Whistle Blow سرکاری آفیسروں کا پُل صراط


محترم و مکرمی جناب عمران احمد خان نیازی صاحب وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان

آپ کا پہلا خطاب جو قوم کے ان لوگوں کے لئے تھا جو انتہائی پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کی تعلیم و ترقی کے لئے کبھی کسی نے کوئی کام نہیں کیا۔ لیکن آپ کے خطاب نے ان کے دلوں کے اندر یہ اُمید بھر دی ہے کہ کبھی وہ وقت بھی آئے گا کہ یہاں کا غریب بھی سمجھے گا کہ یہ اسی کا ہی پاکستان ہے۔

محترم جناب وزیراعظم صاحب

آپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ وسل بلو کا کوئی قانون لارہے ہیں۔ جس کے تحت کرپشن کی نشاندہی کرانے والے کو اس کرپشن کے پیسوں کا کچھ حصہ ملے گا۔ جناب والا ہم اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کوئی لالچ نہیں۔ ہم کرپشن کی نشاندہی کرائیں گے مگر چاہتے ہیں کہ وہ 20 سے 30 فی صد رقم بھی سرکاری خزانے میں ہی جمع ہو۔ بس ہمیں انصاف ہوتا دکھائی دے۔

جناب والا

یہ میر پہلا وسل بلو ہے جو آپ کے سرکار کی خدمت میں ہے۔ میں کچھ اداروں کے اندر کام کرنے والوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جن کا سیدھا تعلق غریب لوگوں کے ساتھ ہے۔ یہ ادارے پاکستان کے اندر کام کرتے ہیں اور خصوصا گلگت بلتستان کے اندر ان کے کام سے کون واقف نہیں ہے۔ جیسے کہ گلگت بلتستان واٹر اینڈ پاور ڈویژن، گلگت بلتستان بی اینڈ آر ڈویژن، گلگت بلتستان لوکل گورنمنٹ اور گلگت بلتستان ریونیو ڈیپارٹمنٹ۔ یہ ایسے ادارے ہیں جن کا تعلق سیدھا غریبوں کے ساتھ ہے۔ بجلی ہو، صاف پانی یا پھر نالی، روڈ یا پُل کا مسئلہ ہو، کسی بیوہ کی پنشن ہو، کسی ریٹائرڈ کی پراوڈنٹ فنڈ کی فائل، کسی غریب ملازم کی ہاوسنگ ایڈوانس کا کیس ہو یا پھر کسی چھوٹے اسکیل کے ملازم کی پے فکسیشن، جب تک نوٹ نہیں چلتا، فائل نہیں بنتی۔ ان سب کا سیدھا تعلق ایک غریب طبقے کے ساتھ ہے کیونکہ ان ادروں کے اندر بجلی، صاف پانی، روڈ کی مرمت، کوہل کی صفائی، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے لوگوں کو ہر وقت دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ ان اداروں کے اندر کام کرنے والے لوگوں غرور کی اُس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ ان کو عوام ایک مذاق لگنے لگے ہیں۔ بجلی دینے کے ٹائم پہ یہ لوگ شیڈنگ کرکے عوم کا جینا حرام کرتے ہیں۔ گندا پانی ٹنکیوں کی طرف کر کے یہ لوگ خوش ہوتے ہیں۔ان لوگوں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اس لئے کہ ان کے خلاف چوری اور کرپشن کا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا کیونکہ یہاں پہ سارا دھندا نقدی کی شکل میں ہوتا ہے۔

نقد پیسے دینے پہ ہی فائل آگے بڑھتی ہے، بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ ہونے کی وجہ سے ہی انہی دفتروں کے اندر کام کرنے والوں کی جیبیں گرم ہوتی ہیں۔ ان کے بنائے گئے روڈ اور کوہل ایک سال کے اندر ہی اکھڑ کر کھنڈرات بن جانے تب ہی ان لوگوں کے گھروں میں مخمل کے پردے اور ایرانی قالین بچھ جاتے ہیں۔ غریب کی پنشن کا معاملہ تب پاس ہوتا ہے جب روینیو ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے ملازم کا بیٹا جہاز میں سفر کرتا ہے۔
جناب والا۔
ان اداروں کی اندر ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے انکوائریاں کرانے سے بھی کچھ نہیں ملتا ہے کیونکہ ان اداروں کی فائلیں اتنی صاف ہوتی ہیں کہ بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان کے خلاف کوئی کورٹ کیس نہیں ہوتا ہے کیونکہ ادھار کا کام ان کے پاس نہیں چیک یہ لیتے نہیں اور بینک میں یہ پیسے جمع کراتے نہیں۔ لیکن ایک چیز جو ان کی کرپشن کو نمایاں کرتی ہے وہ ہے ان کی جائدادیں۔ ان کے گھر، ان کا رہن سہن، ان کے بچوں کا رہن سہن، ان کی زمینیں، ان کے گھروالوں کے اخراجات چاہے وہ تعلیم کی مد میں ہو صحت کے لئے ہو یا پھر سیر سپاٹے کے۔ ان کے بچے ہوائی جہازوں میں گھومتے ہیں جبکہ ان سے زیادہ تنخواہ لینے والوں کے بچے سرکاری بسوں میں اسٹوڈنٹ کنسیشن کے ٹکٹ پہ سفر کرتے ہیں۔

جناب والا

میری آپ سے درخواست ہے کہ ان سب کے اوپر انکوائری کریں چاہے وہ ٹاپ کا سیکرٹری ہو پھر اس ادارے کا گریڈ ون۔ دیکھیں کہ ان کی جائدادیں ان کی تنخواہ سے اتنی زیادہ کیوں ہیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم کے اوپر لگنے والے لاکھوں روپے کس خزانے سے دئے گئے۔ ان کے محلات میں کس کے پیسے لگے۔ کیا ان اداروں کے اندر کوئی خرانہ چھپا ہے کیونکہ جس کی یہاں نوکری لگتی ہے وہ راتوں رات لکھ پتی بن جاتا ہے اور پھر سال بھر میں کروڑ پتی۔ آخر ایسا کیا ہے ان اداروں کے اندر؟ میرے گھر بجلی آتی نہیں، میرا روڈ کئی سال تک بنتا نہیں، میرے گھر میں پینے کے پانی کے ساتھ کیڑے آتے ہیں جبکہ یہ اپنے جیب سے خرچ کرکے اپنے گھر جنریٹر کا استعمال کرتے ہیں۔ اپنے گھر تک اپنے پیسوں سے روڈ بناتے ہیں۔ ان کی فیملی ایک ٹرپ میں لاکھوں کی شاپنگ کرتی ہیں۔ جبکہ یہ ہیں تو گریڈ 16 تک کے سرکاری ملازم۔ اس کو چھان بین کر کے حقائق عوام کے سامنے رکھیں تاکہ مجھے پینے کے لئے صاف پانی اور بجلی ملے۔ تاکہ پھر سیلاب آئے یا پتھر گرے تو لوگ اندھیرے میں ڈوب نہ جائے اور ایسی کسی آفت آنے پہ محکمہ واٹر اینڈ پاور کے ملازم کے گھر خوشی سے کڑاہی نا بنے۔ یاد رہے کہ ڈیپارٹمنٹل انکوائری سے کچھ نہیں ہونے والا کیونکہ یہ فائل اتنے کلئیر رکھتے ہیں جیسے کوئی نمازی ایمانداری سے اپنے پانچ وقت کی نماز ادا کرتا ہو۔

شکریہ کے ساتھ آپ کے ملک کا ادنیٰ سا پاکستانی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).