پارلیمنٹ ہاؤس، دیوار ِ گریہ اور ” حضرت مولانا “


 

قصہ منقول ہے کہ ایک دن پارلیمنٹ ہاؤس کے سکیورٹی گارڈ نے اپنےچیف کو اطلاع دی کہ رات کی تاریکی میں جب یہ علاقہ مشعلِ افرنگ سے بقعہ نور بنا ہوتا ہے تو ایسے میں ایک مردِ با ریش شائبہ درویش جس نے چہرے کو چار خانے کے عمامے سے ڈھانپا ہوتا ہے شکل اس کی جی کو جلاتی ہے اور نگہ بلند نہیں، تنگ نظر آتی ہے، گاہے چلا آتا ہے جان ہماری کو آن کھاتا ہے وہ مردِ باریش شائبہ درویش جانے کس جرم کی سزا بھرتا ہے سامنے اس ہاؤس کے گریہ کرتا ہے اس کی آہ و بکا سے سننے والے کا کلیجہ منہ کو آتا ہے دل گھبراتا ہے اور ہاؤس لرز لرز جاتا ہے۔ عجب آزاد مرد ہے نہ اس کا سخن دل نواز نا ہی آواز میں درد ہے۔ اس پہ وہ شخص روتا ہے چلاتا ہے مجھے تو یہ شخص کہ جس کی شکل مومناں ہے کے دماغ میں خلل نظر آتا ہے اس لئے اے حاکم، حکم صادر فرما کہ کہ اس عجیب و غریب مردِدرویش کے ساتھ کیا معاملہ کیا جاوے؟۔

سن کر کتھا اس گارڈ کی حاکم غصے سے لال ہوا پھر دل میں خیا ل ہوا کہ معلوم کیا جاوے کہ مردِ باریش اس قدر کیوں ملال ہوا اور کیسے یہ اس کا حال ہوا؟ یہ سوچ اس نے یوں کلام کیا کہ اے میرے مطیع و حکم بردار ذ را حساب لگا اور مجھے بتا کہ اب کے بار وہ کب آوے گا ؟ سنتری نے اپنی جیب سے دستی جنتری نکالی پھ راس کتاب سے دیکھ حساب لگایا اور یوں فرمایا ۔ اے سنتریوں کے (سب سے) بڑے سنتری چونکہ آج اماوس کی رات ہے اور اس رات کو کائنات کی ساری بلائیں زمین پر اترتی ہیں اس لیئے امیدِ واثق ہےکہ اس مردِ باریش کا آنا لازم ٹھہرے گا یہ بات سُن بڑے سنتری نے اپنا بھاڑ سا منہ کھولا اور پھر بولا۔ سانحہ تقدیر لگتا ہے، معاملہ گمبھیر لگتا ہے ساتھ تمہارے میں بھی چلتا ہوں اور اس ناہنجار سے بات کرتا ہوں۔

سخت کالی رات تھی دور تلک سناٹا تھا ایسا سناٹا کہ ہول اُٹھتا تھا تا حدِ نگاہ چرند پرند نہ دکھتا تھا ۔ایسے میں ایک مہیب سا ہیولا نظر آیا جسے دیکھ کر حاکم گھبرایا لیکن سنتری نے اس کا کاندھا ہلایا اور ہولے سے بتلایا اے حاکم سنتریاں گھبرا مت یہ وہی مردِ باریش ہے جو آدمی ہے نہ درویش ہے اس نے ہمیں ستایا ہے وہ دیکھ ہماری طرف ہی آیا ہے۔اسی وقت اس مردِ باریش نے کہ جس نے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے کھڑے ہو کر ایسی آہ کھینچی کہ جسے سن کر حاکم کے دل میں درد اور موسم سرد ہو گیا۔ آہ و بکا کے بعد اس مردِ باریش نے گریہ شروع کر دیا۔ اور اس قدر رویا کہ پارلیمنٹ کی عمارت دو دو ہاتھ پانی میں ڈوب گئی ۔

