عمران خان سے وابستہ امیدیں


بنی گالہ کی خوبصورت پہاڑیوں پر مقیم ایک شہباز جس کی عقابی نگاہیں اسلام آباد پاکستان کے دارالحکومت پر گڑی ہیں۔ اس ملک کی قسمت کو بدلنے کا تہیہ کر رہا ہے۔ جو کہتا ہے کہ میں تبدیلی لائوں گا۔ جس کا دعوی ہے کہ میں نے کرکٹ کے میدان میں فتح حاصل کی، میں نے شعبہ صحت میں فتح کے جھنڈے گاڑے، میں فاتح ہوں اور رہوں گا۔ قوم ایک بار پھر مایوسی کو گناہ جان کر امید کی شمع جلا کر اس رہنما سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھی ہے۔

بنی گالہ سے باہر سڑکوں پر ہاتھوں میں امید کی شمع اٹھائے انسانوں کا جمِ غفیر ہے جو سرخ و سبز پرچم اٹھائے ایسے ہی لباس پہنے یا گالوں اور ماتھے پر پارٹی کا پرچم نقش کیے اپنے نئے قائد کی ایک جھلک دیکھنے کو موجود ہیں۔ عوام اس لیے بھی خوش ہیں کہ پچھلی حکومت کے خاتمے کے بعد جو عدم تحفظ اور عدم استحکام کا خوف طاری تھا اور ایسی صورتحال کے بعد ہمیشہ ہی مارشل لا کا خوف سر پر منڈلاتا رہا تھا وہ اب نہیں رہا۔ عمران خان کی آواز ایک کمزور غیر فعال وزیراعظم کے مقابلے میں نہایت جارحانہ ہے۔ انہوں نے نہایت پر اثر طریقے سے اپنے اوپر لگائے گئے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کےتعاون کے الزامات کو رد کیا ہے۔ اور وہ اپنی باتوں میں کئی بار اپنی کامیابی میں فوج کی عدم مداخلت یا ملک پر فوجی بجٹ کے بوجھ کو موضوع بنا کر اس کی نفی کر چکے ہیں۔

عوام کا جوش و ولولہ اس لیے بھی قابل دید ہے کہ ان کا قائد عمران خان رشوت ستانی، کرپشن، ٹیکس چوری کا خاتمہ، انتظامیہ کی درستی، ملک میں انصاف کی بحالی اور غریب بیوائوں کی دادرسی کی بات کر رہا ہے۔ عمران خان نے جو نعرہ لگایا تھا وزارتِ عظمی کا حلف اٹھانے کے بعد وہ اس کا اس شدت سے اعادہ کر رہے ہیں تو اس پر شک کر نا ٹھیک نہیں۔ انہیں صرف اس وجہ سے بھی موقع دیا جانا چاہیئے کہ اب پاکستان کے پاس زیادہ وقت نہیں۔

اس وقت ملکی صورتحال خاصی گھمبھیر ہے۔ عمران خان اور ان کے چاہنے والوں کا جوش و جذبہ کتنی ہی بلندی پر کیوں نہ ہو۔ حالات اتنے سازگار نہیں کہ ان کا نیا پاکستان بننے کا خواب آسانی سے پورا ہو جائے۔ مگر عمران خان ایسے ہی چیلنچ کو قبول کر کے ناممکن کو ممکن بنانے کے عادی رہے ہیں۔ حالانکہ ہمیں یاد ہے کہ ایسی ہی مایوس کن صورتحال میں اس سے قبل بھی ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے اور اسے عملا قائم کرنے، ایسے ہی عوام میں مقبول وزیراعظم کی راہیں مسدود کر دی گئی تھیں۔ مگر یہ وقت ان باتوں کو دہرانے کا نہیں، آگے دیکھنے کا ہے۔

