ہمارا تعلیمی نصاب


”سر! یہ اتنے سارے لوگ کون ہیں؟ اور زور زور سے کیا کہہ رہے ہیں؟ “
”اور وہ جو بینر انھوں نے اٹھایا ہے دھاندلی دھاندلی“
”نبیل، شارق!کھڑکی بند کرو۔ سب بچے اپنی کتابیں کھولیں۔ آج ہم تحریکِ پاکستان کے بارے میں پڑھیں گے۔ “
کھڑکی بند ہوگئی، جس کے اُس طرف الیکشن دھاندلی کے خلاف مظاہرہ ہورہا تھا اور اِس طرف کلاس روم میں حال کی بابت سوال اٹھاتے بچے ماضی کا سبق پڑھنے لگے۔

ہم نے اپنی درس گاہوں کے دریچے اوردروازے حال کے لیے بند کر رکھے ہیں۔ ایساکیوں ہے۔ تاریخ کا جاننا ضروری ہے، ماضی کی آگاہی لازمی ہے، مگر“بنتی تاریخ“اور نظر کے سامنے سے گزرتے حالات سے بچوں کو آگاہ کرنا کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں؟ کچی عمر کے ناپختہ ذہن آنکھوں میں ابھرتے مناظر، سامنے ہوتے واقعات کے بارے میں کیا، کیوں اور کیسے، جیسے سوال اٹھاتے ہیں، گلی محلے، نکڑ اور چوک پر ان سوالات کے مختلف اور متضاد جواب ملتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز پر لفظوں کی جنگ پختہ ذہنوں کو بھی خلفشار میں مبتلا کردیتی ہے تو کچے ذہنوں کے استفسار کا کیا جواب دے گی۔ ایسے میں اگر دہشت اور وحشت کا کوئی ہرکارہ، ”پاکستان نہیں بننا چاہیے تھا“ کی بیمار سوچ کا حامل کوئی فرد یا اسلام سے بے زار کوئی گروہ معصوم ذہن کے سوال کو ”تسلی بخش“ جواب دے دے تو یہ ذہن اسی سوچ کا اسیر ہوجاتا ہے۔

درس گاہ ہی وہ جگہ ہے اور نصاب ہی وہ دستاویز، جس کے ذریعے حالاتِ حاضرہ سے واقف کرتے اور حقائق بتاتے ہوئے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی دہشت گردی ہو، پاکستانی میں جمہوریت کا سفر ہو یا فوجی آمروں کے فیصلے، جیسے مسئلے پر نسلِ نو کی فکر کو ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔

لیکن افسوس ہماری نصابی کتب میں جو چیزیں شامل ہیں، ان میں سے اکثر کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ سائنس کی دنیا کو لیا جائے تو ہم گراموفون سے آگے نہیں بڑھ پائے، ہمارا نصاب انٹرنیٹ، ٹیبلٹ پی سی جیسی جدید ایجادات کے تذکرے سے خالی ہے، جب کہ آج بچہ بچہ انٹرنیٹ استعمال کر رہا ہے اور کئی جدید ایجادات ننھے ہاتھوں کا کھلونا بن چکی ہیں۔ ہم روشنی کے خط مستقیم میں سفر کی بات کر رہے ہیں، جب کہ چاند پر بستیاں بسانے کا خواب تعبیر پانے کو ہے۔ سائنس کے کتنے ہی انکشافات اور نئے دریافت شدہ حقائق نصابی کتب کا حصہ نہیں بن سکے ہیں۔ مختلف نوعیت کے تعلیمی ادارے ہیں جن میں بڑا انگلش میڈیم اسکول، چھوٹا انگلش میڈیم اسکول، سرکاری اسکول، نیم سرکاری اسکول، دینی جمع انگلش میڈیم اسکول اور دینی درسگاہیں اور یہ سارے اسکول اپنی اپنی مرضی کا نصاب پڑھا رہے ہیں تمام اسکولز کی درسی کتب کا معیار مختلف ہے۔ شاز ہی کسی کتاب میں ہمیں کسی نئی ٹیکنالوجی کا ذکر مل جاتا ہے جبکہ ننانوے فیصد کتب نئے علوم سے کے تعارف سے خالی ہیں۔

شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے اور گاڑیاں چلانے کا تجربہ عام ہے، مگر چند تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کتب کے علاوہ اس کا تذکرہ ہمیں کہیں نہیں ملتا خاص کر سرکاری تعلیمی اداروں کی کتب میں۔ فزکس اور کیمسٹری کی دنیاؤں میں ہونے والے تجربات نئے فارمولے وجود میں لاچکے ہیں، جن سے ہمارا طالب علم ناواقف ہے۔ میں نے 1999 میں بایولوجی کی جو کتاب پڑھی تھی وہ آج بھی ہمارے نصاب کا حصہ ہے، جب کہ آج بائیولوجی کی دنیا میں کتنی ہی حقیقتیں سامنے آچکی ہیں۔

محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان، انگریز راج، تحریک پاکستان سمیت عظیم شخصیات اور اہم ترین تاریخی واقعات کا ذکر اپنی جگہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اپنی قومی تاریخ کا مطالعہ ہمیں اپنی جڑوں سے آشنا کرتا ہے، اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع دیتا ہے اور قابل فخر کارناموں پر ناز احساس کمتری سے بچاتا ہے۔ لیکن آنے والی نسل کو ماضی میں گُم اور حال سے بے خبر رکھنا کہاں کی دانش مندی ہے؟

مگر افسوس کے ہمارے اسکولوں کا نصاب، عمومی طور پر، اوراق ماضی کے سوا کچھ نہیں۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ دسویں جماعت تک کے نصاب میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ہمارے ملک میں وقوع پذیر ہونے والے کسی بھی اہم تاریخی واقعے کا ذکر نہیں ہے۔ چند انگریزی اسکولوں کے نصاب میں پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا تذکرہ ملتا ہے، مگر دیگر اسکولوں کی نصابی کتب میں ہمارے ملک کا یہ قابل فخر واقعہ بھی شامل نہیں۔ گلگت بلستان سمیت شمالی علاقہ جات کو آئینی حیثیت اور نیا اسٹیٹس ملے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں، مگر اس کا کوئی ذکر نصاب میں نہیں۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اسکولوں کے نصاب میں اس کا تذکرہ تو ملتا ہے مگر وضاحت کے ساتھ نہیں بتایا گیا کہ یہ سانحہ کیوں پیش آیا اور وہ کون سے عوامل تھے جن کی بنا پر قیام پاکستان کی تحریک میں زورشور سے حصہ لینے والے بنگالی صرف پچیس سال میں مغربی پاکستان سے اس قدر بے زار ہوگئے کہ دریاؤ ں کی سرزمین پر نفرت کی آگ بھڑک اٹھی اور خون پانی ہوکر بہا۔ بات بس اتنی ہے کہ سقوط ڈھاکا کا المیہ ہو، منتخب اور مقبول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا افسوس ناک واقعہ یا ایٹمی دھماکے کا پاکستانیوں کے سینے فخر سے بھر دینے اور چہرے دمکادینے والا لمحہ، گذشتہ کوئی چالیس دہائیوں کی تاریخ کے اہم واقعات حکومت میں آنے والوں، وہ آمر ہوں یا منتخب حکم راں، کو ”سوٹ“ نہیں کرتے، چناں چہ آنے والی نسلوں کو اس سے بے خبر رکھنے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ انھیں نصاب کا حصہ نہ بنایا جائے۔

افغانستان میں سوویت یونین کی افواج کی آمد ہو یا طالبان حکومت کا قیام اور امریکی یلغار، یہ سارے واقعات براہ راست ہماری زندگیوں، سماج سیاست پر اثر انداز ہوئے ہیں، لیکن ہمارا تعلیمی نصاب ان واقعات کے بھیانک اثرات تو کجا ان واقعات کے بارے میں بھی چپ سادھے ہوئے ہے۔

