بیگم صالحہ مرزا سے گفتگو جن کا بچہ آٹزم میں مبتلا ہے


(قارئین یہ انٹرویو تقریبا ایک سال قبل لیا گیا تھا۔ اس کے کچھ عرصے بعد بیگم صالحہ کا حرکتِ قلب بند ہو جانے کی وجہ سے انتقال ہو گیا)

گذرتے وقت کی مسلسل کروٹوں کے ساتھ بیتی یادیں دھندلا جاتی ہیں، لیکن کچھ مناظر نگاہوں میں ٹھہر سے جاتے ہیں۔ میری یاد میں بھی ایک ایسا ہی منظرِ زندہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
یہ کراچی میں رہنے والا ایک خاندان ہے کہ جس کے چھوٹے بڑے کئی افراد ایک کم سن بچے کے گرد جمع ہیں۔ یہ بچہ کہ جس کا پیار کا نام بوبی ہے، گاہے بگاہے زور سے تالی بجاتا ہے۔ تیزی سے ہاتھوں کو فضا میں ہلاتا ہے۔ اس کے منہ سے کبھی بے ہنگم چیخ نکلتی ہے تو کبھی مہمل الفاظ۔ سبھی بچے کی حرکتوں سے اس طرح محظوظ ہو رہے ہیں، گویا تفریح کا اس سے اچھا اور سستا موقع کبھی ہاتھ نہیں لگے گا۔ بار بار بوبی کو چھیڑا جاتا ہے اس طرح تالیوں چیخوں اور قہقہوں کے درمیان مقابلے کا رقص سا جاری ہے۔ ایسے میں ایک بے بس ماں زخمی شیرنی کی طرح تڑپ کر بچے کے گرد رشتہ داروں کے ہجوم کو چیرتی اپنے لختِ جگر کو سینے سے لگاتی ہے۔
’’تم سب بس بھی کرو۔ مت تنگ کرو میرے بچے کو۔‘‘
اس ماں کی آواز میں خفگی، کھسیاہٹ اور ممتا کی تڑپ ہے، اور پھر مجمع چھٹتا ہے۔ ساتھ ہی اس بے ہودہ تفریح کا سلسلہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

کل کا کمسن بوبی آج امریکا کا باعزت شہری ہے۔ وہ نوکری کرتا ہے اور کسی حد تک اپنا خرچ اٹھاتا ہے۔ بوبی جس ذہنی معذوری کے ساتھ پیدا ہوا اس کو طب کی دنیا میں آٹزم کہا جاتا ہے۔ بوبی کی ماں صالحہ مرزا نے پاکستان میں ہی نہیں، بلکہ امریکا منتقلی کے بعد بھی بہت جاں فشانی سے اپنے بچے کی مسلسل تربیت کی۔ یہاں ان اداروں میں کہ جہاں ذہنی معذوری والے بچوں کی تربیت کا خاص انتظام ہوتا ہے میں، نہ صرف بچہ کو داخل کروایا بلکہ مسلسل رضا کارانہ (Volunteer) خدمات بھی پیش کیں، تا کہ اپنے بچے کی ذہنی کیفیت سے آگہی کے ساتھ ساتھ وہ اس کی تربیت میں بھی برابر سے معاونت کر سکیں۔ وہ مائیں جن کے بچے کسی بھی قسم کی (ذہنی و جسمانی) کم زوری یا معذوری کا شکارہوتے ہیں، اپنی زندگی میں حائل ہزار ہا مشکلات سے گزرتی ہیں۔ کئی بار تو مر مر کے جیتی ہیں لیکن پھر بھی ہمت نہیں ہارتیں۔ یہ ان کی جرات مندی، جفاکشی اور ممتا کی طاقت ہی تو ہے جو ان کے بچوں کو حوصلہ، اعتماد اور آگے بڑھنے کی قوت دیتی ہے۔ اگر سماجی فکر اور اپچ میں جمود طاری ہو تو معاشرہ کم فہمی، دقیانوسیت اور بے حسی کا رویہ روا رکھتا ہے۔ لیکن اگر صورت احوال اس کے بر عکس ہو، تو معاشرہ ایسے خاندانوں خاص کر ماؤں کو بڑھ کر تھام لیتا ہے۔ مزید سہارا اور حوصلہ دیتا ہے۔ ماؤں کے عالمی دن کے حوالے سے درج ذیل انٹرویو ایسی ہی تمام ماوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی ادنی سی سعی ہے، کہ جن کے بچے ’’خاص‘‘ ہیں۔ (یہ اس سلسلے کا پہلا انٹرویو ہے۔ واضح رہے کہ رازداری کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ناموں اور کچھ واقعات میں رد و بدل کی گئی ہے)

