گلگت بلتستان میں سیاسی بالغ نظری کا فقدان



2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بادل نخواستہ گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ اس فیصلے کے دور رس نتائج سامنے نہ آ سکے۔ کیوں کہ اس اقدام کے پسِ پردہ صرف یک جہتی کا پہلو کار فرما تھا، جس کو ”صدارتی حکم نامہ“ کے نام سے متعارف کرایا گیا اور یہ پہلو اس قدر کم زور تھا کہ بعد میں آنے والے صدر کی یک جنبش قلم ہی اِس پوری عمارت کو گرا سکتی تھی لیکن ہم ممنون حسین صاحب کے”شکرگزار“ ہیں کہ انھوں نے کسی بھی قسم کی دیومالائی اور طاقت والی حرکت سے اجتناب کیا۔ ہو سکتا ہے کہ اربابِ حل و عقد نے اُن کے علم میں نہ لایا ہو کہ پاکستان کے پانچ صوبے ہیں۔ سابق چار صوبوں کے علاوہ گلگت بلتستان کے نام سے ایک اور صوبہ قائم کیا گیا ہے۔ جیسا کہ صدرِ محترم  نے ایک دفعہ گلگت بلتستان کی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بار بار ”بلوچستان“ کا نام لیا تھا۔

ہمارا خیال ہے کہ قبلہ صدرِ محترم کے علم میں آنے تک (ن) لیگی حکومت کا بستر گول ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں صرف تجربات ہی کیے۔ عمل کی توفیق اُن کو قطعاً نہ ہوئی۔ حالانکہ اگر وفاق جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی چاہتا تو صدارتی حکم نامہ کی دیوار گرا کر آئینی عمارت قائم کر سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اُن نے بعینہ تھالی میں رکھ کر (ن) لیگ کے حوالے کر دیا اور موجودہ حکومت بھی پرانی روش پر شدّ و مد کے ساتھ عمل پیرا ہے۔ البتہ اس حکومت میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

یہاں اعلامیے بہت جاری ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اُن پر عمل در آمد کا موقع ابھی نہیں آیا یا پیدا نہیں کیا گیا۔ مانا کہ پیپلز پارٹی والوں نے بھی کئی ”دبنگ“ قسم کے اعلامیہ جاری کیے ہیں۔ خاص طور پر مجھے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا وہ اعلان بار بار یاد آتا ہے جس میں انہوں نے اسکردو میڈیکل کالج کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ میں آج تک انتظار میں ہوں کہ دیکھیے کالج بن بھی جاتا ہے یا خالی خولی اعلان تھا، ٹوپی ڈراما تھا یا عوام کے ساتھ ”سلسلہ وار“ مذاق تھا۔ لیکن موجودہ حکومت اعلامیہ جاری کرنے میں دس قدم آگے ہے۔ یہاں سلسلہ کلام کے دو اہم جملے معروف ہیں:
(اول) ہم کریں گے۔
(دوم) ہم نے کیا۔

جیسا کہ آج کے اخبارات کی شہ سرخیوں کی طرف نظر دوڑائیے جا بجا ان کے دعوے نظر آئیں گے:
⇦ لینڈ رِکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے گا۔
⇦ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے گا۔
⇦ قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے گی۔
⇦ عوامی نوعیت کے منصوبوں پر تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔
⇦ عوام کی سفری سہولیات کے لیے اربن ٹرانسپورٹ متعارف کرائی جائے گی۔

ان روایتی دعووں کو جب ہم دیکھتے ہیں اور پھر اخبارات کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں تو واضح تضاد نظر آتا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے کیا یا ہم کر چکے ہیں تو اُسی دن اُسی اخبار میں اس طرح کی خبریں بھی شایع ہوتی ہیں:
☜ ”گلگت میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 16 گھنٹے تک پہنچ گیا“۔
☜ ”حکومتی دعوے غلط ثابت، ہنزہ میں بدترین لوڈشیڈنگ سے عوام رُل گئے“۔
☜ ”ملکیتی زمینوں پر کسی بھی صورت تعمیرات نہیں ہونے دیں گے“۔ عمائدین چھومک
☜ ”گلگت کا قدیم سردار کوہل گندگی اور مٹی سے بھر گیا“۔

ملاحظہ کیا آپ نے۔ یہاں دعوے تو بہت ہوتے ہیں لیکن عمل ندارد۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ اعلان سے اعلان تک کا یہ سفر یونھی چلتا رہے گا جب تک کہ ہم اور آپ اعلان پر عمل در آمد کرانے کی سعی نہ کریں۔

اب آخری بات۔ جیسا کہ مرکز میں پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ ہی گئی ہے تو یہاں گلگت بلتستان میں بھی لوٹا گری کا بازار بھی گرم ہے۔ ہمارے ہاں یہ بد ترین روش ہے کہ مرکز میں جس جماعت کی حکومت بنتی ہے فوراً سیاسی وفاداریوں کا موسم بھی شروع ہوتا ہے۔ گویا نظریات کی اہمیت نہیں بلکہ مفادات کو ترجیح سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں خطہ گلگت بلتستان میں سیاسی بالغ نظری کا رجحان کیوں کر پنپے گا؟ اور لوگ سیاسی بالغ نظری کی اہمیت کو کب سمجھیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).