میں جب ماس کمیونیکیشن میں بچلرز کر رہی تھی تو پاکستان کی تاریخ کے ایسے بہت سے حقائق میرے سامنے آئے جن سے میں ناواقف تھی، جنھیں جان کر میں حیران رہ گئی۔ واضح کردوں کہ یہ حقائق مجھے کسی استاد کے لیکچر میں پتا نہیں چلے، بل کہ امتحانی گائیڈ کے ذریعے مجھ پر منکشف ہوئے، جو اخبارات میں چھپنے والے آرٹیکلز کے ذریعے مرتب کی گئی تھی۔ حالاں کہ ہماری تاریخ سے متعلق یہ حقائق اسکول اور کالج کے نصاب کے ذریعے میرے علم میں آنا چاہیے تھے۔ یہ بھی واضح کردوں کہ میں میرا شمار ان طالب علموں میں ہوتا ہے جو بہ وجہ مجبوری تعلیم کا سلسلہ مستقل بنیادوں پر حاصل نا کرسکے۔ یعنی بیچلرز کی تعلیم حاصل کرتے وقت میری عمر 24 سال تھی اس کا مطلب 24 سال کی عمر تک ایک عام شہری پاکستان کی جڑوں کو کمزور کردینے والے فیصلوں اور تلخ حقایق سے دور رہا ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے یقینا ہمارا وہ گھسا پٹا نصاب جو مطالعہ پاکستان جرنل ہسٹری جیسے مضامین میں بھی حقائق سے پردہ اُٹھانے سے صرف اس لئے قاصر ہے کہ کسی ایک مخصوص گروہ کو اس حقیقت کے عام ہوجانے سے فرق پڑسکتاہے یا ہماری افواجِ پاکستان پر سوال اٹھ سکتا ہے۔

دنیا میں موجود تمام خطے اپنے اپنے مخصوص حالات اور واقعات کی بناء پر اپنے تعلیمی نصاب کو ترتیب دیتے ہیں۔ پاکستان اپنی ایک خاص جغرافیائی وحدت رکھتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے ممالک کے پاکستان سے مفادات وابستہ ہیں۔ اور انھیں کی وجہ سے ایک طالب علم کو اپنے ملک میں ہونے والے واقعات کاعلم ہونا چاہیے۔ میں اس وقت شعبہ ابلاغِ عامہ کی استاد ہوں لیکن جب ماسٹرز کے طالب علموں سے پاکستان کے گزرے پچاس سال میں ہونے والے واقعات کا ذکر کیا جائے تو ان کی لاعلمی عروج پر ہوتی ہے اور جو بچے جواب دیں ان کے اندر وہ تعصب ہوتا ہے جو بھات بھات کی بولیوں کی صورت میں پڑتی آوازوں کی وجہ سے ان میں پیدا ہوا۔

ماضی قریب کی تاریخ اور حالات حاضرہ کی تشکیل کرنے والے واقعات کا پس منظر اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہونا ضروری ہے، تاکہ طلبہ اپنے اردگرد ہوتے معاملات کسی حد تک سمجھ سکیں۔ آج دہشت گردی ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بقول شخصے، “مجھے یقین ہے کہ جس دن حکومت نے نصاب میں دہشت گردی کا موضوع شامل کرلیا، اس دن ملک میں دہشت گردی ختم ہوجائے گی۔ “ اس فقرے میں شاید کچھ غلو ہو، مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر اسکولوں کے نصاب میں دہشت گردی کے خلاف شعور اجاگر کرتے مضامین شامل ہوں، ہم دہشت گردی کی جن صورتوں کا شکار ہیں ان کا پس منظر موجود ہو اور دہشت گردی کی بنیاد بننے والے افکار کا رد شامل نصاب ہو، تو اسکول کی سطح ہی پر اس حوالے سے آنے والی نسل کی ذہن سازی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح بچوں کے ذہن مسموم کرکے انھیں اپنا آلہ کار بنانے والے عناصر کو ناکام بنایا جاسکتا ہے اور ایک ایسی نسل تیار کی جاسکتی ہے جس کے افراد میں اتنا شعور ہو کہ معصوم جانوں سے کھیلنے اور درس گاہوں کو تباہ کردینے جیسی وحشیانہ حرکتوں کا کوئی جواز ہے نہ ہوسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).