سوال: پہلے تو اپنے متعلق بتائیں؟
جواب: میرا تعلق کانپور ہندوستان سے تھا۔ گھرانا پڑھا لکھا تھا، خود میں نے بھی 1960 میں علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویٹ کیا۔ مجھے تعلیم کے شعبے سے دل چسپی تھی۔ پڑھانا خصوصاََ بچوں کی نفسیات کو سمجھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ کچھ سال تدریس کے شعبہ سے وابستہ بھی رہی۔ لیکن 1962 میں شادی کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ ویسے بھی انڈیا سے پاکستان (کراچی) منتقل ہو گئے۔ پہلی اولاد میری بیٹی تھی جو ذہنی اور جسمانی طور پر قطعی صحت مند تھی، لیکن سوا سال بعد (بوبی) اظفر علی پیدا ہو گئے، جن کو بعد میں آٹزم تشخیص ہوا۔

سوال: آپ کا زمانہِ حمل کیسا تھا ؟
جواب: بالکل نارمل اور بوبی کی پیدائش بھی بالکل نارمل طریقے سے ہوئی۔
سوال: بوبی کی ذہنی کیفیت یعنی آٹزم کا کس طرح اندازہ ہوا؟
جواب: وہ تو پرانا دور تھا اس وقت ہمیں ان سب مخصوص کیفیات کے ناموں کا علم نہ تھا۔ لیکن چوں کہ میری ایک بیٹی اور اس کے علاوہ بھی خاندان کے بچے سامنے پل بڑھ رہے تھے تو جلد ہی یہ اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہوئی کہ کوئی بات ہے جو ٹھیک نہیں ہے۔
سوال: مثلا کیا علامات تھیں جو عام بچوں سے مختلف محسوس ہوئیں؟
جواب: پہلے تو یہی کہ دوسروں کے مقابلے میں چونچال نہیں بلکہ سست ہیں۔ انگلیاں منہ میں رہتی تھیں جن کو چباتے رہتے۔ رال ٹپکتی رہتی۔ یہ کیفیت چار پانچ برس تک جاری رہی۔ کمر میں کم زوری کے باعث تین سال میں چلنا اور تقریبا دو سال کے بعد بولنا شروع کیا۔
سوال: ڈاکٹرز کو دکھایا؟
جواب: بالکل دکھایا، لیکن ڈاکٹر اور رشتے داروں سے تسلیاں زیادہ ملیں علاج نہیں۔ ڈاکٹر سکون آور گولیاں دے دیتے جس سے بوبی سو جاتا یا گم ہو جاتا۔
سوال: اور کیا علامات تھیں؟
جواب: عام بچے کے برعکس کونے میں بیٹھے کسی گول چیز یا پہیے، خواہ کہیں سے بھی مل جائے؛ اس سے مسلسل کھیلتے رہتے۔ اس کو گھما کر دیکھتے اور تالیاں بجا کر خوش ہوتے۔ پھر دونوں ہاتھ فضا میں اس طرح چلاتے کہ جیسے پنکھا چلتا ہے۔ ہیجان کی کیفیت میں ہاتھوں کی حرکت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ پھر ایک خاص علامت ’’شور سے گھبرانا‘‘ تھی۔ شور چاہے لوگوں کا ہو یا مشینوں کا ان کی بے چینی بڑھ جاتی۔ ان کو تو بس اپنا خاموش گوشہ الگ تھلگ ہی اچھا لگتا تھا۔ گھر والوں سے تو مانوس تھے لیکن اگر کوئی باہر والا آ جائے، تو غصے سے اگر بیٹھے ہیں سر زمین پر مارتے اور اگر کھڑے ہوئے ہوتے تو سر دیوار پہ مارنا شروع کر دیتے۔ کسی کا بھی مخاطب ہونا، ماسوائے گھر والوں کے پسند نہیں تھا۔ ان کی اپنی ہی ایک دنیا تھی، جس میں دوسروں کا عمل دخل پسند نہیں کرتے تھے۔