عمران خان کو درپیش چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ملک کی کمزور ترین معیشت ہے۔ جو ملک کو دیوالیہ کے دھانے پر لیے کھڑی ہے۔ اور اس سے بچائو کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور آئی ایم ایف کا قرضہ ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو پاکستان کو اس مشکل سے نکال سکتا ہے۔ سچ کا یہ کڑوا گھونٹ ہم سب کو اپنے حلق سے اتارنا ہوگا کہ بنک دولت پاکستان کے پاس صرف نو بیلین یورو بچ رہا ہے جو کہ صرف دو ماہ کے لیے ہی کافی ہو گا۔ اور مملکت کو پچھلے بائیس مرتبہ کی طرح ایک بار پھر قرضہ لینا پڑے گا۔ اور اسلام آباد ایک بار پھر بارہ بلین ڈالر کے قرضے کے لیے آئی ایم ایف سے درخواست کر رہا ہے۔ اور ایسے میں نئے وزیراعظم کا بچت کی کوشش کرنا نوشتہ دیوار کے عین مطابق بھی ہے اور درست عمل بھی۔

پاکستان کی غیر مستحکم سیاسی صورتحال میں روپے کی قیمت بہت گر چکی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ عمران خان نے اپنی اولین تقریر میں جس حقیقت کو بیان کیا ہے وہ یہی ہے کہ اس ملک میں کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ اور سرکاری خزانہ صرف محصول اور صارفین کے ٹیکس سے کتنا بڑھ سکتا ہے اور عوام یہ بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہیں۔ اس بات کی اشد ضروت ہے کہ صاحبِ ثرورت اب قرضے معاف کرواکر چندے دے کر اپنے محلات کی برجیاں نہ بلند کریں بلکہ ایمانداری سے اور ملک کے محکمہ مالیات کی سخت نگرانی میں ٹیکس گوشوارے داخل کرکے رقم سرکاری خزانے میں داخل کریں۔

 اس موقع پر انہوں نے متوقع مخالفت اور حکومت کی جانب سے ٹیکس کی رقم کی حفاظت اور درست سمت میں استعمال کی بھی یقین دہانی کی ہے جو بہت حوصلہ افزا بات ہے۔ یقینا ان کے ذہن میں وہ زمین دار، سرمایہ دار اور صنعت کار بھی ہونگے جو ٹیکس چھوٹ کی لعنت سے ملکی معیشت پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں۔ عمران خان نے خرابی کا ذکر اور مسائل کا حل جس واشگاف طریقے سے کیا ہے وہ اس سے پہلے ماضی قریب میں کسی نے نہیں کیا ہے۔ اس سے ان کی ہمت اور ولولے کے ساتھ ساتھ کھرے ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے۔

عمران خان کو درپیش ایک بڑا چیلنج سرکاری دفاتر اور دیگرعوام کی خدمت کرنے والے سیکٹر میں پھیلی اور روز بروز بڑھتی رشوت ستانی بھی ہو گی۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو فوجی ملازمین کی تنخواہوں سے ہم آہنگ کر نا ہوگا تاکہ رشوت ستانی کی لعنت ختم ہو۔ پاکستان میں رشوت ستانی کا یہ عالم ہے کہ سرکاری محکمے رشوت کے بغیر کوئی عرضی لینے کو بھی تیار نہیں۔ ایسے کس طرح یہ امید کی جا سکتی ہے کہ کوئی غیر ملکی سرمایہ دار یہاں اپنا سرمایہ لگائے گا ۔ عمران خان جو عرصے سے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا رہے ہیں اور جس کا انہوں ازسرنو اعادہ کیا ہے تو یقیناً اب وہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کریں گے۔

ایک اور بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے۔ گرچہ کہ یہ فی الوقت پاکستان میں معدوم ہوتی نظر آرہی ہے مگر خان صاحب کو یہ مسئلہ بھی خاصی سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ فوج کا وقار بھی بحال کرانا بھی ان کے لیے سرِ فہرست عملی اقدام میں شامل ہونا چاہیئے۔ پاکستان کی فوج کا دنیا میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ پاکستانی افواج نہیں ہے بلکہ افواج کا ملک پاکستان ہے۔ اس تاثر کی مناسب سمت دینی ہوگی۔

عمران خان کو بہرحال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ سیاست کے دونوں طاقتور حلقوں اور طاقت کے تیسرے منبع کو آرام کرنے کا مشورہ دے کر پاکستان کو دنیا میں نئی شناخت دینے کا عزم لے کر اثھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).