بشریٰ بی بی کیوں ضروری ہیں؟


مرتے دم تک میری دادی یہی کہتی رہیں کہ بابا فرید کے دربار پر حاضری ضرور دینا کیوں کہ میری منت وہاں مانگی گئی تھی۔ میرا گھرانہ نظریاتی اعتبار سے سوشلسٹ تھا تو ظاہر ہے دادی بے چاری نے سخت مخالفت مول لے کر منت مانگی ہوگی۔ بہرحال منت پوری ہوئی لیکن میری ماں اکثر ازراہ مذاق کہا کرتیں تھیں کہ، ”بی بی اتنے جتن کر کے بیٹا مانگا ہی تھا تو فرمانبردار مانگ لیتیں“۔ میں نے کبھی سنجیدگی سے پاکپتن جانے کا سوچا ہی نہیں۔

آپ میری کمینگی دیکھیے کہ جب سے عمران خان وزیر اعظم بنے ہیں میں اپنے سارے مارکسی خیالات بالائے طاق رکھ کر پاکپتن ضرور جانا چاہتا ہوں کہ شاید قسمت کی دیوی مہربان ہو جائے لیکن میری بیوی کہتی ہے کہ، ”پاکپتن شریف تم جیسے جغادریوں کے لیے نہیں۔ اس کے لیے جیت کا یقین ہونا ضروری ہے“۔ مجھے یاد آیا کہ الیکشن سے کچھ دن پہلے خان صاحب کو اپوزیشن میں بیٹھنے حتیٰ کہ الیکشن کے ملتوی ہونے کا بھی جھٹکا لگ گیا تھا۔ یقین والی بات امکانات کے گرداب میں بہت پھیکی سی لگتی ہے۔ بہر حال سوچتا ہوں پاکپتن جاؤں لیکن پھر اماں کریماں یاد آجاتی ہیں جو کہا کرتی تھیں، ”جے منگ کے گھدا تے کے گھدا“ یعنی اگر مانگ کر لیا تو کیا لیا۔

بابا فرید تو ایک عظیم المرتبت صوفی ہیں لیکن مجھ جیسے ہوس کے ماروں کا تو المیہ ہی یہ ہے کہ جو کام شارٹ کٹ سے ہو جائے اس سے بہتر کیا ہے چاہے درگاہوں پر سلام کرنے سے کچھ مل جائے چاہے دادا گیروں سلیوٹ کرنے سے لیکن یہ ملنا اور نہ ملنا بھی تو حادثوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آج خان صاحب وزیر اعظم بن گئے ہیں تو سب کو ان کی بائیس سال کی محنت یاد آگئی۔ اگر نہ بن پاتے تو انہی لوگوں نے سارا صوفی ازم الٹا پھیر دینا تھا۔ میرا بہت جی للچا رہا ہے کہ پاکپتن حاضری دوں لیکن
خدایا جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں، کھنچتا جائے ہے مجھ سے

پہلی بات تو یہ کہ مجھ جیسے لوگ بکرے کی سریاں خرید ہی نہیں سکتے اور دوسرا دالیں جسم پر ملنے سے گدگدی ہوتی ہے۔ تیسرا یہ کہ میں تسبیح پکڑنے سے بھی باغی ہوں۔ مرزا غالب نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا، فرماتے ہیں،

زنار پھینک سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال
راہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر

اور پھر عقیدت کا اظہار بوسے سے کرنا بھی عز و ناز کے خلاف ہے۔ عقیدت اور عشق میں یہی فرق ہے کہ
عشق دل میں رہے تو رسوا ہو
لب پہ آئے تو راز ہو جائے

لیکن عقیدت جب اظہار بن جائے تو معاف کیجیے گا وہ ایک تماشا ہی رہ جاتا ہے۔ عقیدت کی معراج تو یہ ہے کہ
قمری کفِ خاکستر و بلبل قفس رنگ
اے نالہ! نشان جگر سوختہ کیا ہے

خیر بشریٰ بی بی ہمارے لیے بہت ضروری ہیں کیوں کہ ہم جب تک عقیدت کی کیش ویلیو نہیں پا لیتے در بہ در سجدے کرتے پھرتے ہیں۔ ولیم جیمز کہتا ہے ہر عقیدہ اور ایمان کی کوئی کیش ویلیو ہونی چاہیے اور اگر اس کی کوئی کیش ویلیو نہیں تو وہ عقیدہ محض ایک روکھی پھیکی سی روایت ہی رہ جاتا ہے۔ بشریٰ بی بی نے اپنے اعتقاد کی کیش ویلیو ثابت کi ہے اور اگر یہ ایک طرف اس قوم پر خان صاحب کی شکل میں احسان ہے تو دوسری طرف توہم پرستی کی ماری اس قوم کو مزید بے عمل اور غیر حقیقت پسند بنانے کی ایک غیر شعوری کوشش۔ کوئی شک نہیں کہ بشریٰ بی بی نے خان صاحب کو وزیر اعظم بنا کر دکھایا ہے گو کہ مجھ جیسے حاسد اب یہ کہتے ہیں کہ بشریٰ بی بی سے کہو ہمارے قرض اتار کر دکھائے، صاف پانی مہیا کر کے دکھائے، لاہور سے خنجراب تک ٹرین کی پٹڑی بچھا کر دکھائے، ایک کروڑ نوکریاں دے کر دکھائے،
تماشا! کہ اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

بشریٰ بی بی نے خان صاحب کے برانگیختہ جذبات کو ٹھراؤ دیا ہے۔ ریحام کے عہد میں خان صاحب کے جذبات شیمپین کے نشہ کی طرح تھے، ایک دم چڑھ جانے والے لیکن اب میدانی علاقوں میں دریا کے بہاؤ کی طرح ہیں، پر سکون انداز سے بڑھتے چلے جانے والے۔ ویسے بھی خاور مانیکا کی تیسری شادی کے بعد ہم جیسوں کا منہ بند ہو گیا ہے جو ہر وقت ہانکتے رہتے تھے کہ خاور مانیکا کا گھر خراب ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ کچھ رانا ثنا اللہ جیسے کہتے تھے کہ مرشد کی طرف تو سر نہیں اٹھتا، آنکھ کیسے اٹھ گئی۔ بھئی ہو سکتا ہے مرشد کی آنکھ اٹھ گئی ہو۔ مرشد کی آنکھ خدانخواستہ پتھر کی تو نہیں ہے نا!

تیری دید سے سوا ہے تیرے شوق میں بہاراں
وہ زمیں جہاں گری تھی تیرے گیسووؤں کی شبنم

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2