں جمع کر رکھا ہے، یا پھر ہمارے خلاف تمہاری سازشوں کو روکنے کے لئے سیسہ پلائی دیواریں بنانے میں خرچ ہورہا ہے۔ باقی ہماری دھول اڑاتی گلیوں اور میدانوں میں یہ گدھے اور کتے ہی ہوتے ہیں، جن سے اٹھکیلیاں کر کے ہمارے بچے اپنا کھیل کود کرتے ہیں۔ اور کھیل کود کے دوران مرنے مارنے کا ایک آدھ واقعہ تو تمہاری طرف بھی ہوتا ہے، پھر ہم ہی کیوں زیر عتاب؟

اور اگر عتاب کی بات کرتے ہو تو ایک گدھے کی موت پر جانوروں کے حقوق کا باجہ بجانے والو سنو، فلسطین سے لے کر کشمیر تک کے انسانوں کے ساتھ جو کھلواڑ ہورہا ہے، اُس پر تو تم ایک جانور کی موت جتنا واویلا بھی نہیں مچاتے۔

خبردار جو ہماری سیاست اور طرز سیاست میں دخل دینے کی کوشش کی تم نے ! تم ہمیں طعنہ دیتے ہو کہ نفرت اور غصے اور اشتعال پہ ٹھہرائی جانے والی ہماری انتخابی مہم کا سارا بوجھ گدھو ں نے اٹھا رکھا ہے، تو تم ایک نگاہ اٹھ اکر ذرا مودی کی ذلالت کی طرف تو دیکھو، جو گائے کے ذریعے ہل جوت کر ہندوستان کی زمین ہموار کر رہا ہے۔ تاکہ سیکولرازم کی قبر بنا کر مذہبی شدت پسندی کی ایسی فصل تیار کر سکے، جس کی دیگیں چڑھا کر وہ آنے والے انتخابات میں ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرے۔

البتہ ساتھ ہی ساتھ سرگوشی میں ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ ان نوجوانوں کا غصہ اور اشتعال ان اصلی گدھوں تک ہی محدود رہے۔ یہ قدرے نامعقول سی دعا ہے، مگر ملک کی سلامتی اور امن و امان کے لئے ضروری ہے، کیونکہ اگر انسانوں کو گدھا سمجھ کر اس اشتعال کی آگ نکالی گئی، تو اس کے نتائج بہت برے نکلیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).