اردو زبان و ادب کا مقامی بیانیہ



پروفیسر حسن عسکری مرحوم نے اردو ادب کی موت کا جو نعرہ مستانہ بلند کیا تھا، اس کی وجہ تسمیہ یہی تھی کہ اردو میں مقامی عناصر کی عدم موجودی نے کئی لوگوں کو اردو کے مستقبل کے حوالے سے تشویش میں مبتلا کردیا تھا اور آج انگریزی کے زیر اثر پروان چڑھتا ہمارا معاشرہ اردو کی عدم مرکزیت سمیت ادب و شعر کی ابتر حالت کا بھی ذمہ دار ہے۔

اردو کی ابتدا کے حوالے سے بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ اردو دہلی کی مقامی بولیوں و آبادی کے اطراف پروان چڑھی اور یہی نظریہ اب تک اردو کی ابتدا کے حوالے سے قابل قبول بھی ہے؛ جب کہ اس سے پہلے دکن، پنجاب، سندھ اور لشکری سمیت دیگر نظریات گردش زمانہ کا شکار ہو گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ اردو کو مقامی بیانیہ کیوں میسر نہ آ سکا؟ کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اردو کو کبھی غیر ملکی گرفت مضبوط رکھنے تو کبھی غیر ملکی بیانیے کو پروان چڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا، جس کی مثا ل یہ ہے کہ ترقی پسندی کا نعرہ اپنی تحریک سمیت ہندوستان میں مقبول ہوا لیکن اپنی جگہ برقرار رکھنے میں ناکام اس لیے ہو گیا کہ اس کو اردو کی مقامی ضروریات سمیت بیانیے سے ہم آہنگ نہیں کیا جا سکا اور آج فسادات سمیت دیگر غالب موضوعات کی تفہیم رکھنے والے ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔

آزادی کے بعد اردو کو پاکستان کی مرکزی زبان مانا گیا، کیوں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا، مگر اس کو نافذ کرنے کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، الا یہ کہ اردو کی مدد سے تمام قومیتوں کو قریب لایا جاتا، اردو اور بنگالی کا بکھیڑا کھڑا کر کے خطے کی مرکزی زبان کو ایک غاصب زبان کے روپ میں پیش کیا گیا اور اس طرح ہندوستان کا لسانی جائزہ جو گرئیر سن نے مرتب کیا تھا اس کی روایت کو برقرار رکھا گیا، جس کی وجہ سے زبانوں میں تقسیم کا عنصر بڑھا، اور نوکر شاہی سمیت ہر اہم جگہ پر انگریزی کا کردار بڑھتا گیا اور اسی لیے اردو لکھی، پڑھی اور بولی تو جاتی رہی مگر اسے کبھی بھی قرار واقعی اہمیت نہ مل سکی۔

یہاں اردو بولنے والوں کی کوتاہی بھی زیر بحث لانی ہو گی کہ انھوں نے اردو کی اہمیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اس کو ہمیشہ ہی رابطے کی زبان سمجھا، جب کہ اردو تو وہ زبان تھی جو جمہوریت کو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ خطے کی تہذیبی روایت کو بھی مضبوط بنا سکتی تھی اور کوئی بعید نہیں تھا کہ جس طرح لاطینی بیانیے سے نکل کر انگریزی تہذیب و قوم کو عروج حاصل ہوا، ایسا ہی درخشاں مستقبل اردو کا بھی مقدر ٹھہرتا، مگر اردو سے جڑا ہر فرد یہ بیانیہ نہ سمجھ سکا اور اس میں بلا مبالغہ ہر بڑے ادیب اور سکہ بند ناقد کا نام لیا جا سکتا ہے جو اردو کو انگریزی کے سہارے آگے بڑھانے کی کوشش کرتا رہا اور یوں انگریزی کو اس خطے میں قدم جمانے کا ایسا موقع میسر آیا جس سے اس زرخیز خطے کے لوگوں کو اب تک کالے انگریز کی غلامی کرنا پڑ رہی ہے۔

اردو کے مقامی بیانیے سے ہم آہنگی کا مطلب یہ ہے کہ اردو کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس کو نافذ کرنے کے حوالے سے اقدامات بروئےکار لائے جائیں؛ کیوں کہ اردو نہ تو رابطے کی زبان ہے نہ ہی محض ادب و شعر کی، بلکہ اردو میں فلسفے سمیت تاریخ، سائنس، منطق اور نفسیات کے علوم بھی ادا کیے جاتے رہے ہیں اور دکن کی دارالترجمہ کی کاوشوں سمیت دہلی کالج کی خدمات کس کو یاد نہیں۔ یہاں اس بات کا بھی مد نظر رکھا جانا ضروری ہوگا کہ اردو کے سہارے ہی پاکستان کی دیگر زبانیں ترقی کر سکتی ہیں اور اردو ہی اس خطے کے لوگوں کو اپنے وسائل کا صہیح استعمال کرنے کے قابل بنا سکتی ہے؛ کیوں کہ اگر فارسی کو دیس نکالا نہ ملتا تو مغل حکمران کبھی بھی اردو کے زیر سایہ پناہ نہ لیتے اور نہ ہی انگریز حکومت زبان کا قضیہ کھڑا کرتی، لہذا جمہور کو جمہوریت کی زبان عطا کرنا ہم سب کا فرض بھی ہے اور اردو کی دائمی خدمت بھی۔

منیب الحسن رضا جامعہ کراچی سے اردو ادب میں طلائی تمغا حاصل کر چکے ہیں۔ نجی میڈیا چینل سے بھی منسلک ہیں، جب کہ ادبی، سیاسی و سماجی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).