اکیسواں خواب نامہ۔ من مندر کی گھنٹیاں



26 مئی 2018

یا درویش رابعہ مشرق کی زمین سے سلام کہتی ہے۔ یہاں صبح ہو چکی ہے۔ خوشگوار ہوا ہر سو مچلی پھر رہی ہے۔ خود بھی بہکی بہکی سی ہے۔ دوسروں کو بھی مخمور کر رہی ہے۔ شکریہ کہ درویش نے رابعہ کے چبھتے سوال کا جواب ایک بار پھر دیا۔ رابعہ جانتی ہے کہ وہ کسی خاص و عام انسان سے یہ پوچھتی تو وہ آگ بگولہ ہو کر پہلے تو رابعہ کے کردار کی دھجیاں اڑاتا اور پھر بھاگ کھڑا ہوتا۔ جنگل میں آگ لگانے۔ ہر محفل میں موقع بے موقع تذکرہ خون دل لے بیٹھتا۔

درویشی کا یہی وصف ہے کہ یہ منصب بلند اور ظرف گہرا رکھتا ہے۔ رابعہ بصری و حسن بصری کی گفتگو میں یہ حسن و فن بہت نکھر کر سامنے آیا ہے۔
منصور حلاج کے ہاں بھی یہ خوبی بہت گہرائی و گیرائی کے ساتھ موجود ہے۔
واللہ ہم اس مادی دور کے درویش کس بلند و بالا اولیاء کا تذکرہ لے بیٹھے۔

رابعہ کو خوشی ہوئی کہ درویش کی زندگی میں دو خواتین اس کی نانی امی، اور بے ٹی وہ خواتین ہیں، جنہوں نے اس کو دانائی کے سفر میں ساتھ رکھا۔ درویش نے ایک گذشتہ خط میں لکھا ”بے ٹی ڈیوس نے کہا کہ درویش نے اسے ایک دفعہ بتایا تھا کہ” ہماری دوستی اتنی اہم ہے کہ ہمیں اسے اوروں سے نہیں، خود سے بھی بچا کر رکھنا ہے۔ ہر انسان کی شخصیت کا ایک روشن پہلو ہوتا ہے اور ایک تاریک۔ ہمیں اپنی دوستی کو اپنے تاریک پہلو سے بچانا ہے تا کہ وہ ہماری دوستی کو مجروح نہ کر دے“ اور بے ٹی یہ بات سمجھ گئی کہ زندگی اتنا بڑا راز ہے کہ اس راز کی حفاظت خود بھی کرنی پڑتی ہے۔ جو مرد کبھی دانا عورت سے نہیں ملے ہوتے، ان کے اندر ایک خانہ خالی رہتا ہے۔ جس خلا کو وہ محسو س تو کر سکتے ہیں۔ بیان نہیں کر پاتے۔ کیونکہ مردانہ انا، اسے انسانیت کے تقاضوں سے دور رکھنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ رابعہ نے آپ کی نانی جان کا پڑھا تواسے بھی اپنی نانی جان یاد آ گئیں۔

کیونکہ ایک طرف ددھیال تھا نستعلیق دوسری طرف ننھیال تھا۔ لاہور wall city کا۔ جس کی ایک اپنی تہذیب ہے۔ کھلے دل کے سادہ لوگ، بلند آواز میں گفتگو کرنے والے، آرام طلب، مذہب کا تصور بھی جن کا اپنا ہے، نا مولوی کا ہے نا عالم کا، اپنا تہذیبی مذہب جہاں اندھا عشق حقیقی۔ اللہ اللہ کبوتر کی طرح، شہر کے آس پاس مزاروں کی تعداد بھی کا فی ہے، یہا ں کے لوگ انہیں آباد بھی رکھتے ہیں، اپنی خوشی، غم میں یہی آتے ہیں۔ اور ان کی وجہ سے خلق خداکا لنگر لگا ہو اہے۔ بس ایک سادہ سی دنیا ہے۔ محبت و نفرت میں شدت مگر وقتی، لڑیاں جھگڑے مگر وقتی، دل میں دماغ میں کچھ بھی مستقل رکھنے کی جگہ نہیں، فراخ دل لوگ، خوش خوراک، مہمان نواز لوگ مگر دماغ کو سنبھال کر رکھتے ہیں اس کی جگہ جذبات سے کام لیتے ہیں۔ مل بیٹھنے کے، گپ شپ کے بہانے تلاشتے ہیں اور خوب مزا کرتے ہیں۔

یوں رابعہ دو بالکل متضاد تہذیبوں میں پلی بڑھی۔ جن کی نا زبان ایک تھی، نا رہن سہن، نا آدرش، نا رسم و رواج سب ایک دوسرے سے یکسر مختلف۔ رابعہ سے راز جیسا سوال درویش نے پوچھ لیا ہے اس کا جواب کیا دے؟ کیونکہ رازوں کا حسن چھپے رہنے میں ہی ہے۔ بہت سے صوفیوں، سادھوں سے ملنے کا شوق تھا۔ اتفاق بہت کم ہوا۔

