شہباز شریف کو کس نے پارٹی صدر بنایا ہے؟


سوشل میڈیا ہو یا مسلم لیگ نون والوں کی کچھ سیاسی محفلیں، وہاں پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ ن کے موجودہ صدر شہبازشریف کی حکمت عملی پر اعتراضات ضرور سنائی دیتے ہیں۔ پہلا عمومی قسم کا اعتراض تویہ سامنے آیا کہ شہباز شریف نے پارٹی کی انتخابی مہم پورے جوش و خروش کے ساتھ نہیں چلائی۔ دوسرا طاقت ور اعتراض اس وقت ہوا جب میاں نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی کے موقعے پرشہباز شریف لوہاری دروازے سے روانہ تو ہوئے مگر علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ تک نہیں پہنچ سکے، وہ کسی جگہ پر اپنا انقلابی قسم کا خطاب کرتے، حبیب جالب کی نظمیں پڑھتے، نگران حکمرانوں کو ہاتھ ہل اہلا اور مائیک گرا گرا کے للکارتے اور لگے ہوئے بیرئیرز کو اٹھا کے دور پھینکتے ہوئے نظر نہیں آئے وہ تو بعد میں علم ہوا کہ ائیرپورٹ پہنچنا حکمت عملی کا حصہ ہی نہیں تھا۔

اعتراض اس وقت بھی ہوا جب انہوں نے الیکشن ہارنے کے بعد قومی اسمبلی میں حلف برداری کے والے اجلاس میں احتجاج نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ دروغ بہ گردن راوی، شہباز شریف سے زیادہ مسلم لیگ نون کے دیگر ارکانِ قومی اسمبلی میاں نواز شریف کے سگے اور وفادار نکلے جن کی اکثریت نے احتجاج کرنے کی پرزور حمایت کی یوں شہباز شریف اپنی سیٹ پر براجمان رہے اور لیگی ارکان رانا ثناء اللہ خان کی قیادت میں نواز شریف کی تصویریں اٹھائے نعرے بازی کرتے نظر آئے۔ اس نعرے بازی نے عمران خان کو اتنا بدمزہ کیا کہ ان کا پہلا خطاب ہی تلخ ہو گیا پھرشاہ محمود قریشی کو بتانا پڑا کہ جناب عمران خان یہ کہنا چاہتے تھے، جناب عمران خان وہ کہنا چاہتے تھے۔

یہ بھی کہا گیا کہ مسلم لیگ ن کو انتخابات میں ہونے والی دھاندلی پر احتجاج کی قیادت کرنی چاہئے اور جتنا مضبوط سٹینڈ (ہار جانے کے بعد) مولانا فضل الرحمان نے لیا ہے وہ الفاظ، لہجہ اور موقف جناب شہباز شریف کا ہونا چاہئے تھا مگر انہوں نے جلد ہی ایوانوں میں نہ جانے کی دھمکی کے غبارے سے پیپلزپارٹی کی مدد حاصل کرتے ہوئے ہوا نکال دی۔ پچیس جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات کو ایک مہینہ ہوا ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ صدارتی انتخابا ت کے غُلغُلے میں الیکشن میں دھاندلی، پولنگ ایجنٹوں کو باہر گنتی کے عمل سے باہر نکال دینے اور فارم پینتالیس کے پولنگ ایجنٹوں کے دستخظوں کے بغیر اجرا والے ایشوز رفتہ رفتہ نان ایشو ہو چکے ہیں۔ کہا گیاتھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی طرف سے وائیٹ پیپر جاری کریں گی مگر مسلم لیگ ن اس پر کیا کام کر رہی ہے کسی کوکچھ علم نہیں ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ مبینہ انتخابی دھاندلی پر سب سے زیادہ شور اور احتجاج کا حق (یا فرض) مسلم لیگ ن کا ہی بنتا تھا کیونکہ پیپلزپارٹی کو اچھی طرح علم تھا کہ اسے وفاق کی حکومت نہیں مل سکتی، دوسری طرف سندھ میں بیڈ گورننس کے باوجود اسے پہلے سے زیادہ پارلیمانی نشستوں سے نواز دیا گیا تھا مگر دوسری طر ف اس جماعت کو ہر جگہ ٹھینگا دکھا دیا گیا تھا جس کی صدارت شہباز شریف کر رہے تھے۔

یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ شہباز شریف مفاہمت کے حامی ہیں اور اتنے ہی حامی ہیں جتنے عمران خان ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسی جماعت کی صدارت پر ہیں جس کی قیادت حقیقت میں میاں نواز شریف کے پاس ہے۔ یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ شہباز شریف اپنے تمام تر ترقیاتی کاموں اور گڈ گورننس کے نعروں کے باوجود اپنی پارٹی میں بھی مقبولیت میں فی الوقت دوسرے نمبر پر بھی نہیں ہیں۔ شہباز شریف کی قیادت میں ہی پارلیمانی پارٹی کا وہ اجلاس ہوا تھا جس میں قومی اسمبلی میں حلف اٹھاتے ہوئے سسٹم کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ ایک تکنیک سے حاصل کیا گیا کہ الیکشن میں جیتنے والوں پر مشتمل پارلیمانی پارٹی سے پوچھا گیا کہ وہ قومی اسمبلی کا حصہ بنیں گے، یہ وہی صورتحال تھی جس میں کسی نے حافظ صاحب سے پوچھا، حافظ جی حلوہ کھاو گے؟حافظ صاحب ترنت بولے، کیوں نہیں کھائیں گے، ہم حافظ بنے کس لئے ہیں؟ مسلم لیگ ن اگر سخت ردعمل ظاہر کرنا چاہتی تو وہ پارٹی کی مجلس عاملہ یا جنرل کونسل کا اجلاس بلاتی جن کے ارکان کو صدور کے انتخاب کے لئے ہاتھ کھڑا کرنے کے سوا کبھی کوئی زحمت نہیں دی جاتی۔

بات یہاں سے شرو ع ہوئی کہ لیگی کارکن شہباز شریف سے ناراض نظر آئے۔ ان کی ناراضی اس وقت بھی ظاہر ہوئی جب قومی اسمبلی میں شہباز شریف اور پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز شریف لیڈر آف دی اپوزیشن بنے، کہا گیا کہ یہ دونوں باپ بیٹا نواز شریف اور مریم نوازکے نظریے اور نعرے (ووٹ کو عزت دو) کو دفن کر دیں گے۔ ایک اندازہ تھا کہ شہباز شریف سسٹم کا حصہ بننے کے لئے اپنے دوستوں سے بات کریں گے، ان سے سودے بازی کریں گے کہ اگر مسلم لیگ ن اس نظام کو قبول کرتی ہے تو اسے کیا ریلیف ملے گا۔ کیا پنجاب کی حکومت ارکان زیادہ ہونے کی بنیاد پر نواز لیگ کو مل جائے گی، کیا میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ضمانت پر رہائی ملے گی اور کیا نیب کی کارروائیوں میں ان پر روا رکھی جانے والی سختی کم ہو گی۔ میں نہیں جانتا کہ شہباز شریف نے مفاہمت کے ذریعے کوئی کامیابی حاصل کی ہے یا نہیں مگر انہوں نے نواز لیگ کے کارکنوں اور سپورٹروں کی ناراضی ضرور مول لی ہے۔ یہ سوال الگ ہے کہ اگر کوئی احتجاجی تحریک چلتی تو ٹوئیٹر پر ٹرینڈ بنانے والوں اور فیس بک پر شور مچانے والوں کی کتنی تعداد سڑکوں اور دھرنوں میں ہوتی کہ نواز شریف قدم بڑھاؤ کا نعرہ لگانے والوں کو آج سے اٹھارہ، انیس برس پہلے اپنے پیچھے سے غائب ہوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔

میرا سوال نواز لیگ کے ان جذباتی کارکنوں سے ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نظریے سے بغاوت کر رہے ہیں۔ جو کارکن شور مچاتے ہیں کہ شہباز شریف نے انتخابی مہم اچھے سے نہیں چلائی، جو اعتراض کرتے ہیں کہ دھاندلی کے خلاف مضبوط موقف اختیار نہیں کیا گیا، جن کو شکوہ ہے کہ شہباز شریف سے زیادہ زوردار آواز مولانا فضل الرحمان کی رہی، وغیرہ وغیرہ، وہ بتائیں کہ کیا چھوٹے بھائی، بڑے بھائی کی مرضی کے بغیر پارٹی کے صدر بنے ہیں؟ کیا نواز شریف کو علم نہیں کہ ان کے موقف کو آگے بڑھانے اور مفادات کی حفاظت کے لئے ان کے بھائی سے بہتر کردارادا کرنے والے لیگی رہنما کون سے ہیں؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسمبلیوں میں جانے سمیت مسلم لیگ ن جو فیصلے کر رہی ہے انہیں میاں نواز شریف کی حمایت حاصل نہیں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ میاں نواز شریف کے جیل میں ملاقاتیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اخبارات میں شائع ہونے والے ہر بیان کی تردید ہوجاتی ہے اور کیا وجہ ہے کہ مختلف عدالتو ں میں پیشی کے وقت بھی صحافیوں سے گفتگو میں میاں نواز شریف اپنی پارٹی کے فیصلوں کو مسترد کرنا تو ایک طرف رہا، ان پر اعترا ض والا ایک لفظ بھی نہیں بولتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).