عدل کی زنجیر میں جھنکار


اسلامی تاریخ عدل و انصاف کی بے مثال ولازوال داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ آقا ئے دو جہاں حضرت محمد ﷺ نے انصاف کی وہ مثال قائم کی جس میں آپﷺ کی نور نظر خاتون جنت حضرت فاطمہ (رض) کو بھی کوئی استثناء حاصل نہیں تھا۔ انصاف سب کے لیے برابر کیا بدو کیا سردار۔ کیا مردان عرب کیا عجمی۔ کیا آقا کیا غلام۔ حضور اکرمﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ پہلی قومیں اسی وجہ سے تباہ ہوگئی تھیں کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی، کوئی امیر جرم کرتا تو اسے معاف کردیا جاتا اور جب کوئی غریب جرم کرتا تو اسے سخت سے سخت سزا دی جاتی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیے جاتے۔ اک غزوہ میں آپﷺ کی چھڑی مبارک اک صحابی کو لگی تو آپﷺ نے اس کا بدلہ بھی دیا۔ اس صحابی نے آپﷺ کے جسم اطہر پہ بوسے لے کر اپنا بدلہ پورا کیا۔

حضور رحمت عالمﷺ کے وصال کے بعد جب خلفائے راشدین کا دور شروع ہوا تو اس میں بھی عدل و انصاف‘ قانون کی حاکمیت اور جواب دہی خلافت کے لازمی اجزاء تھے۔ خلفاء راشدین نے اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ اسلام میں قاضی کا معیار اتنا بلند تھا کہ جلیل القدر اصحاب رسولﷺ اور خلفائے راشدین کے خلاف فیصلے بھی آئے لیکن کسی نے اف تک نہیں کی۔ امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک بدوی سے گھوڑی خریدی اسے قیمت ادا کی اس پہ سوار ہوئے اور چل دیے۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ وہ لنگڑانے لگی۔ آپ واپس موڑ کر اس شخص کے پاس لے آئے جس سے وہ خریدی تھی۔ فرمایا، یہ گھوڑی واپس لے لو یہ لنگڑاتی ہے۔ بدوی نے کہا امیر المؤمنین یہ میں واپس نہیں لوں گا کیونکہ میں نے صحیح حالت میں آپ کے ہاتھ فروخت کی تھی۔

امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا چلیے فیصلے کے لیے کسی کو منصف مقرر کر لیں جو میرے اور آپ کے درمیان عدل و انصاف کی بنیاد پر فیصلہ کر دے۔ بدوی نے کہا کیا شریح بن حارث کندی کا فیصلہ آپ کو منظور ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے منظور ہے۔ لہذا دونوں فیصلہ کرانے کی غرض سے قاضی شریح کے پاس پہنچے۔ انہوں نے پہلے بدوی کی بات پورے اطمینان سے سنی پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا۔ امیر المؤمنین کیا یہ گھوڑی جس وقت آپ نے خریدی تھی صحیح سلامت تھی۔ فرمایا ہاں! قاضی شریح‌ؒ نے کہا امیر المؤمنین جو چیز آپ نے درست حالت میں خریدی اسے اب اپنے پاس رکھیے یا پھر اسی حالت میں واپس لوٹائیں جس حالت میں آپ نے اسے خریدا تھا۔

قاضی شریح کا ہی اک اور واقعہ ہے اک دفعہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ قاضی شریح کی عدالت میں پیش ہوئے۔ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ وہ ہستی ہیں جن کا احترام ہر مسلمان کے دل میں ہے۔ قاضی شریح حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر احتراماً کھڑے ہوگئے۔ شیر خدا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قاضی سے فرمایا یہ تمہاری پہلی نا انصافی ہے۔

اب آئیں اسلام کے نام قائم پر ہونے والے اسلامی جمہوری پاکستان اور اس کے حکمرانوں کی طرف۔ تھے وہ تمہارے ہی آبا مگر تم کیا ہو۔ جب کسی کو سزا ہوتی ہے یا جیل بھیجا جاتا تو اس کا مقصد انصاف قائم کرنا ہوتا ہے نہ کہ بے انصافی کی نئی مثالیں پیش کرنا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ہمارے ملک کے اسلامی قانون میں غریب مفلوک الحالوں کے لیے جیل اور ہے اور امرا کے لیے اور۔ ایک سے بڑھ کر ایک مثال ذہن میں آتی ہے۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔

کسی زمانے میں غلام مصطفیٰ کھر نے جیل یاترا کی تھی ان کے جیل کے ایام بھی فیوڈل لارڈ کی طرح گزرے۔ ان کے سامنے سپاہی تو کیا جیلر صاحب کو دم مارنے کی جرات نہیں تھی۔ چند سال ادھر کی بات ہے اک نوابزادہ نام جس کا شاہ رخ جتوئی بتایا جاتا تھا قتل کے جرم میں اندر تھا۔ جیل میں اس نوابزادے کے لیے خاص اہتمام تھا۔ جو سہولتیں ان کو جیل میں میسر تھی غریب عوام ان کا صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔

ان ہی اونچے طبقے کے قیدیوں میں اک نیا اضافہ قید با مشقت کاٹتے میاں نوازشریف صاحب اور ان کی نور نظر اور اس کا جیون ساتھی ہے۔ ان حضرات کے لیے یہ جیل نہیں اک سرکاری آرامگاہ ہے جس میں میل ملاقاتیوں کی لمبی قطاریں خانساماں، خدام، مالشیے اور اسی انواع کی مخلوق صبح و شام حاضرخدمت کورنش بجا لاتی ہے۔ کھانے کے لیے انواع و قسم کی اخوان۔ عوام کا خون نچوڑنے والوں کا پسینہ ٹپکا میاں نوازشریف نے گرمی کی شکایت کی تو جیل میں اے سی بھی مہیا کردیا گیا۔ بڑے صاحبوں کے لیے قید و رہائی میں سہولتیں ہی سہولتیں ہیں۔

فرق پڑا تو صرف اتنا کہ شاہی کرو فر اور صبح شام کے خوشامدی، درباری قصیدہ خواہوں کو اب اپنے پلے سے دینا پڑتا ہے۔ کھانا اب بھی فرمائشی اور پنج ستارہ ہوٹلوں سے آتا ہے لیکن پہلے سرکاری ہیلی کاپٹر چنگ چی رکشہ کی طرح استعمال ہوتے تھے اب وہ سہولت دستیاب نہیں۔ کوئی دن جاتا ہے میاں صاحب بھی ڈیل، ڈھیل معافی تلافی سے رہا ہوجائے گے۔ حکمرانوں و امراء کے لیے جیل میں بھی فرسٹ کلاس ہے اور غرباء کے لیے ہر جگہ سی اور ڈی کلاس ہے۔

حضور اکرمﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ’پہلی قومیں اسی وجہ سے تباہ ہوگئی تھیں کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی‘ کوئی امیر جرم کرتا تو اسے معاف کردیا جاتا اور جب کوئی غریب جرم کرتا تو اسے سخت سے سخت سزا دی جاتی۔

منصف کے لیے اذن سماعت پہ ہیں پہرے
اور عدل کی زنجیر میں جھنکار بہت ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).