میرا مری کا بہت برا اور ہنزہ کا بہت اچھا تجربہ


جس طرح ہاتھ کی انگلیاں ایک جیسی برابرنہیں ہوتیں اسی طرح اس دنیا میں انسان بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ جہاں لوگوں کے اچھے اخلاق کسی اجنبی کا دل جیت لیتے ہیں اور جیتے جی انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرتا رہتا ہے۔ وہیں بعض اوقات ایسے بے حس اور بے درد لوگوں سے بھی واسطہ پڑ جاتا ہے کہ جن کا سلوک اور غیر انسانی رویہ انسان کا دل پر وہ انمٹ زخم چھوڑ جاتا ہے کہ جس کا کرب اسے تادیر اک درد کا احساس دلاتا رہتا ہے۔

2017جون میں میرے ایک دوست نے مری جانے کا پروگرام بنایا دوست نے مجھے بھی کہا کہ آپ بھی چلو لیکن میں نے کہا میں مری نہیں جاؤں گا۔ کیوں کہ میں مری سے ہوکر آیا ہوں۔ لیکن دوست نے ضد پکڑی ہوئی تھی۔ کہ مری چلو۔ میں نے کہا میں مری نہیں جاؤں گا کیونکہ میرا تجربہ ہے کہ مری کے لوگ بدتمیز ہوتے ہیں، تو دوست نے کہا کہ ایسا کیا ہوا؟ میں نے کہا جب ہم پانج دوست مری گئے تھے۔ مری پہنچے تو گاڑی سے اتر کر ہر دوست اپنا اپنا سامان اٹھانے لگا۔ میں بھی اپنا سامان اٹھانے لگا تو دوست نے کہا مجھے اپنا سامان دو میں آپ کا بیگ لے چلتا ہو۔ لیکن میں نے نہیں دیا کیوں کہ میں اپنا سامان خود اٹھاسکتا ہوں۔ جب دوست ہوٹل دیکھنے گئے۔ تو آہستہ چلنے کی وجہ سے پیچھے رہ گیا تھا۔

راستے میں چار بندے وہ بھی بڑی بڑی عمر کے میرے برابر آرہے تھے۔ ان کی وضع قطع سے لگ رہا تھا کہ وہ مقامی لوگ ہیں۔ پھر ان کے بولنے سے میرا اندازہ صحیح ثابت ہوا۔ ان کی عمریں بھی کافی تھیں، ایسا نہیں کہ کوئی بچے یا جوان تھے۔ میری معذور ٹانگوں کی وجہ سے چلنے میں لڑکھڑاہٹ کو دیکھ کر انہوں نے میرا مذاق اڑانا شروع کر دیا اور ان میں سے ایک کہنے لگا ”صحیح طرح سے چل نہیں سکتا اور آیا ہے مری گھومنے“ اس کی اس بات پر بجائے اسے روکنے کے دوسرےتینوں بندے بھی زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔ میں تھوڑا سا پریشان ہوا اور سوچنے لگا کہ یہ کیسے بدتمیز لوگ ہے میں نے سنی ان سنی کر دی۔ اور ان کو اگنور کر دیا لیکن دوبارہ دوسرےبندے نے زور سے کہا اوے لنگڑے کہاں سے آیا ہے؟ جب ان کے یہ الفاظ میرے کانوں تک پہنچا اور یہ بات میرے دل کو چبھی نہ چاہتے ہوئے بھی بے اختیار آنسوں نکل آئے وہ میرے آنسوں کو دیکھ کر پھر زور زور سے ہنسنے لگے۔