غازی علم دین شہید سے کچھ غائبانہ سا تعبیرخواب کہہ سکتے ہیں۔ کہ رابعہ کا بی اے کا رزلٹ کارڈ غلط پرنٹ ہو گیا، پنجاب یونیورسٹی قبول نہیں کر رہی تھی، انہی دنو ں وہ کسی کیلی گرافی نمائش پہ گئی۔ خطاط کا نام یاد نہیں۔ ان سے باتوں میں بات چھڑ گئی تو انہو ں نے اسے کہا غازی صاحب کے مزار ہی جاؤ نفل پڑھو، اللہ سے دعا کرو۔ وہ بے یقین گئی، خواب میں دیکھا کہ وہ کسی بہت حسین عمارت کی ڈھلوان چڑھ رہی ہے، تب تو کچھ نا سمجھی، ایک سال بعد جب جی سی یو میں اینٹری ٹیسٹ دینے گئی تو یہ وہی ڈھلوان تھی ویسے ہی اس روزبارش تھی۔ اورآخر کا ر وہ راوین بنی۔ اس نے وہاں سے پڑھنا تھا جہاں کا سوچا بھی نہیں تھا۔

ایک شخصیت جس نے رابعہ کو متاثر کیا وہ تھی عرفان الحق صاحب کی ہے بے لوث اور با کمال۔ ان سے ملاقات ایک اتفاق تھی۔ یہ وہ دور تھا جب رابعہ ذہنی طور پہ اتنی بکھری ہوئی تھی کہ اس انتشار کے بیان کے الفاظ بھی نہیں ہیں۔

معراج کا مہینہ تھا۔ یہ مہینہ رابعہ اس لئے پسند ہے کہ محبوب محب سے ملا تھا سب کچھ تھم سا گیا تھا۔ اس میں وہ راز پناہ ہیں کہ اگر ہم سمجھ لیں تو محبوبیت کی رمز جان لیں۔ محبت میں عزت و احترام کا مقام کیا ہے۔ رابعہ نے اپنے ایک مضمون میں عرفان الحق صاحب کی کہی یہ بات لکھی تھی۔

”صبح کا وقت تھا۔ ہو ا میں ہلکی کی خنکی تھی۔ کچھ نہر کنا رے کا اثر تھا۔ میں مطلو بہ جگہ پہنچی، چا روں اور سناٹے کی آوازیں، پھو لو ں کی مہک کے ساتھ روح تک کو چھو تی محسوس ہو رہی تھیں۔ زند گی ایک لمحے کے لئے زما ن و مکا ن سے آزاد ہو کر نجا نے کہا ں کا سفر کر آ ئی۔ ایک کشادہ لا ن سے گز ر کر جب میں اس سفید کمر ے میں داخل ہو ئی تو واقعہ معرا ج پہ گفتگو ہو رہی تھے کیو نکہ شب معرا ج کی آ مدآمد تھی۔ اور یہا ں عاشقان مصطفی ﷺ اکٹھے تھے۔ سب مختلف محکمو ں سے ریٹایرڈ افسران۔ جو یہاں مخصو ص تہواروں پہ اکھٹے ہو کر اپنے مشترکہ عشق ﷺپہ باتیں کر تے ہیں۔ معراج ﷺ کے ان نقطوں کو د یکھا جا رہا تھا جن پہ عمو ماً نظر نہیں جا تی۔ صاحب محفل عرفان الحق صاحب اپنا نقطہ نظربیان کر رہے تھے۔

”آج کے دور میں ہم بہت فخر کر تے ہیں کہ میرے پا س اتنی بڑ ی گا ڑی ہے، فلاں میر ے گھر اتنی بڑی گا ڑی میں آ یا۔ فلاں کے گھر میں فنکشن تھا تو فلاں فلاں ما ڈل کی گاڑی آئی، مگر واقعہ معرا ج عز ت کے معیا رات کا کچھ اور درس دے رہا ہے۔ کہ جسے ہم محبت کر تے، عز ت دیتے ہیں اس کو تو ہم اپنی اعلی ترین سواری بھیج کرخود بلاتے ہیں، اور اسی پہ واپس اس کی منز ل تک چھو ڑ کے آتے ہیں۔ یہ نہیں کہتے کہ آ جا نا بھئی، فلاں فلاں وقت پہ۔ اور وہ اپنے ہیلی کا پٹر میں بیٹھ کر آ جا تا ہے اورہم ٖفخر سے تن جاتے ہیں، نہیں، یہ کسی کو عزت دینے کا کو ئی طر یقہ نہیں۔ یہ تو قیر کا کو ن سا سلیقہ ہے، ؟ یہ احترام کو کون سا ر نگ ہے؟ “

