میرے نئے پڑوسی


میرے نئے پڑوسی آگئے ہیں۔

میں نے ان کو کھڑکی سے دیکھ لیا ہے۔ میں ان سے ملنے نہیں گیا اور نہ میرا کوئی ارادہ ہے۔

انجیل مقدس میں لکھا ہے کہ اپنے پڑوسی سے محبّت کرو۔ میں ان سے محبّت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہاں ہم دردی ضرور کرسکتا ہوں۔

اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ پڑوسی کے بڑے حقوق ہیں۔ پڑوسی اگر بھوکا رہے تو اس گھر کے لوگوں کی عبادت قبول نہیں ہوگی۔

ان نئے پڑوسیوں کی بھوک پیاس کی دیکھ بھال میں نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے الگ آدمی مقّرر ہے۔

اور رہی حقوق کی بات تو میں بھی تو پڑوسی ہوں۔ میرے حقوق کا خیال کون رکھے گا۔

یہ نئے پڑوسی تو سوائے مُنھ چلانے کے کچھ نہیں کرسکتے۔

ان کے گلے میں رسی ہے اور رسی نے ان کو کھونٹے سے باندھا ہوا ہے۔

یہ نئے پڑوسی ہیں دو بیل، ایک گائے اور چار بکرے۔

ان کی آمد کی تیاری کئی دن پہلے سے شر وع ہوگئی تھی۔ گھر کے برابر خالی پلاٹ کو صاف کیا گیا، جہاں آس پاس کے مکانوں میں کام کرنے والےگھر بھر کا کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں اور ان مکانوں میں رہنے والے گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں۔ جنگلی جھاڑیاں، بڑے پتّھر اور مٹّی کی ڈھیریاں ہٹائی گئیں، زمین کو ہموار کیا گیا، پھر اس کے بعد چکنی مٹّی اور گارے سے لیپ کر دیا گیا۔ دو دن بعد شامیانہ تن گیا، قناتیں لگا دی گئیں، کل شام میں کہیں دور سے واپس آیا تو اس نئی عارضی قیام گاہ کے نئے مکین موجود تھے۔

ان کی آواز دور سے آرہی تھی۔ان کے پاس سے تیز بُو اٹھ رہی تھی۔

آس پاس چند لوگ گھوم رہے تھے جو خشونت زدہ حلیے سے لگ رہا تھا کہ ان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ شاید ان کی ذمہ داری کا ایک حصّہ یہ بھی ہے کہ پڑوسی زیادہ ممیانے کی کوشش نہ کریں۔

سامنے کے ایک مکان سے بجلی کا تار لیا گیا ہے۔ میرے نئے پڑوسیوں کا شامیانہ بقعۂ نور بنا ہوا ہے۔ ٹیوب لائٹ تیز روشنی بکھرا رہی ہیں۔ آس پاس کے مکانوں سے ہی نہیں، دور سے بھی لوگ آرہے ہیں۔ جانوروں پر ہاتھ پھیر رہے ہیں۔ اپنے خریدے ہوئے جانوروں سے موازنہ کررہے ہیں کہ کتنی قیمت اور کتنا گوشت۔ بچّوں کے ہاتھ ایک نیا مشغلہ آگیا ہے۔ بکروں کے ساتھ سیلفی کھنچوا رہے ہیں۔ یہ نیا شوق ہے۔ میں سوچ کر اٹھتا ہوں کہ تصویر تو میں بھی لے لوں، نیا فون کس دن کام آئے گا۔ میری تصویر صرف پڑوسیوں کی ہے اور مجھے ان سے مسکرانے کے لیے بھی نہیں کہنا پڑتا۔

دو چار دن کی بات ہے۔ پھر صرف تصویر رہ جائے گی۔ نہیں، میں کہیں نہیں جارہا۔ میں کہاں جائوں گا۔ یہ نئے پڑوسی چلے جائیں گے۔

گائے، بکرے ان نئے پڑوسیوں کی جگہ ان سے بھی نئے پڑوسی آئیں گے __ گوبر، فضلہ، کُچلا ہوا بھوسہ، اوجھڑی، گوشت کے ٹکڑے جو چیل، کوّے اور کتّے لے آتے ہیں اور بچا کھچا یہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ بہتا ہوا خون جمع ہونے کے بعد سڑک پر بن جانے والے جوہڑ اور تالاب جس میں سڑک کے ساتھ بنے ہوئے مکانوں کے فرش دھوئے جانے سے پانی کا اضافہ ہو جائے گا۔ کیچڑ جس کا رنگ سرخ ہو گا۔

کالج کے زمانے میں جوشیلے ساتھی نعرہ لگایا کرتے تھے، سرخ ہے، سرخ ہے ایشیا سرخ ہے۔ ارضِ وطن کا تو پتہ نہیں میرا محلّہ ضرور سرخ ہو جائے گا۔ صرف چند دن کے لیے، میرے ان نئے پڑوسیوں کی برکت سے۔

پھر مکھیاں ہوا میں بھن بھناہٹ بکھیر کر ان کا استقبال کریں گی۔ مچھر نفیری بجائیں گے، آپ کو مصروف رکھیں گے کہ آپ تالیاں بجاتے رہیں۔ یہ نئے سے نئے پڑوسی بہت عرصے یہاں رہیں گے۔ پھر آہستہ آہستہ اس منظر کا مستقل حصّہ بن جائیں گے۔ میں رہوں نہ رہوں، یہ پڑوس اسی طرح آباد رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).