دفاعِ وطن اور مذہبی اقلیتیں



پاکستان کی تاریخ کے اولین دنوں سے اب تک مذہبی اقلیتیں ہماری قومی زندگی کا ایک اہم حصہ رہی ہیں۔ تعلیم، علوم و فنون اور سماجی خدمات سے لے کر دفاعِ وطن تک کے فریضے میں غیرمسلم پاکستانی اپنی عددی کم تری کے باوجود کارکردگی میں کسی طور مسلمان اکثریت سے کم نہیں۔ زیرِنظر تحریر میں ہم دفاعِ وطن میں مذہبی اقلیتوں کے اس اہم کردار پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے جس پر وقت کی ہوا نے تعصب کی گرد چڑھا نا شروع کردی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مذہبی شناخت اور تشخص کا مسئلہ پاکستانیوں میں مِن حیث القوم ایک ایسا سنجیدہ معاملہ بنتا جا رہا ہے کہ اب شاید ہمیشہ سے زیادہ اس امر پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت قوم، لفظ پاکستانی کا مطلب فقط مسلمان ہرگز نہیں ہے اور اس مٹی کی کوکھ سے جنم لینے والا اور وطن سے محبت کا دم بھرنے وال ایک عیسائی، ہندو، پارسی ، احمدی اور سکھ بھی اتنا ہی پاکستانی ہے جتنا کہ اس کے برابر محبِ وطن مسلمان شہری جو کہ قانونِ شہریت کے تحت پاکستانی کہلاتا ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج کو ان کے ابتدائی سالوں میں ایک نیم تربیت یافتہ، ناپختہ کار ، نامکمل طور پر مسلح اور معمولی فوجی گروہوں سے اٹھا کر خطے کی اہم فوجی تنظیموں میں شمار کرنے کے پیچھے جہاں اُس وقت کے ہراولین (Pioneer) پاکستانی فوجی افسر کی انتہائی مخلص اور بے لوث محنت کا عمل دخل ہے وہاں اس میں کئی غیر مسلم افسران کی پیشہ ورانہ لیاقت اور جذبہ حب الوطنی کا بھی ایک ناقابلِ فراموش حصہ شامل ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد پاک فوج میں رضاکارانہ طور پر شامل ہونے والے انگریز افسران کے علاوہ کئی اینگلو انڈین ، کرسچن، پارسی اور ہندو افسران نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ بری فوج چونکہ تعداد میں ایک بڑی سپاہ تھی جس کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی راولپنڈی، جہلم، چکوال اور اٹک کے پنجابی مسلمانوں پر مشتمل تھا، اس لئے بری فوج میں مسلم افسران کی تعداد بھی بحریہ اور فضائیہ سے زیادہ تھی۔ تاہم بحریہ اور فضائیہ میں انگریز، اینگلوانڈین اور غیرمسلم افسران کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں نمایاں کارکردگی کامظاہرہ کرنے والے پیشہ ور اور بہادر افسران میں چند کرسچن اور احمدی افسران اور جوان اہم مقام رکھتے ہیں۔
بھٹودورکے بعد جب ملک کےتمام شعبوں میں بالعموم اورافواج میں بالخصوص اسلامائزیشن کا عمل شروع ہواتواس وقت تک اینگلوپاکستانی افسران کی آخری کھیپ بھی ریٹائر ہونے والی تھی جب کہ کرسچن اور احمدی افسران کے لئے یہ دور اس تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا جس کے تحت پاک فوج نے سیکولر اقدار کو چھوڑ کر ایک اسلامی شناخت اپنانا شروع کی ۔ وقت کے ساتھ ملٹری سوسائٹی میں پیشہ وارانہ اقدار کی بجائے مذہبی تفریق کا عمل شروع ہو گیا۔ ملکی اداروں میں ترقی اور فرائض کی تفویض کے شفاف نظام نے اگرچہ غیر مسلم افسران کے ساتھ نمایاں امتیازی سلوک روا نہ ہونے دیااور غیرمسلم افسران کو نچلے اور متوسط رینکس (Ranks) تک کسی قسم کی قابلِ ذکر رُکاوٹوں اور الجھنوں سے بچائے رکھا لیکن اُوپر کی سطح پر کافی حد تک مذہب کا عنصر بھی پیش ِ نظر رہنے لگا۔ کئی موقعوں پر ، سننے میں آیا ہے کہ غیر مسلم افسران بالخصوص احمدی افسران کی خدمات اور سنیارٹی کو نظر انداز کر کے ان کی وفاداریوں پر سوال تک اُٹھائے گئے ۔ فوج میں بھی راقم نے اپنی باوردی زندگی کے لگ بھگ ایک عشرے میں کسی احمدی کرنیل یا جرنیل کو نہیں دیکھا۔