پھولوں کا جزیرہ اور صوفیہ کا ساتھ



صوفیہ اور میری سائیکل ساتھ ساتھ تھی۔ کبھی وہ آگے نکلنے کی کوشش کرتی اور کبھی میں اور کبھی ہم دونوں ہی تھک کر سائیکل آہستہ آہستہ ایک ساتھ چلانا شروع کردیتے۔ ٹیولپ کے سرخ، پیلے، زعفرانی اور نرگس کے سفید پھول تاحد نگاہ پھیلے ہوئے تھے۔

گلِ لالہ اور نرگس کے اتنے زیادہ اور اتنے وسیع رقبے پر پھیلے یہ پھول میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھے تھے۔ یہ کھیت کائنات کے کسی اَن دیکھے طلسماتی جزیرے کے لگ رہے تھے اور یہ مناظر لمحوں کو صدیوں پر محیط اور محسوسات کو امر کردینے والے تھے۔

ٹیکسل جزیرے کے ان کھیتوں کے درمیان سائیکل کے لیے خصوصی راستے بنے ہوئے تھے اور ہم گزشتہ 2 گھنٹوں سے قوسِ قزاح کی طرح ان ست رنگی کھیتوں کے بیچوں بیچ سیدھے اور ہموار راستوں پر بے ترتیب گھوم رہے تھے۔ کبھی کبھار ہوا کا تیز جھونکا آتا تو ہم دونوں کی سائیکلیں ڈولنا شروع کردیتیں۔ تیز ہوا سامنے سے پڑتی تو تمام تر زور لگانے کے باوجود سائیکل کو آگے کی طرف لے جانا مشکل ہوجاتا۔

ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے صوفیہ کے آسمانی مسکراہٹ والے گندمی گال اور خوبصورت نوکیلی ناک ہلکی ہلکی سرخ ہوچکی تھی لیکن وہ کسی بے ڈور پتنگ کی طرح بس آگے سے آگے نکلنے کی دُھن میں تھی۔ پھولوں کے ان میلوں میل پھیلے ہوئے حسین اور دلفریب سلسلے میں وہ اُفق کی آخری حدوں کو چھونے کی طلب میں تھی۔

ہالینڈ پھولوں کا دیس ہے۔ دنیا کے تقریباً 80 فیصد فلاور بلب (گھٹیاں) ہالینڈ سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح دنیا میں سب سے زیادہ گل لالہ (ٹیولپ) بھی یہی ملک برآمد کرتا ہے۔ اس ملک میں ٹیولپس کی ہزاروں اقسام پیدا کی جاتی ہیں۔ ہالینڈ میں دیگر درجنوں اقسام کے پھول بھی اگائے جاتے ہیں اور ان میں سے تقریباﹰ 90 فیصد دیگر ملکوں کو برآمد کیے جاتے ہیں۔

سالانہ لاکھوں لوگ ہالینڈ کی سیر صرف پھولوں کے کھیتوں کی وجہ سے کرنے آتے ہیں۔ ہارلیم نامی علاقے کو ایسے گلوں کا مرکز کہا جاتا ہے لیکن پھولوں کی سالانہ پریڈ اور سیکڑوں اقسام کے پھولوں کے ‘کوکن ہاف پارک’ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

اصل میں ہالینڈ اور ٹیولپ کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ ٹیولپ اس ملک کا پھول نہیں ہے۔ اسے 15ویں صدی کے عثمانی دور میں قیمتی ترین پھول سمجھا جاتا تھا۔ اس خوبصورت گل کو پہلی مرتبہ 1555ء میں ویانا کے بادشاہ فیرڈینانڈ اول کا ایک سفارت کار استنبول سے یورپ لایا تھا اور وہاں سے پھر یہ وسطی یورپ کے شہزادوں اور بادشاہوں کے باغوں تک پہنچا۔ بعدازاں 16ویں صدی میں انہیں ترکی سے باقاعدہ ہالینڈ درآمد کیا جانے لگا۔

معیشت کی دنیا میں آپ نے یہ اکثر سنا ہوگا کہ یہ ‘ٹیولپ مانیا’ نہ ثابت ہو۔ یہ ٹیولپ مانیا کا لفظ اسی ٹیولپ یا گل لالہ سے نکلا ہے۔ 1630ء کی دہائی میں ہالینڈ میں اس پھول کی قدر ایک گھر کی قیمت کے برابر ہوچکی تھی۔ یہ پھول فراری کار کی طرح ایک اسٹیٹس سمبل بن چکے تھے۔ ہالینڈ کے امراء، تعلیم اور مراعات یافتہ طبقے کے باغیچوں میں اس پھول کو رکھنا باعث عزت سمجھتے تھے۔ منافع بخش ہونے کی وجہ سے کسانوں سمیت ہالینڈ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس تجارت میں شامل ہوچکا تھا۔

پھر فروری 1637ء کو ایک دم اس کی قیمتیں گرنا شروع ہوئیں اور اس طرح دنیا کا پہلا ریکارڈ شدہ معاشی بحران پیدا ہوا تھا، جسے ہم آج تک اکنامک ببل یا ‘ٹیولپ مانیا’ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

یہ جزیرہ بھی ٹیولپس سے لدا ہوا تھا اور ہم چند دوست گزشتہ شام ہی ہالینڈ کے اس سب سے بڑے جزیرے پر پہنچے تھے۔ میں دوسری مرتبہ ہالینڈ آیا تھا لیکن اس جزیرے پر آکر مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میری برسوں کی تھکن اتر رہی ہو۔ یہ اپریل کا مہینہ تھا اور ہالینڈ کے اس شمالی جزیرے کو نارتھ سی کی یخ بستہ ہواؤں نے ابھی تک اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔

اس جزیرے پر پہنچنے کے لیے ہالینڈ کے شہر ‘دِن ہیلڈر’ تک تو آسانی سے آیا جاسکتا ہے لیکن اس کے بعد گاڑیوں سمیت ایک بڑے بحری جہاز پر سوار ہونا پڑتا ہے، جو مسافروں کو یہاں تک لے آتا ہے۔ ہم نے جزیرے پر ایک مکان پہلے ہی چند روز کے لیے بُک کر رکھا تھا۔ ہماری گاڑیاں تو اسی کاٹیج نما مکان میں کھڑی تھیں لیکن یہ سائیکل ہم نے گھر کے قریب ہی واقع ایک دکان سے کرایے پر لی تھیں۔

ہالینڈ کی خاص بات یہ ہے کہ حکومت انتہائی ماحول دوست ہے۔ ڈچ حکومت سن 2025ء تک ڈیزل اور پٹرول گاڑیوں کی فروخت پر پابندی کا منصوبہ رکھتی ہے تاکہ صرف الیکٹرک گاڑیاں اور سائیکلیں ہی سڑکوں پر چل سکیں۔

اس ملک کی آبادی سے زیادہ یہاں پر سائیکلیں ہیں۔ دنیا میں سائیکل چلانے کے حوالے سے سب سے محفوظ ترین ملک ہالینڈ کو ہی تصور کیا جاتا ہے۔

اس جزیرے پر بھی سائیکلوں کے لیے خوبصورت راستے دل موہ لینے والے تھے۔ میلوں تک پھولوں کے کھیت اور کٹوروں جیسے صندلی نینوں والی صوفیہ کی ہمراہی میں مجھے یہ جزیرہ واقعی بہشت کا کوئی ٹکڑا لگ رہا تھا، پھولوں اور صوفیہ کی دلفریب مسکراہٹ کا طلسم آنکھوں کو پتھر کر رہا تھا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3