عرفان الحق لاہور آئے تھے۔ مسلم ٹاون میں وہ مرعوب صاحب کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ ظفر انکل نے رابعہ کو بھی وہیں بلا لیا تھا۔ سن رکھا تھا عرفان صاحب خواتین سے نہیں ملا کرتے تھے۔ رابعہ جب وہاں پہنچی تو ان کا کمرا حضرات سے بھرا ہوا تھا۔ رابعہ اکیلی عورت وہاں ان سے ملنے اس وقت موجود تھی عرفان انکل سے رابعہ کی فون پہ بات ہو چکی تھی۔ فروری کا مہینہ تھا کھانا کھایا گیا۔ کچھ لوگ اپنے مسائل بیان کرتے رہے۔ اور کچھ عرفان انکل کے ساتھ عقیدت کا اظہار اور ان سے جڑے واقعات۔ یوں دھیرے دھیرے لوگ باہر جاتے رہے۔ عرفان انکل اپنی کرسی سے اٹھے اور رابعہ کے ساتھ والی کرسی پہ آ کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد وہ خاموش ہو گئے۔ کمرے میں چند لوگ ہی رہ گئے تھے، کچھ جا چکے تھے۔ کچھ باہر لان میں موسم کا مزہ لینے نکل گئے۔ رابعہ نے محسوس کیا فقیر اپنی تاثیر ساتھ لے کر سفر کرتا ہے، فقیر کی موجودگی میں اہل محفل بھی فقیر ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ وہا ں اس وقت مرد و عورت نہیں انسان موجود تھے۔

رابعہ کو کچھ دیر بعد پسینے آنا شروع ہو گئے وہ سویٹر اور گرم سوٹ میں پسینے سے اتنا بھیگ گئی کہ کپکپی طاری ہو گئی، اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے جسم سے جان پیروں کے رستے باہر نکل رہی ہے۔ اتنے میں ایک صاحب قہوہ لے کر آ گئے۔ کپ پکڑتے ہوئے رابعہ کے ہاتھ کانپ رہے تھے اسے سردی بھی شدید لگنے لگی۔ یوں پہلی بار ہوا تھا۔

عرفان انکل سے رابعہ بہت کچھ پوچھنا چاہتی تھی۔ مگر سب سوال گم تھے۔ انکل سے وہ ایک گلہ نما سوال فون پہ پوچھ چکی تھی کہ آخر اسے زندگی محنت کے بعد بھی کیوں نہیں ملی، جو اس دنیا کی ضرورت ہے لیکن اب یہ سوال بھی ذہن سے غائب تھا۔ انکل عرفان کو یاد تھا انہوں نے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بعض اوقات ہم ٹافیوں کی خواہش کرتے ہیں۔ دینے والے کو کچھ اور ہی منظور ہو تاہے۔
بس وہ لمحہ انتشارکا آخری لمحہ طویل تھا۔ پھر سکون ہو گیا۔ آس پاس کے کاغذی چہروں سے پردہ اٹھنے لگا۔ رابعہ کو یوں لگا جیسے وہ کسی بلند پہاڑی پہ، کسی آرام کرسی پہ بیٹھی، نیچے دنیا والوں کے رنگ دیکھ رہی ہے۔

اب رابعہ پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی ماورائے عقل واقعات کا بہت خوبصورت مجموعہ ہے۔
رابعہ جس ماحول میں پلی بڑھی تھی وہاں کچھ بھی ایسا ہو سکتا تھا کہ عمر بھر کا ملال رہ جاتا مگر اسے یوں لگا کہ جیسے وہ کسی کی پناہ میں رہی۔ اور وہ اسے دنیا کے رنگوں کی سیر کروا رہا ہے۔
رابعہ کے من مندر کی گھنٹیاں بھی آسانی سے نہیں بجتی تھیں، سو محبت نام کی کشش بھی ٹین ایج میں خوشبو نا بن سکی۔ رنگ نا بکھیر سکی۔

آٹھ بھائیوں میں پلنا بھرنا۔ فیملی کے ساتھ ہر جگہ جانے کی آزادی تھی۔ خاندان بھر کی دونوں طرف لاڈلی۔ محبت نے سایہ کیے رکھا۔ بعض اوقات محبت کا سایہ زندگی چھین لیتا ہے۔ سختی تھی توصرف والدہ بہت سخت رہیں۔ بچپن میں خوابو ں میں بہت سے مقامات کی سیر کی۔ اس کا شو ق یوں رنگ لا رہا تھا۔ اور وہ اس سے بھی خوش تھی۔ اسے چھوٹی چھوٹی باتیں اور چیزیں خوش کر نے کے لئے کا فی ہو تی تھیں۔

