دسواں خواب نامہ۔۔۔ آسمانی باپ کی بیٹی۔۔ دھرتی ماں کا بیٹا
15 مئی 2018
درویش رابعہ کی خدمت میں آداب عرض کرتا ہے۔
درویش نے رابعہ کے خط میں عالمِ ارواح کی باتیں پڑھیں تو اسے یوں لگا جیسے رابعہ آسمانی باپ کی بیٹی ہو اور درویش دھرتی ماں کا بیٹا۔ درویش کو محسوس ہوا جیسے رابعہ کا اپنے آسمانی باپ کے علاوہ اپنے زمینی باپ سے بھی رشتہ بہت قریبی‘ گنجلک اور گھمبیر ہو شاید اسی لیے جب بچپن میں اس کا زمینی باپ کام کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا تھا تو وہ separation anxiety کا شکار ہو گئی تھی۔ یہ تو اچھا ہوا کسی مسیحا نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے زمینی باپ کو ہر روز خط لکھے۔ ان خطوط نے نہ صرف نفسیاتی مسئلہ حل کیا بلکہ رابعہ کو لکھنے کی ترغیب بھی دی۔ رابعہ کے خط نے پہلے ڈائری اور پھر افسانے کا روپ دھارا۔ رابعہ کی کہانی پڑھ کر درویش کا رابعہ کی تخلیقی شخصیت سے بھرپور تعارف ہوا۔
درویش کو یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ رابعہ کو اس کے خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کرنے کی اجازت نہ دی گئی اور اسے اپنا ایک شعر یاد آیا
اس درجہ روایات کی دیواریں اٹھائیں
نسلوں سے کسی شخص نے باہر نہیں دیکھا
یہ تو رابعہ کی خوش قسمتی تھی کہ اسے اصغر ندیم سید‘ امجد اسلام امجد‘منصورہ احمد اور احمد ندیم قاسمی جیسے ادیب اور اساتذہ ملے جنہوں نے اس کے اندر چھپے لکھاری کی حوصلہ افزائی کی۔
درویش کو رابعہ کا خط پڑھ کر وہ واقعہ یاد آیا جب وہ خیبر میڈیکل کالج کا طالب علم تھا اور اس نے طلبا کے مشاعرے میں پہلی بار حصہ لیا تھا۔ اس مشاعرے میں احمد ندیم قاسمی‘ احمد فراز اور محسن احسان جج تھے۔ جب درویش کو سٹیج پر بلایا گیا تو ہال خاموش تھا اس نے نظم پڑھی ہال خاموش رہا وہ نظم پڑھ کر واپس آ گیا ہال پھر بھی خاموش رہا لیکن جب اسے اول انعام میں وینس کا مجسمہ دیا گیا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
درویش کی اس پہلی نظم کا نام ’سرخ دائرہ‘ تھا۔ جو وہ رابعہ کو سنانا چاہتا ہے
آج سترہ ہوئی
اور میں سوچ میں پڑ گئی
سینکڑوں وسوسے سانپ بن کر مرے ذہن کو آج ڈستے رہے
میں پریشان و حیران تھی
کیا میں مانوں اسے
یا نہ مانوں اسے
صبح سے کچھ عجب سی تذبذب کی تھی کیفیت
اور میں بہکی بہکی سی سوچوں میں گم
اپنے گھر سارا دن
سخت جھنجھلائی پھرتی رہی
اور پھر
تیسرے پہر کمرے میں داخل ہوئی
کانپتے ہاتھ سے
سالِ نو کے کلنڈر کا جب اک ورق
میں نے الٹا تو دیکھا
گزشتہ مہینے کی تیرہ ہی تاریخ کو
سرخ اک دائرہ تھا احاطہ کیے
لیکن اس مرتبہ
جانے کیا ہو گیا
اک عجب سی خلش
اور اک کپکپی خوف کی
میرے سارے بدن میں سرایت ہوئی
اور پھر میں تو سوچا ہی کی
آ ج سترہ ہوئی
نظم لکھنے کے بعد درویش کو احساس ہوا کہ وہ نظم ایک عورت کی لکھی ہوئی تھی۔ اسے اس دن احساس ہوا کہ اس کے اندر بھی ایک عورت چھپی ہوئی ہے۔ شاید اسی لیے اسکی عورتوں سے دوستی آسانی سے ہو جاتی ہے۔ بعض دوست تو اسے سہیل کہنے کی بجائے سہیلی کہتی ہیں۔
رابعہ کا خط پڑھ کر درویش کو ’سنگِ میل‘ کے دفتر میں اصغر ندیم سید سے ملاقات بھی یاد آ گئی جس میں اصغر ندیم سید نے درویش کو گورنمنٹ کالج میں نفسیات کے موضوع پر لیکچر دینے کے لیے دعوت دی تھی۔ درویش جب لیکچر دینے گیا تھا تو اسے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی تھی کہ کلاس میں لڑکوں سے لڑکیوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔درویش کے ذہن میں لاہور کی اصغر ندیم سید‘ کشور ناہید‘ زاہد ڈار اور منیر نیازی سے بہت سی ملاقاتوں کی بہت سی حسین یادیں محفوظ ہیں۔۔
درویش نے جب رابعہ کا یہ خیال پڑھا کہ شادی ایک ’حادثہ‘ ہے تو اس نے سوچا کہ رابعہ سے پوچھے کہ اس کا محبت اور شادی کے بارے میں کیا نقطہِ نظر ہے۔ کیا رابعہ کو کسی سے یا کسی کو رابعہ سے محبت ہوئی تھی؟ کیا کبھی رابعہ کے دل میں شادی کرنے اور ماں بننے کی خواہش نے انگڑائی لی تھی؟
درویش نے تو کبھی بھی باپ بننے یا خاندان بنانے کا خواب نہیں دیکھا۔ اس نے ہمیشہ اپنے ادبی اور تخلیقی دوستوں کو ہی family of the heart سمجھا جس میں ہر سال ایک دوست کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ درویش کے دوستوں کے اس خاندان میں سالِ نو کا اضافہ رابعہ ہے جس سے وہ بہت خوش ہے۔
درویش کو ایک سیمینار میں جانے کی تیاری کرنی ہے اس لیے وہ رابعہ سے اجازت چاہتا ہے۔
- ۲۸واں خواب نامہ: دولت، شہرت، عورت - 15/09/2018
- 27 واں خواب نامہ۔۔۔ زندگی: مٹھی میں بند ریت - 12/09/2018
- 26 واں خواب نامہ۔۔۔ دیرینہ خواب - 10/09/2018
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).