بعد از گریہ جب اس مردِ باریش نے واپسی کے لیئے قدم بڑھایا تو نا جانے حاکم کے من میں کیا آیا وہ دوڑ اس کے پاس گیا اور بعد قدم بوسی کے بتلایا کہ اے شخص آگاہ رہو کہ یہ پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت ہے دیوارِ گریہ نہیں۔ نیز بری امام کا مزار یہاں سے ایک آدھ کوس دور واقع ہے وہاں گریہ کرنے کا تمہیں نفع بھی ہو سکتا ہے یہ سن کر پہلے تو مردِ باریش سٹپٹایا پھر بعد توقف کے مسکرایا اور بڑے سنتری کی طرف دیکھ فرمایا کہ تُف ہے تیری حیات پر بھلا مجھ جیسے گھاگ کو معلوم نہ ہو گا کہ یہ پارلیمنٹ کی عمارت ہے، دیوارِ گریہ نہیں لیکن کیا کروں مجبور ہوں دل کے ہاتھوں عاجز ہوں مقہور ہوں۔

اس پر (بڑا) سنتری بولا اے شخص تجھ پر ایسی کیا افتاد آن پڑی کہ زار و قطار روتا ہے اور ناحق دل کو کھوتا ہے۔ حاکم کی بات سن کر وہ بندہ باریش نہ آدمی نہ درویش دکھی دل سے بولا کیا بتاؤں اے ہمدم عزیز معاملہ سخت ہے اور جاں عزیز ، کبھو ہم بھی اس عمارت کے مکین تھے کیا آن تھی ہماری کیا شان تھی ہماری۔ ہمارے ایک اشارہ ابرو پر حکومت بنتی اور بگڑتی تھی حاکمِ وقت دم بھرتا تھا جو کہتے تھے وہی کرتا تھا۔ لیکن اس دفعہ عجب چناؤ آیا ہے کسی ظالم نے مینڈیٹ میرا چرایا ہے۔ چنانچہ جب بھی آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ تومیرے دل میں ہول اور پیٹ میں مروڑ اُٹھتا ہے۔ چنانچہ رنج و ملال و اضطراب جب حد سے بڑھتا ہے تو اس عمارت کا رُخ کرتا ہوں کہ اس کے بنا نہ جیتا ہوں اور نہ مرتا ہوں۔ آ کر یہاں میں بمصداق قہرِدرویش بر جانِ درویش گریہ کرتا ہوں تو تھوڑا چین بھرتا ہوں۔

جب اس مردِ درویش نے بھید کھولا تو سن کے بڑا سنتری بولا کہ اے پیرِ مغاں بندشِ حالات سے قہر ہوئی جاتی ہے۔ پلے سے روٹی کھا کھا کے تیری حالت غیر ہوئی جاتی ہے ہر چند کہ مردِ ناداں پر کلام نرم ونازک بے اثر ہوتا ہے پھر بھی یہ عاجز کہے دیتا ہے کہ اب جو تو مانند مجنون اس عمارت کا دم بھرتا ہے کاش تو عیش کے دنوں میں خلقت کا پاس رکھتا تو زمانہ بھی تیرا احساس رکھتا تو کہ اپنے جبے عمامے پہ فخر کرتا تھا، خواہ مخواہ ہی اکڑتا تھا تو نے اپنا ہی پیٹ بھرا ہے نام غریبوں کا محض دھرا ہے۔ تم امیدوار تھے کہ ممبری کا پھل تجھ کو بھی ملے تو تیرا غنچہ دل مانندِ گل کے کھلے۔ کاش تو نے ان غریبوں کا کچھ کیا ہوتا تو یوں در بدر نہ پھر رہا ہوتا۔ مثل مشہور ہے کہ

خدا اس پاس، یہ ڈھونڈے جنگل میں

ڈھنڈورا شہر میں، لڑکا بغل میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).