سوال: اور کوئی علامت؟
جواب: ہاں یہ منظم بہت ہیں۔ زندگی میں بچپن سے آج تک کسی قسم کی بے قاعدگی اور غیر منظم انداز برداشت نہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنا پسند نہیں۔ تاہم اگر غصہ میں آ جاتے تھے تو دوسرے کو گھورتے ضرور تھے۔ چاہے تھوڑی دیر ہی کو سہی۔ میں نے ان کو پڑھانے کی بہت کوشش کی لیکن ان کی سمجھ عمر کے اعتبار سے کم تھی۔ گو وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سمجھ میں اضافہ ہوتا گیا۔ تعلیم کی کمی کے باوجود انگریزی اور اردو بہت با محاورہ بولتے ہیں۔ بہت اچھی طرح اپنے کپڑوں کو رکھتے ہیں۔ تیار بہت ہی اچھی طرح ہوتے ہیں۔ کوئی اوٹ پٹانگ میچنگ نہیں ہوتی۔
سوال: کبھی خدا سے سوال کیا ’’آخر میرا ہی بچہ کیوں؟‘‘
جواب: ہاں! بہت دفعہ کیا اور خیال آیاکہ ﷲ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟مگر آہستہ آہستہ اپنے غم پہ قابو پانا سیکھ لیا کہ اب میں راضی بہ رضا ہوں۔ جو خدا کی مرضی اور مصلحت۔
سوال: کبھی اپنے دکھ میں کسی کو شریک کیا؟
جواب: سوائے اپنی ماں کے کسی کو بھی نہیں، کہ ماں ہی دوست اور قریب ہوتی ہے۔ اماں نے بوبی کو پالنے میں بہت ساتھ دیا۔
سوال: شوہر اور گھر والوں کا کیا رویہ تھا؟
جواب: شوہر نے ہمیشہ بہت تعاون کیا، خصوصا امریکا میں۔ پاکستان میں تو گھر میں ملازم بھی تھے۔ یہاں تو ہر کام آپ کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ سسرال والوں نے کبھی طعنہ تشنہ سے کام نہیں لیا ۔ بلکہ میرے دکھ کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن اس قسم کی کیفیت کو سمجھنے کا رویہ عمومی نہیں۔

سوال: عام طور پہ لوگوں کا کیا رویہ رہا بوبی کے ساتھ ؟
جواب: آپ کو پتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بچوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک ہوتا ہے۔ کوئی چھیڑ رہا ہے تو کوئی ستا رہا ہے۔ مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔
سوال: ایسے میں آپ کے دل پر کیا گزرتی ہے؟
جواب: مت پوچھیے، بہت تکلیف اور غصہ آتا تھا۔ دل چاہتا ہے کہ کہوں ’’اس کو کیوں ستاتے ہو اﷲ سے کہو، پیدا کرنے والا تو وہ ہے۔ اور یہ تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے‘‘۔ مگر میں نے کبھی نہ کسی کو دل سے بد دعا دی اور نہ ہی برا کہا۔ مجھے یقین اور ایمانِ کامل تھا کہ اﷲ انصاف کرنے والا ہے۔

سوال: آپ کے صبر میں مذہب کا کیا کردار تھا؟
جواب: صد فی صد! میں اﷲ سے فریاد کرتی کہ اگر تم نے تکلیف ڈالی ہے تو مجھے سکت دے کہ میں برداشت کر سکوں۔ میں ذاتی طور پہ مذہبی ہوں مگر مذہبی جنونی نہیں۔ میرے نزدیک مذہب بہت ہی ذاتی معاملہ ہے۔ میرے ایمان نے مجھے صبر کی قوت دی۔ مجھے دکھ کے وہ لمحے آج بھی نہیں بھولتے کہ جب بوبی کو لوگ پگلوٹ یا آدھا پاگل کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ میں نے ڈِپریشن کے عالم میں گھر سے نکلنا چھوڑ دیا۔ بس کبھی کبھی ان رشتہ داروں کے یہاں چلی جاتی تھی، جو میرے بچے سے شفقت کا سلوک برتتے تھے۔

سوال: جب بچے کی حالت زیادہ ہیجانی ہو جاتی تھی تو کیا کرتی تھیں؟
جواب: ان کو سنبھالنے کے لیے یا (soothing) کے لیے جو سب سے کار آمد چیز تھی، وہ موسیقی تھی۔ ریڈیو یا دوسرے آلاتِ موسیقی کا بہت مثبت اثر ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ جسمانی ایکسر سائز سوئمنگ وغیرہ بھی سود مند ثابت ہوتی تھی۔ اگر کسی بات پہ غصہ ہے تو دھیان بٹانے کی کوشش کرتی تھی مگر موسیقی تو سائنس نے ثابت کر دی ہے کہ آٹسٹک بچوں کے لیے بہت مفید ہے۔ حالاں کہ ملاؤں نے موسیقی کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا ہے۔ مگر دیکھا جائے تو کائنات کی ہر شے مثلاََ پتے، بارش میں تال ہے، سر ہے ۔ مگر یہ ملاؤں کا کیا کیا جائے کہ مذہب کا اپنے حساب سے پوسٹ مارٹم کر دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ موسیقی حرام ہے۔

