ابو کے جوتے پہن کر انتخاب لڑنا



آج ناجانے کیوں زمانوں کے بعد ابو کی مری بگٹی چپل بار بار یاد آ رہی ہے۔
جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے علاقائی اشیاء بھی مخصوص علاقوں کی محتاج نہیں رہی ہیں۔ ایک زمانے تک جو چیز جہان کی ہوتی وہ اس علاقے کی خصوصی سوغات کی طور پہ لی جاتی، اور مخصوص جگہ کے علاؤہ کہیں اور نہ ملتی۔
ہمارے ابو کیونکہ پی ٹی وی میں نیوز پروڈیوسر تھے اس لیے وہ پاکستان کے کونے کھدروں میں جاتے اور واپسی پہ کچھ نہ کچھ سوغات اپنے ساتھ لاتے، اندرون سندھ ہوے تو کھانے کی سوغات اور اجرک ، بلوچستان میں پوسٹنگ کے دوران بھی وہ اسی طرح ان علاقوں کی خصوصی چیزیں جمع کیا کرتے۔ ایک بار انکا ڈیرو بگٹی جانا ہوا کیونکہ اس زمانے میں وہاں کے راستے آج کی طرح کے نہیں تھے اس لیے کھانے کی کوئی شے لانا مشکل ہوتا، تو وہ وہاں کی خاص مری بگٹی چپل اپنے لیے لے آئے ۔ وہ چپل بہت ہی خاص تھی میری پیدائش سے پانچ سال پہلے وہ خریدیں گئ ، کافی عرصہ استعمال سے بھی اسے کچھ نہ ہوا تو ابو نے اکتا کے اسکا استمال چھوڑ دیا، مجھے وہ اپنے گھر کی چھت پہ ایک کونے میں پڑی ہوئی یاد ہے۔ وہ صرف ایک چپل نہ تھی وہ ہمارے گھر میں دھشت اور طاقت کا استعارہ تھی۔ جب ہمارے بڑے بہن بھائی اشتیاق احمد کے جاسوسی ناول پڑھنے کے بعد فرضی کیمپنگ کیا کرتے تو بحثیت اینٹ اس چپل کو اپنے ٹینٹ کی تعمیر میں لگاتے۔
کھیل کے اختتام پر عام طور پے لڑائی ہوا کرتی تو آخری اور سب سے زیادہ خوفناک دھمکی کے طور پے بھی وہی چپل آتی، دھمکی کچھہ یوں ہوا کرتی ” زیادہ بکواس مت کرو ، میں ابو کی مری بگٹی چپل تمہارے منہ پے رسید کر دوں گا” عام طور پے اس دھمکی کے بعد لڑائی ختم ہو جاتی۔
بچوں کو اپنے پاؤں سے بڑی چپل ہمیشہ متاثر کرتی ہے، چھوٹے بچے اپنے امی ابو کے جوتے چپل پہن کہ چلتے ہیں، ابو کی اس مری بگٹی چپل کو کئ بار میں نے پہن کہ چلنے کی کوشش کی مگر مجال ہے جو ایک قدم سے آگے چلا جاتا۔ یوں لگتا پیرؤں کے ساتھ پتھر بندھے ہوئے ہیں۔ بہرحال مختصراً یہ کہ ہر بچے کا پیدائشی شوق ابو کے جوتے پہن کہ اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنا ہوتا اور سب سے بھاری بھرکم دھمکی بھی وہی جوتے یا چپل ہوتے ہیں۔
آج کا دن تاریخی ہے آج الیکشن کا دن ہے۔
اس برس ووٹ ڈالنے کا جذبہ بہت بھرپور رہا، ہزاروں افراد نے اپنے انگوٹھوں کی تصاویر سوشل میڈیا پہ نشر کی ۔ زیادہ تر پرجوش افراد پی ٹی آئی کے سپورٹرز ہیں۔ لیکن لیڈر کے علاؤہ سب ہی پرانے لوٹے وہ بھی اتنے گھسے پٹے کے کسی کی ٹونٹی غائب اور کسی کا پیندا۔ جیسے غریب کے گھر کی شادی میں پیسے والی خواتین پرانی ساڑھی نئ چمکیلی پنی میں اچھے سے لپیٹ کے تحفے میں دیا کرتی ہیں ، اسی طرح عمران خان نے بھی ان گھسے پٹے لوٹوں کو نئی اور اچھی پیکنگ میں لپیٹ کے تبدیلی کے نام سے پیش کیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر قیادت اچھی ہو تو پیادہ بھی کام آ جاتا ہے، لیکن کھیل کا مزہ تو مقابلے میں ہے نا؟
یہ کیا کہ دونوں جانب سے ابو ہی باری لے لیں ؟
بس فینسی ڈریس شو کی طرح، کبھی کالے رنگ، کبھی سفید رنگ، کبھی کلین شیو، کبھی داڈھی لگا کے لیکن لوگ وہی۔
آج تبدیلی آنے والی ہے۔ شاید اگلے پانچ سال کے لیے آجاے ۔ لیکن خوشی تو اس وقت ہوتی جب وہ اپنے سائز کے جوتے پہن کے میدان میں اترتے۔ یہ کیا کے ابو کے بڑے اور مضبوط بوٹ پہن کے ، اور اگر یہ جوتے بھی ابو کی مری بگٹی چپل کی طرح ہوئے تو کبھی اینٹ کے طور پے لگائے جائیں گے کبھی دھمکی کے طور پے استعمال ہوا کریں گے۔
عزیز قارئین!
لیکن یاد رہے کے بھاری جوتے پہن کے قدم اٹھایا نہیں جاتا۔ بہت زور لگایا جانے پہ کبھی پاؤں گھوم جاتے ہیں کبھی منہ کے بل زمین پہ گر جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).