ظہیر انکل، یہ بھی ایک نفیس طبعت انسان ہیں۔ ایک کانفرنس میں اچانک ان سے ملاقات ہوئی۔ مثبت لہروں کا احساس ہو ا۔ بات ہوئی تو ان کے ذاتی واقعات سننے کے بعد احساس یقین میں بدل گیا۔ رابعہ گذشتہ برس ایک ادبی حلقے کی دلدل میں پھنس گئی۔ رابعہ کو اچانک سوجھا کہ ظہیر انکل سے بات کی جائے۔ جب رابعہ نے ان کو سارامعاملہ بتایا تو انہو ں نے یاد دلایا کہ ’میں نے تو تمہیں بہت پہلے منع کیا تھا، ان لوگوں کے ساتھ کام کرنے سے۔ پھر بہت یقین کے ساتھ کہا فکر نہیں کرو ”مجھے فون کر لیا کرو، سمجھو کہ ٹینشن نہیں رہے گی کم از کم، نجانے کیو ں جب کوئی مجھے ٹینشن میں ملا ہے۔ اس کی ٹینشن ضرور ختم ہو جاتی ہے“

پھر یہی ہوا
رابعہ کو علم ہی نہیں ہوا کہ کوئی غیبی مدد کہاں سے آ رہی ہے۔ اور کیا کیا ہو رہا ہے۔ رابعہ کی عزت اس طاقت نے رکھ لی جسے ہم اللہ کہتے ہیں۔
رابعہ نے بس دو نفل پڑھ کر اسے یہی کہا تھا زمین پہ تو کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا۔ تین سو تیرہ سپاہیوں کی فوج کو تیری غیبی مدد درکار ہے پروردگار۔ رابعہ نے اس کے بعد صدقہ دیا۔ مرتبہ کام روانہ کیا۔ اس کو پینک اٹیک ہو گیا ہوش کھو گئی۔ سب میڈیکل ٹیسٹ ٹھیک تھے۔ لیکن وہ غنودگی میں چلی گئی۔ سب کو یقین ہو گیا اب یہ کام کبھی رابعہ کے نام سے پبلش نہیں ہو گا۔ دنیا داروں کے میسج آنے لگے جس میں وہ رابعہ کا مذاق اْڑاتے کہ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر۔ ہو تو آخر عورت ناں۔

نا کرسی۔ ، نا دولت، نا پی آر، نا خوشامد۔ نا سودا۔ ہار مان لو۔ وہ ہار مان لیتی اگر کسی طاقت کے ساتھ نا ہو نے کا اسے یقین نا ہو تا۔
رابعہ نے سب سے بڑی زبان بولنا شروع کر دی۔ خاموشی۔
اور چند ماہ بعد رابعہ کی دوست آمنہ مفتی رات کے ایک بجے کہتی ہے رابعہ مبارک ہو۔ ’اردو افسانہ عہد حاضر میں‘ شائع ہو گیا ہے۔ رابعہ کو ہوش آنے لگا۔ بے یقینی کی کیفیت تھی۔
سب کرسیاں، دولت، دنیا داری، یاریاں سب دنیا میں ہی رہ گئے اور وہ آسمان والی طاقت جیت گئی۔

بارہ سال سے اب تک یہی سب ہے کہ جیسے کو ئی طاقت ہے۔ جو کسی نا کسی روپ میں جلوہ گر ہو کر، اپنی شان دکھاتی ہے۔ رابعہ ایک اور طاقت کو جانتی ہے۔ وہ ہے صدقہ، جب وہ پریشان ہوتی ہے، اداس ہو تی ہے، خالی پن محسوس کرتی ہے، صدقہ پہ یقین رکھتی ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جس کے پیچھے ہم اپنی فانی دنیا خراب کر رہے ہیں۔ اگر اسی کو اپنی ذات سے نکا ل دیں تو کچھ ملے نا ملے، سکون مل جاتاہے۔

درویش نے رابعہ سے ایسا مشکل سوال پوچھ لیا ہے کہ جواب دیتے ہوئے ڈرتی ہے
کہ تعلی، نرگسیت، تکبر نا سمجھ لیا جائے۔
رابعہ ان سب سے ڈرتی ہے۔
رابعہ درویش سے کہنا چاہتی ہے، بہت سے راز صرف راز کے لئے ہوتے ہیں۔ بس اتنا بتا دیا جائے جو کسی کے لئے مشعل راہ بن جائے باقی سب زمین کی امانت ہو ا کرتا ہے۔
اس کا حسن و تکریم اسی میں ہے۔
یادرویش
راز در راز زندگی اجازت چاہتی ہے۔
صبح بخیر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).