میں کچھ کہنے والا تھا ان کو لیکن کہہ نہیں پایا کیوں کہ انہوں نے مجھے لنگڑا کہہ کر مجھے احساس کمتری میں مبتلا کر دیا۔ اچھے دوستوں اور لوگوں کی وجہ یہ لفظ میں کئی سال بھول چکا تھا میرا جواب نہ ملنے پر وہ ہنس ہنس کے چلے گئے۔ لیکن میرے آنسوں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ میں آنسو پونچھتا تو دوبارہ آنسو آجائے میں ایک کونے میں بیٹھ کر آنسوں روکنے کی کر رہا تھا۔ تا کہ میرے دوست دیکھ نہ لیں اتنے میں۔ میں نے دوست کو آتے ہوئے دیکھا۔ میں نے جلدی جلدی رومال سےآنکھیں صاف کی، جب دوست قریب آیا تو کہنے لگا کہاں غائب ہوگئے تھے؟ ہم نے ہوٹل دیکھ لیا ہے۔ سامان مجھے دو۔ میں نے دوبارہ سامان دینے سے انکار کیا لیکن دوست نے زبردستی سامان مجھ سے لیا۔ اور کہنے لگا آپ کی آواز کو کیا ہوگیا حلق سے نکل ہی نہیں رہیں میں نے کہا آتے آتے سانس پھول رہا تھا شاید اس لیے۔

خیر میرے دوست نے یہ سب واقعہ سننے کے بعد مری کا پروگرام کینسل کر کے سکردو کا پلان بنایا۔ یوں ہم 2017 میں ہم سکردو سے ہنزہ چلے گئے اور ہنزہ کے لوگوں کا ادب اخلاق اور ہمدردی دیکھ کر مجھے حیرانی ہوئی اور احساس ہوا کہ ہاں ابھی جہاں میں انسانیت باقی ہے۔ میں جب بلتت فورٹ جا رہا تھا تو میرے پاس شولڈر بیگ تھا بلتت جاتے ہوئے مجھے پیچھے سے دھیمی اور ہلکی آواز سنائی دی پیچھے دیکھا تو ایک مقامی بود و باش کی حامل خاتون میرے قریب آرہی تھی۔ پاس آکر مجھے کہنے لگی بیٹا آپ کو مشکل میں دیکھا نہیں جاتا لاؤ بیگ مجھے دو میں آپ کا بیگ لے کے چلتی ہوں۔ پہلے تو میں تھوڑا پریشان ہوا کہ ایک اجنبی عورت ہوکر میری مدد کر رہی ہے، میں مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور انکار کر کے بیگ اٹھائے چلتا رہا۔ وہ شفیق خاتون دوبارہ کہنے لگی بیٹا آپ فورٹ جا رہے ہو نا؟ میرا گھر بھی اسی طرف ہے بیگ مجھے پکڑا دو۔ ہم ایک دکان کے سامنے کھڑے ہوئے تھے۔ تو دکاندار والے بابا نے کہا بیٹا آپ بیگ اس کو دے دو گھبراؤ نہیں۔

میں نے بابا جی کہ کہنے پر اس خاتون کو بیگ دیا اور فورٹ تک مجھ سے باتیں کرتے ہو ساتھ چلتی رہی۔ وہ پوچھتی رہی کہ کہاں سے آئے ہو؟ کتنے دن رہو گے وغیرہ وغیرہ۔ کہنے لگیں کہ جب ہم سیاح لوگوں کو دیکھتے ہے تو ہم بہت خوش ہوتے ہیں۔ اور جب بھی یہاں پے کوئی گھومنے آتا ہے تو وہ خود بھی ہماری عزت کرتے ہیں تو ہمارا بھی حق بنتا ہے۔ آپ لوگوں کی مدد کریں۔ اتنے میں اس کا گھر آگیا لیکن مجھے فورٹ کے دروازے تک مجھے چھوڑ آئی۔ میں نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا اور سوچنے لگا ایک طرف مجھ سے مری کے مرد حضرات کتنی بدتمیزی سے پیش آئے، اور یہاں ہنزہ کی عورتیں بھی باہر سے آنے والے لوگوں کی عزت کرتی ہیں میں سوچتے سوچتے میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل آئے اور اس خاتون کو بہت سی دعائیں دینے لگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).