آخر چیف صاحب کو تیرہ لاکھ تنخواہ کیوں نہیں دیتے؟


پنجاب میں مختلف اداروں کے چیف ایگزیکٹو ”تیرہ، تیرہ“ لاکھ روپے تنخواہوں کی صورت لے کر اگر اچھا پرفارم نہیں کر سکے تو سوال تو یہ ہے کہ کیا معمول کی تنخواہیں لینے والے ان کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز کیسے بہتر پر فارم کریں گے؟

کیا وہ لاکھوں کمانے کے چکر میں کرپشن کرنے کے حیلے بہانے ڈھونڈھنا شروع نہیں کر دیں گے جب کہ ان کے بجٹ اربوں روپے کے ہوں؟

چیف صاحب آپ کرپشن کا دروازہ کھول رہیں ہیں یا بند کر رہے ہیں؟
کیا آپ اپنے زاتی میلان کی رو میں کمپنیوں کے راستے میں اتنے کانٹے بکھیر دیں گے کہ آنے والی حکومت جو کہ متوقع طور پر پی ٹی آئی کی ہے ان کے لیے پرفارم کرنا ہی مشکل ہو جائے۔

چیف صاحب آپ کرپشن ختم نہیں کر رہے، کرپشن کے نام پر آنے والی حکومت کے لیے دشواریاں پیدا کر رہے ہیں۔ جب چیف صاحب ان کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جائیں گے تو کیا آنے والے دنوں میں وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ نہیں جائیں گے کہ خوف کی فضا میں کون کام کرنے کے لیے تیار ہو گا، وہ یہ سوچیں گے کہ اگر کوئی بھی کام کیا تو ان کی باز پرس ہی نہیں ہو گی بلکہ ذلیل بھی ہونا پڑے گا اور میڈیا ٹرائل الگ سے۔ یہ سیاسی امور اور انتظامی فیصلے ہیں جن کا عدالت سے کوئی سروکار نہیں۔

اگر چیف جسٹس کی تنخواہ تیرہ لاکھ نہیں ہے جس کا کہ وہ بار بار کہ چکے، یہ طے کرنا بھی حکومت کا کام ہے کہ چیف جسٹس کو کتنی تنخواہ دینا ہے، اس کا تعین وہ خود سے نہیں کر سکتے اگر پارلیمنٹ یہ طے کر دیتی ہے کہ چیف جسٹس کو تیرہ لاکھ روپے تنخواہ دی جائے گی تو کیا پھر بھی چیف جسٹس صاحب سو موٹو ایکشن لیں گے کہ چیف جسٹس کو اتنی تنخواہ کیوں دی جا رہی ہے اور کیا ان کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ اسے ختم کر دیں؟ جب کہ برطانوی قانونی روایت کے مطابق اگر پارلیمنٹ یہ طے کر دیتی ہے کہ آیندہ مردوں کو بھی عورت لکھا جائے گا تو یہ قانونی طور پر درست تصور ہو گا عین اسی طرح جیسے عورتوں اور مردوں کو مشترک طور پر مرد ہی لکھا جاتا ہے اور مردوں کے اس معاشرے میں اسے قبول بھی کیا جاتا ہے۔

اگر آپ پروفیشنل لوگوں کو فیلڈ ریٹ کے مطابق تنخواہیں نہیں دیں گے تو پرائیویٹ سیکٹر سے کون شخص آ کر کام کرنے کو تیار ہو گا؟ اسی طرح اگر گورنمنٹ سیکٹر میں ایسے لوگ ہیں جو اپنی اہلیت ثابت کرتے ہیں تو ان کو کیوں اجازت نہ دی جائے کہ وہ ان کمپنیوں کو ہیڈ کر سکیں؟

اگر وہ نا اہل ہیں اور ان کی پر فارمینس کو چیک نہیں کیا جاتا تو یقیناً یہ جرم ہے۔ اگر اسد عمر جیسا قابل شخص جو پرائیویٹ سیکٹر میں ہائیلی پیڈ تھا، کیا اس جیسے قابل لوگ ان حالات میں صرف چند ہزار روپے تنخواہ لے کر قومی فلاح کے نام پر کام کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟

اگر ہم غیر ممالک سے پروفیشنلز کو پاکستان لانا چاہتے ہیں تو کیا وہ ان نظائر اور حالات میں پاکستان میں آ کر کام کرنے کو تیار ہوں گے اور اصل سوال تو یہ یے کہ آخر پاکستان سے یہ برین ڈرین ہو ہی کیوں رہا ہے؟ پاکستان کے یہ ذہین ترین سپوت پاکستان سے باہر کیوں کام کر رہیں ہیں کیا وہاں کی لینڈ اسکیپ زیادہ خوب صورت ہے جو انھیں اپنی طرف کھنچتی ہے؟

اس لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ دفعہ 3/184 کی بڑھتی ہوئی تجاوزات پر بند باندھا جائے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ باڑ ہی گھر کو کھانا شروع ہو جائے۔ اپ تنخواہوں کے رِکارڈ نہیں ان کے پرفارمینس کا رِکارڈ چیک کریں۔ تفتیش کے ادارے موجود ہیں ان اداروں کی باز پرس کریں کہ وہ کیوں پرفارم نہیں کر رہے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کیوں ناکام ہو رہے ہیں۔ آپ ان کو تو پوچھ نہیں رہے، روز بروز حکومت کا ناطقہ بند کر رہے ہیں۔ یہ حکومت کا کام ہے، اسے حکومت پر چھوڑ دینا مناسب ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).