سوال: امریکا میں کب منتقل ہوئیں؟
جواب: ستر کی آخری دہائی میں۔ اس وقت بوبی کی عمر تیرہ چودہ سال کی تھی۔ اس طرح اس کی انتہائی تربیت کے اہم سال پاکستان میں گزر گئے تھے۔ آج بھی میں سوچتی ہوں کہ کاش کم عمری میں آنا ہوتا تو اور بہتر ہو سکتا تھا۔
سوال: ایک آٹسٹک بچے کو پالنے میں آپ کی تعلیم کا کیا فائدہ ہوا؟
جواب: میری تعلیم نے میرا ذہن کھولا۔ مجھے سوال پوچھنے اور فکر کرنے کی صلاحیت دی۔ اور بحیثیت مجموعی مثبت اندازِفکر دیا۔ میرا زمانہ تو پھر بھی پرانا تھا، لیکن میں ضروری سمجھتی ہوں کہ عورت کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔علم کے زور سے بہت سی گھتیاں سلجھنے لگتی ہیں۔ حالات سے شکست کھانے کے بجائے لڑنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔

سوال: یہاں کے تعلیمی نطام سے بوبی میں کیا فرق پڑا؟
جواب: یہاں اس قسم کے بچوں کے لیے حکومت بہت کچھ کرتی ہے۔ ویسے تو یہ بات اچھی ہے کہ جنرل کلاس روم میں اسپیشل چلڈرن کو پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے کے دوسرے افراد کے لیے ذہنی یا جسمانی معذوری کوئی اعجوبہ نہیں رہتی۔ اور لوگوں میں قبولیت پیدا ہوتی ہے۔ اس قسم کے افراد کے لیے۔ پھر ان کے لیے الگ تربیت کا انتظام بھی ہوتا ہے، اور اسپیشل ایجوکیشن کے ماہر افراد بچوں کو ان کی ذہنی صلاحیت، استعداد اور رجحان کے مطابق ہدف (گول ) دیتے ہیں۔ یہ گو ل آئی ای پی میٹنگز میں والدین اور اسکول کے دوسرے اہم عملے کے ساتھ ڈسکس کیے جاتے ہیں۔ اس طرح بچوں کی مختلف سطح پر تربیت ہوتی ہے۔ مثلا اسپیچ تھراپی، گرومنگ، تعلیم وغیرہ۔ بڑی عمر میں ان کو ملازمت کے لیے بھی تیار کیا جاتا ہے۔ جو ذہنی چیلنج سے زیادہ عام سطح پہ ہونے والے معمولی جسمانی مشقت کے کام ہوتے ہیں۔

سوال: بوبی کیا کرتے ہیں؟
جواب: ان کی تربیت فیکٹری میں سامان کی پیکنگ یا تھیلوں میں سامان بھرنے کی ہوئی۔ یہ آج کل ایک فیکٹری میں ہفتے میں پانچ دن کام کرتے ہیں اور پندرہ دن بعد جمعے کو تنخواہ کا چیک بھی لاتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایسے افراد معاشرے کا مفید فرد بن سکیں اور خود اپنی عزت بھی کر سکیں۔ سنا ہے اب پاکستان میں بھی ایسے ادارے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ خدا اور بہتری کرے۔

سوال: کوئی پیغام اپنے جیسی ماؤں کے لیے؟
جواب: تعلیم حاصل کریں۔ جس مرض کی بھی تشخیص اس کے متعلق خوب پڑھیں اور گہرائی میں جا کر معلومات حاصل کریں۔ کسی مفروضے پہ یقین نہ کریں۔ مثلا یہ کہ ’’بچے پر جن سوار ہو گیا‘‘، ’’بچہ قبرستان سے گزر گیا ہو گا۔‘‘ پوری لگن اور دل جمعی سے صرف بچے ہی کا خیال رکھنا ضروری نہیں، بلکہ اپنا بھی خیال رکھیں۔ اور اپنی ذہنی تفریح کا بھی سامان کریں۔ جو مسئلہ ہے وہ تو رہے گا۔ اس کو حل کرنے کی یا بہتری کی صورت نکالنے کے لیے خود کو اچھا رکھنا بھی ضروری ہے۔
سوال: آپ کیا کرتی ہیں؟ اب تو بوبی ماشا ﷲ خود کفیل ہے؟
جواب: مجھے سوانح عمری، ادبی اور جاسوسی کتابیں پڑھنے اور سلائی کا شوق تھا۔ بڑھاپے کی وجہ سے سلائی کم ہو گئی ہے، لیکن مطالعہ زندگی بھر جاری رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).