سندھ کا عظیم شہید: امر روپلو کولھی


1843ء میں انگریز فوج نے چالاکی، مکاری اور جدید ہتھیاروں سے جنگ لڑتے ہوئے سندھ کے مختلف علاقوں کو فتح کر کے سندھ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت تھرپارکر کے علاقے نگرپارکر میں انگریزوں کو 16 سال تک راجپوتوں کی فوج سے شدید جنگی مزاحمت جھیلنی پڑی۔ راجپوتوں کی فوج کا بڑا حصہ کولہیوں پر مشتمل تھا، اس فوج کا سپہ سالار روپلو کولھی تھا، کولھی سندھ، راجستان کے تھر اور پارکر کے قدیم باشندوں میں اہمیت کے حامل ہیں، 1843ء سے 1859ء تک مسلسل جنگ لڑنے والا روپلو کولھی نہ صرف اپنے لوگوں اور دھرتی سے بہت ہی وفادار تھا بلکہ وہ ایک دلاور سپہ سالار تھا جو جنرل جارج بوتھ تروٹ کو تین بار شکست دے چکا تھا، جارج بوتھ تروٹ کو بار بار اپنی فوج لے کر میرپورخاص کیمپ واپس آنا پڑتا تھا،

انگریز فوج اس وقت کے جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر ہمالیہ سے لے کر بحیرہ ہند تک انگریز راج قائم کر چکی تھی۔ اس وقت سندھ کے نقشے پر موجود تھرپارکر اور کارونجھر پہاڑ 16 سال تک خود مختار حیثیت سے موجود تھا۔ بغاوت کا علم بلند کرنے والے روپلو کولھی نے ٹھان لی تھی کہ کسی بھی صورت انگریز فوج کو کارونجھر کے اندر نہیں پہچنے دینا۔ یہ ایک عظیم قومی بغاوت کی شروعات تھی۔

اس جنگ میں امر شہید روپلو کولھی کے ساتھ، مڈو کولہی، چترو کولہی، ادیئسنگھ بھی شانہ بہ شانہ تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ جنرل تروٹ کو فوج سمیت شکست دی تھی، جنرل تروٹ اکیلا جان بچا کر بھاگ نکلا، جس کو پورن واہ گاؤں کے لادھیو میگھواڑ نے چمڑا رکھنے والی کوٹھی میں پناہ دی، میگھواڑ چمڑے کو رنگ لگانے اور بنانے کا کام کرتے تھے، جہاں بہت ہی بدبو ہوتی تھی۔ کوئی سفید پوش جانا پسند نہیں کرتا تھا۔ اسی وجہ سے ان سے نفرت بھی برتی جاتی تھی۔

امر شہید روپلو کولھی جس کارونجھر اور تھرپارکر کے لیے جنگ کرکے مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے تھے وہ تھرپارکر دنیا کا اٹھارواں بڑا ریگستان ہے۔ “رن کچھ” اور ہندوستان کے عقب میں 22 ہزار مربع کلومیٹر کا یہ علاقہ تھرپارکر، سندھ کے جنوبی حصے میں منفرد حیثت کا حامل ہے۔ اس ریگستان کی خوبصورتی ہی سب سے الگ ہے۔ 1858ء میں اس علاقے کو چارلس نیپیئر نے’’ کچھ’’ پولیٹیکل ایجنسی میں شامل کیا، اور 1843ء سے 1858ء تک حیدرآباد کلیکٹوریٹ سے الحاق میں رہا۔ اس دوران انگریزوں نے شدید مزاحمت کا سامنا کیا۔ ہر روز کولہیوں اور راجپوتوں کے باغیانہ حملے ہوتے رہے، بعد میں انتقاماً اس علاقے کو ”کچھ” سے ملایا گیا، تاکہ تھرپارکر پر قبضہ کیا جائے، اس سامراجی فیصلے کے کچھ ہی عرصہ بعد مئی 1859ء میں روپلو کولہی کو گرفتارکر لیا گیا، اس کو ٹارچر سیل میں سخت اذیتیں دی گئیں کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت ان تمام راجپوتوں، سوڈھوں کے نام بتائے جو ساتھ تھے، مگر امر شہید روپلو کولھی نے اپنی زبان کبھی نہیں کھولی، اس کے بعد روپلو کولھی کے ہاتھوں کی انگلیوں کو روہی اور تیل سے جلایا گیا، انگلیاں جل کر بھسم ہو گئیں، مگر 16 سال تک تیر، تلوار، غلیل، اور بھالے سے جنگ لڑنے والے اس بہادر شخص نے ہار ماننے سے انکار کیا، جب روپلو کولھی کو بتایا گیا کہ اس کے کچھ ساتھیوں نے ملکیتیں اور جاگیریں لے کر سمجھوتہ کر لیا ہے اب تم بھی سمجھوتہ کر لو، تب روپلو نے دلیری سے کہا کہ اپنے ناپاک قدم اس دھرتی سے واپس لے جاؤ، میں اپنے شہیدوں کے خون کا سودا نہیں کروں گا۔

اس وقت روپلو کولہی کو گرفتار کرانے والے وہاں کے ہی مقامی لوگ تھے، جن میں کارونجھر کے دامن میں موجود ساردڑو مندر کا پجاری، ہنس پوری بابا، کاسبو گاؤں کا ماوجی لوہانہ، اور دیگر افراد شامل تھے، جب روپلو کو گرفتار کیا گیا تب تیز بارش برس رہی تھی، انگریزوں سے جنگ جاری تھی، پٹیالی اور گوڑدرو ندیاں برسات کے پانی سے جل تھل تھیں، اس دن انگریزوں سے آمنے سامنے جنگ تھی، 6 ہزار کولھی دھرتی کے لیے لڑتے ہوتے شہید کئے گئے، مگر نہ جھکے نہ بکے۔ اسی دوران رانا کرنی سنگھ، لادو سنگھ اور مندر کے پجاری وہاں سے بھاگ نکلے، مگر یہ دراوڑ نسل کے دلاور اپنی دھرتی کے لیے شہید ہوگئے۔