یہ کوئی قابلِ فخر بات نہیں ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں احمدیوں کے ساتھ اس درجہ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہےکہ وہ اپنےکیرئیر اور معاشرتی زندگی کو پُر سکون بنانے کے لئے اپنے تئیں مسلم ظاہر کرنے یا مذہبی شناخت کو خفیہ رکھنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم دورِحاضر کے کسی احمدی فوجی افسر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں یا پھر وی خود شاید اس کا اظہار کرنے سے اس لئے گریزاں ہیں کہ یہ اُن کے لئے مضر ہوسکتا ہے۔ خیر، یہ جملۂ معترضہ تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے دورِحکومت میں روشن خیالی اور کسی حد تک سیکولر فوج کا ویژن عملی طور صورت اختیار کرتا دیکھا گیا جب پاک فوج میں 1سکھ اور 2ہندو افسران جب کہ پاک بحریہ میں ایک معمولی تعداد میں ہندو رنگروٹ بھرتی ہوئے۔ یہ سلسلہ شاید جنرل مشرف کی حکومت کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا۔ اب جب کہ مذہبی شناخت اور تشخص کا معاملہ ہمارے ہر شعبہ زندگی پر اثرانداز ہو رہا ہے ، یہ ضروری ہے کہ ہم رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے وطن عزیز کی مذہبی اقلیتوں کے احساسِ اجنبیت اور محرومی کو ختم کریں اور پاکستان کے خوش نما رُخ پر اِن بُھلائے ہوئے حسین رنگوں کی پچی کاری بھی کریں جو عالمی اُفق پر آزادی ، روشن خیالی اور امن پسندی کی قوسِ قزح بن کر ابھرنے کے لئے ضروری ہے۔
ماضی کے جھروکوں میں ہمارے غیر مسلم شہداء، غازیوں اور مُحسن سپاہیوں کےکئی ایسے فراموش کردہ چہرے ہیں جو اپنی بے لوث خدمتوں کے عوض کچھ ستائش، کچھ التفات اور کچھ صلہ مانگتے ہیں۔
ائیر کموڈور بلونت کمار داس
بی-کے داس فضائیہ کے واحد سینئر ہندو افسر تھے جوکہ تقسیم کے وقت پاک فضائیہ میں شامل ہوئے اور پاکستان ائر فورس میں مختلف عہدوں پر خددمات سر انجام دیتے رہے۔ جبکہ ان کے بڑے بھائی پولیس سروس آف پاکستان کے ایک سینئر افسر تھے۔ ان کے علاوہ فلائنگ آفیسرولیم ستیش چندر وسواس کا نام بھی پاک فضائیہ کے اولین افسران میں شامل ہے جنہیں برہمن ہونے کی وجہ سے سرکارِ ہند کی طرف سے پاک فوج میں شامل ہونے کی اجازت نہ ملی تو اُنہوں نے کہہ دیا کہ وہ کرسچن ہیں، تبھی ’’ولیم‘‘ اُن کے نام کا حصہ بنا۔ اِن کا تفصیلی سروس ریکارڈ دستیاب نہیں ہو سکا۔
میجر جنرل جیولین پیٹر
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے جیولین پیٹر نے 1965اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں حصہ لیا۔1990 میں اُنہیں پاک فوج کے پہلے پاکستانی کرسچن جنرل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اِنہیں اوکاڑہ میں ایک ڈویژن کی کمان ملی۔ اُنہوں نے ڈائریکٹر جنرل لاجسٹکس اور دیگر اہم کمانڈ اور اسٹاف ڈیوٹیوں پر فرائض سرانجام دئیے اور 2004میں ریٹائر ہوئے۔


میجر جنرل افتخار جنجوعہ
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے میجر جنرل افتخار جنجوعہ مذہباً احمدی تھے۔ وہ دوسری جنگِ عظیم میں سسلی ، اٹلی اور شمالی افریقہ کے محاذوں پر خدمات سر انجام دے چکے تھے۔ 1965میں اُنہوں نے رن کچھ میں بھارتی فوج کے خلاف ایک بریگیڈ کی کمان کرتے ہوئے قوم سے فاتحِ رن کچھ کا لقب حاصل کیا۔ اُنہیں پاکستانی فوج کی تاریخ کا پہلا آرمرڈ حملہ بطورِ بریگیڈ کمانڈر بیار بیٹ کی لڑائی میں کمان کرنےکا اعزاز حاصل ہے۔ سیدضمیرؔ جعفری کی مشہور مزاحیہ نظم جو کہ کچھ کی لڑائی پہ تھی، اس میں ان کی دلیری کا تذکرہ خوب آیا ہے؛
بڑھ کر جو ایک وار کیا افتخارؔ نے
اور غازیانِ پاک نے کی دھم سے مار پیٹ
دھوتی جو ران پر تھی وہ رن میں پڑی رہی
اُتنا بڑا فلاپ تھا جتنا بڑا فلِیٹ
انہیں ان خدمات کے صلے میں بہادری کا دوسر اعلیٰ ترین اعزاز ہلالِ جرات دوبار عطا کیا گیا۔ 1971میں وطن پر جان قربان کرنے والے ہماری تاریخ کے پہلے جرنیل کا اعزاز بھی انہی کے حصے میں آیا۔ 71میں کشمیر کے محاذ پرایک پرواز کے دوران بھارتی فوج کے حملے میں شہید ہوئے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3