کیسر کولھی (روپلو کی ماں کا نام) کا بیٹا اپنی جان کا نذرانہ دینے کے لیے تیار تھا لیکن سر جھکانے کو تیار نہ تھا، جب کہ روپلو کے ساتھی راجپوت اور سوڈھا بک چکے تھے۔ مگر روپلو کولہی کسی طرح بھی ماننے کو تیار نہیں تھا، انگریز فوج اب بے بس ہوچکی تھی، بالآخر انگریزوں نے ایک اور چال چلی، روپلو کی بیوی میناوتی کو بلایا تاکہ وہ روپلو کولھی کی تشدد زدہ حالت دیکھ کر ڈر جائے، اسے سمجھائے اور وہ جھک جائے، بغاوت سے ہٹ جائے، مگر میناوتی بھی اسی دھرتی کی بیٹی تھی۔ دیش بھگتی اور بہادری اس دھرتی کی عورتوں کا سنگھار ہے۔ ہمالیہ جیسا حوصلہ رکھنے والی یہ عورتیں بیٹے پیدا ہی دھرتی پر وارنے کے لیے کرتی تھیں۔ قربانی ان کے خون میں سرایت کرتی ہے، شاید اسی وجہ سے کارونجھر کی مٹی بھی لال ہے۔

میناوتی نے روپلو سے ملتے ہی اس سے کہا کہ روپا، ہار مت ماننا، نہ ہی ان فرنگیوں کے سامنے جھکنا۔ اگر تو بک گیا اور جھک گیا، تو پارکر کی عورتیں مجھے طعنے دیں گی، کہیں گی یہ غدار کی بیوی ہے، روپا تم ہار مت ماننا، اپنی ماں کی کوکھ پر غداری کا کلنک مت لگنے دینا، دھرتی ماتا کے لیے سر کٹا دینا اس سرزمیں کی روایت رہی ہے، تمہیں مار دیں گے تو کیا ہوا، میری کوکھ سے ایک اور روپلو جنم لے گا، اس دھرتی کا قرض چکائے گا۔ تمہاری شہادت ہزاروں روپلے پیدا کرے گی، مگر تہمارا جھک جانا، اس نسل اور دھرتی کے رکھوالوں کی موت ہے، عورتیں روپلو نام سے نفرت کریں گی، عورتیں بانجھ رہنے کو ترجیح دیں گی مگر بیٹا پیدا نہیں کریں گی۔ تم ایک یودھا ہو، لڑنا تمہارا دھرم ہے، اس دھرم کا بھرم رکھنا روپا۔

ان الفاظ نے روپلو کولہی کے اندر ابلتے ہوئے آزادی اور بغاوت کے جوالا مکھی کو مزید بھڑکا دیا، اس نے شہادت کو اپنا لیا مگر جھکا نہیں، بالآخر 22 اگست 1859ء کو تھرپارکر کے اس سورما کو انگریزوں نے بغیر کوئی کیس چلائے گوڑدرو ندی کے کنارے پھانسی سے لٹکا دیا، روپلو کو تو شہید کر دیا مگر جنگ پہلے سے بھی زیادہ زور شور سے جاری تھی، ایک ایک کر کے روپلے کے تمام ساتھیوں کو مارا گیا۔ 6 ہزار کولہیوں نے تھرپارکر کے لیے اپنی جان کا بلیدان دیا، مگر غلامی کی زنجیروں سے انکار کیا۔

جو غدار تھے ان کو جاگیروں اور ملکیتوں سے نوازا گیا، روپلو اور ساتھیوں کو گرفتار کرانے والے انگریزوں کے جاسوس پجاری ہنس پوری بابا کو کارونجھر کے نزدیک ، مہاوجی لوہانو کو” کاسبو” کے قریب، اور تروٹ کو پناہ دینے والے لادھیو میگھواڑ کو “پورن واھ” کے قریب جاگیریں انعام کے طور پر دی گئیں۔مگر شہید روپلو کولھی آج بھی امر ہے۔ یہ دھرتی اس سورما کو کبھی نہیں بھول سکتی۔ کیونکہ وہ بکا نہیں۔

روپلو کولہی پر 100 سے زائد مضمون اور درجنوں کتابیں سندھی زبان میں شایع ہو چکی ہیں۔ سندھی شعرا نے کافی شاعری بھی لکھی ہے، اس کے علاوہ سندھ کے بہترین ڈرامہ نویس علی بابا نے “کارونجھر کا قیدی” کے نام سے ڈرامہ بھی لکھا مگر آج تک اس ڈرامے پر کسی ٹیلی ویژن چینل نے کام تک نہیں کیا۔

ضرورت ہے کہ ہمارے جتنے بھی مقامی قومی ہیرو ہیں، انہیں کم از کم یاد تو کیا جائے، ان کے نام کی یادگاریں تعمیر کی جائیں۔ ان کو ہمارے نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں ان پر فخر کر سکں۔ افسوس کہ سندھ سمیت ملک کے تمام مقامی سورماوں کو حکومتوں نے کبھی بھی اعزاز نہیں دیا، نہ ہی یاد کیا ہے۔ آج بھی باہر کے حملہ آوروں کو ہیرو کر کے پیش کیا جاتا ہے، 22 اگست کو روپلو کولھی کی برسی ہے، سوائے اس کے اپنے قبیلے کے سماجی رہنماؤں اور ساتھیوں کے، ملک کے کسی کونے میں کوئی تقریب منعقد نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).